افغانستان…… تیزی کیوں؟
افغان صدر اشرف غنی کے انتخابی جلوس پر خود کش حملے کے نتیجے میں 50 کے قریب افغان شہری زندگی ہار گئے۔اشرف غنی اپنی انتخابی مہم پر تھے، جب ایک سائیکل سوار خود کش بمبار نے ان کے قافلے میں گھس کر خود کو اُڑا لیا،اس حادثہ کے چند گھنٹے بعد ہی کابل شہر میں جہاں امریکی سفارتخانہ بھی موجود ہے، ایک اور خود کش دھماکہ ہوا۔
افغانستان میں اس ماہ پانچ کے قریب خود کش دھماکے ہو چکے ہیں،جن میں 60افراد ہلاک اور 100 کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔طالبان نے دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اشرف غنی انتظامیہ اور غیر ملکی افواج کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا اعلان بھی کیا ہے۔امریکی صدر ٹرمپ نے اس ماہ کے اوائل میں طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا، اور وہ اس دلیل کے ساتھ کہ طالبان مذاکرات کے دوران بھی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اور انہیں انسانی زندگی کی کوئی پروا نہیں۔صدر ٹرمپ کی طرف سے انسانی زندگی کے احساس کی بات اگرچہ ایک سفاکانہ لطیفے سے کم نہیں،اس کے باوجود طالبان کا رویہ سمجھ سے باہر ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران افغانستان سے باہر طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں۔ایک طرف طالبان اور امریکہ کے درمیان امن مذاکرات زلمے خلیل زاد کی وساطت سے جاری تھے اور دوسری طرف افغانستان کے مختلف بااثر حلقوں کے ساتھ طالبان کے مذاکرات روس میں جاری رہے۔اسی طرح ایران کے ساتھ بھی طالبان کے مذاکرات جاری ہیں۔ اس طرح کی صورتِ حال میں طالبان کے لئے افغانستان کی حکومت کے ساتھ بات کرنا کچھ بھی مشکل نہ تھا،لیکن طالبان غالباً اپنی قوت کے حوالے سے زیادہ پُراعتماد ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ادھر امریکی افواج افغانستان سے نکلیں اور ادھر کابل انتظامیہ کے زیر انتظامیہ پوری افغان ریاست ان کے قدموں میں ڈھیر ہو جائے گی،افغان زمینی حقائق کیا ہیں،اس پرکوئی بھی حتمی رائے نہیں دے سکتا، لیکن یہ صورتِ حال خطے کے لئے خطرناک ہے۔ افغانستان میں امریکہ طالبان مذاکرات کا خاتمہ اور افغانستان میں جنگ میں تیزی اس وقت عمل میں آئی ہے،جب کشمیر کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں انتہائی کشیدگی پیدا ہو چکی ہے۔مودی کے جارحانہ عمل کے مقابل امریکہ نے پاکستان کی حمایت کرنے کی بجائے اسے بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے۔اگرچہ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو امریکہ کا یہ موقف اپنے دیرینہ موقف سے بالکل مختلف تھا،لیکن ٹرمپ انتظامیہ اسلامی ممالک کے حوالے سے انتہائی متعصب جانبداری پر عمل پیرا ہے۔ مشرقی وسطیٰ میں ٹرمپ نے شام کی جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کا حتمی قبضہ قبول کر لیا ہے۔
گزشتہ روز سعودی عرب پر ہونے والے میزائل حملوں کے حوالے سے ٹرمپ نے واضح اعلان کیا ہے کہ امریکہ سعودی عرب کی سلامتی کا ذمہ دار نہیں اور نہ ہی وہ ایران سے جنگ کرنا چاہتا ہے، ایک طرف صدر ٹرمپ حملے کے پہلے روز سے حملوں کا الزام بغیر کسی ثبوت کے ایران پر عائد کر رہے ہیں اور دوسری طرف سعودی عرب کے حوالے سے ایک ایسا بیان جاری کرتے ہیں جو سعودی عرب کے لئے ناپسندیدہ ہو سکتا ہے۔یوں ٹرمپ نے اپنے آپ کو دونوں ممالک سے دور رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔امریکہ پاکستان کی حکومت اور مقتدر قوتوں سے افغانستان میں امن کے لئے تعاون چاہتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ کشمیر کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دینے کے باوجود کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے منافقانہ بیان بھی جاری کرتا ہے۔
بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں ایک معمر افغان خاتون سے بات کی، جو آنسوؤں اور ہچکیوں میں بتا رہی تھی کہ فضائی حملے میں اُس کے ایک سالہ پوتے سمیت پورا گھر ختم ہو چکا ہے، ہر مرنے والے کا چہرہ خون میں لت پت تھا،اُسے کیا پتہ تھا کہ اُس کے گھر پر کیوں حملہ کیا گیا۔وہ تمام کے تمام سادہ سے دیہاتی لوگ ہیں۔اگر طالبان پر پاکستانی اثرو رسوخ کا پرانا راگ دہرایا جاتا رہا تو پاکستان ایک مرتبہ پھر امریکہ کا ناپسندیدہ ٹھہرے گا اور اگر کوئی پاکستان مخالف قوت امریکہ طالبان مذاکرات کو سبوتاژ کر رہی ہے تو یہ بھی پاکستان کے مفادات خلاف ایک سازش ہے۔طالبان آج اپنے ہی معصوم عوام پر خود کش حملے کیوں کر رہے ہیں،جبکہ وہ تو پہلے ہی نیٹو کے بمباروں کے نشانہ پر ہیں، معاملہ کچھ بھی ہو، افغانستان میں بڑھتی ہوئی خونریزی ہمارے مفاد میں نہیں ہو گی اور یہ خونریزی کشمیر کے انسانی المیہ کو عالمی نظروں سے اوجھل کرنے کی کوشش ہی نہ ہو، وہاں جس طرح کشمیر کا معاملہ انسانی حقوق اور ممکنہ نسل کشی کے حوالے سے گھمبیرتا حاصل کر رہا ہے، مودی سرکار کو افغانستان میں ہی کسی کھیل میں مصروف نہ ہو۔