لوٹ مار آنکھوں سے اوجھل کیوں رہی؟

لوٹ مار آنکھوں سے اوجھل کیوں رہی؟
لوٹ مار آنکھوں سے اوجھل کیوں رہی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


حکومت سندھ کے ماتحت ادارے کراچی بلدیہ کے ایک چھوٹے ملازم لیاقت قائم خانی کے گھر وں پر چھاپوں کے بعد قومی احتساب بیورو کے حکام نے اربوں روپے مالیت کی نقد رقم کے علاوہ ہیرے جواہرات، گاڑیاں، وغیرہ اپنے قبضے میں لی ہیں۔ لیاقت کے ایم سی میں ڈائیریکٹر کے عہدے پر فا ئز تھے،جہاں سے انہوں نے اپنے اثاثوں میں ہوش ربا اضافہ کیا۔وہ بلدیہ کراچی میں گریڈ ایک میں بھرتی ہوا تھا، لیکن اس کے احباب میں گریڈ21اور22کے افسران بھی شامل تھے۔ ڈائریکٹر پارکس کوئی بڑا عہدہ نہیں ہے۔ جہاں سے اتنی دولت اکٹھی کی جا سکے۔ ان کے بارے میں یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ وہ بعض ذمہ دار لوگوں کے فرنٹ مین کی حیثیت سے بھی کام کرتے تھے۔ یہ تو انہوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے کراچی میں 71 پا رکوں کی تعمیر کا کام کیا، لیکن تمام کے تمام کاغذوں پر تعمیر کئے گئے۔ یقینا یہ متعلقہ ٹھیکیداروں کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں تھا، لیکن پارکوں کی تعمیر میں اتنا پیسہ نہیں ہو گا۔اس الزام میں حقیقت نظر آتی ہے کہ وہ بعض ذمہ داروں لوگوں کے فرنٹ مین کی حیثیت سے بھی کام کرتے تھے۔ کراچی کے میئر وسیم اختر نے تو اپنی جان چھڑانے کے لئے ایک بیان بھی داغ دیا کہ لیاقت کے ہمارا مشیر ہونے کا تاثر درست نہیں ہے۔ان کا کبھی ایسا تقرر نہیں ہوا۔ ہارٹی کلچر میں ان کے تجربے سے پارکوں کو بہتر کرنے کے لئے مشورہ کیا جاتا تھا۔میئر کراچی واضح کریں کہ لیاقت کے اس بیان کی کیا حیثیت ہے کہ وہ کراچی میں 71پارکوں کی کاغذوں پر تعمیر کا پیسہ کھا گیا۔ لیاقت نے صرف کراچی میں شہید بے نظیر بھٹو کے نام پر پارک میں ایک کروڑ کی تعداد میں جعلی درخت لگائے۔ 2012ء میں پارک کے لئے مختص کئے گئے 24 کروڑ روپے ہضم کر لئے۔ کہاں تھے وہ لوگ جو شہید رہنما کے نام پر حکومت کر رہے ہیں۔انہیں کیوں نظر نہیں آیا کہ ایک معمولی شخص کس کس طرح لوٹ مار کر رہا ہے۔


عوام کے لئے مختص ترقیاتی فنڈ میں جس طرح پاکستان میں ڈاکے مارے گئے ہیں وہ دل خراش ہیں۔ بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کا معاملہ ہو یا پنجاب کے احد چیمہ کا کیس ہو یا سندھ کے لیاقت قائم خانی کا معاملہ ہو، یہ گنتی کی مثالیں ہیں۔ اتنے بڑے ڈاکوں کے بعد بھی نیب قانونی گھتیاں سلجھانے میں مصروف ہے،جن لوگوں نے پلی بارگین کیا ہے ہا جن لوگوں کے پاس سے ان کی بظاہر ذرائع آمدن سے زیادہ رقمیں وغیرہ برآمد ہوئی ہیں،انہیں سخت سزائیں ہونی چاہیں، برسوں مہمان بنا کر انہیں حکومتی ادارہ اپنے پاس رکھے تو کیا جواز ہے۔ چوروں،ڈاکوؤں اور خائن لوگوں کو نیب کیوں مہمان بنا کر رکھے ہوئے ہے؟ نیب کو ان تمام لوگوں کے معاملات کے بارے میں عوام کو اعتماد میں لینا چاہئے۔


سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کے رکن خرم شیر زمان نے گزشتہ روز ہی سوال اٹھایا کہ وفاقی حکومتوں نے حکومت سندھ کو گزشتہ دس سال میں ساڑھے تین ہزار ارب روپے فراہم کئے ہیں، حکومت سندھ ان پیسوں کا تو حساب دے۔ حکومت سندھ کی آئیں، بائیں اور شائیں کے علاوہ تاویلات اور شکایات اپنی جگہ، لیکن حساب کتاب تو صاف رکھا جائے تاکہ عوام کو بھی معلوم ہو سکے کہ ان کے لئے مختص رقومات پر کیوں اور کس بے دردی کے ساتھ ڈاکے ڈالے گئے ہیں۔ سندھ کے اسپتالوں میں کتے کاٹے کے انجکشن موجود نہیں ہیں، بعض متاثرہ بچے والدین کے آنکھوں کے سامنے ایڑیا ں رگڑ رگڑ کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ریگستانی علاقوں میں جہاں حالیہ بارشوں کے بعد سانپ وغیرہ نکل آئے ہیں، سرکاری ہسپتالوں میں سانپ کاٹے کے انجکشن نہیں پائے جاتے ہیں۔ عام لوگوں کی موت کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے، کیا اس کے ذمہ دار وہ لوگ نہیں ہیں،جو حکومت کر رہے ہیں۔بظاہر سرکاری محکموں کی یہ رقمیں منی لانڈرنگ کرنے کے کام آئی ہیں۔


اگر اس تماش گاہ میں ان ڈاکوں کا فوری سدِباب نہیں کیا گیا، ملزمان کو سزائیں نہیں دی گئیں تو پھر پاکستانیوں کے مستقبل کے بارے میں جو مَیں سوچتا ہوں وہ لکھنا یا بولنا نہیں چاہتا ہوں۔ خمیازروں کا اندازہ تو تمام ہی لوگوں کو ہونا چاہئے۔

مزید :

رائے -کالم -