روپانی فاؤنڈیشن کا کردار کیا؟
ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے مسائل ہیں جن کا تدارک ہم کرنا ہی نہیں چاہتے بہت سی مشکلات کے ایسے سمندر بھی ہیں جن کی کمزور لہروں کو کہیں دور سے ہی دیکھ کر کبوتر کی مانند آنکھیں میچ لیتے ہیں اور سمندر میں اترنے سے ڈرتے ہیں۔ یہ ڈر؟
کیا ایسے مسائل حل ہوں گے یا کیا ان ذمہداریوں سے دست بردار ہونا اور بھاگ کھڑے ہونا ان کا واحد حل ہے یقیناً نہیں وجدان کی کمی سے پیدا ہونے والی بے حسی اور لا شعوری نے ہمیں بربادی اور اندھیرے کے اس کنوے میں دھکیل دیا ہے جہاں سے واپسی کی اب ایک ماند کرن دور کہیں نظر آرہی جسے کے سہارے ہمیں ان تاریکیوں سے نکلنا ہے۔
تعلیم، شعور اور آگاہی یہی وہ واحد حل ہے جس کی کرنیں اس کنویں سے نکلنے کا سبب بن سکتی ہیں۔ اس حوالے سے روپانی فاؤنڈیشن اپنا کردار باخوبی ادا کر رہا ہے۔ گزشتہ دنوں روپانی فاروپانی فا?نڈیشن کے چیئرمیں نصرالدین رپانی کو ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ عموماً ماں کی گود کو بچے کی پہلی درس گاہ کہا جاتا جاتا ہے جبکہ اصل میں بچے کے سیکھنے کا عمل تب ہی سے شروع ہوجاتا ہے جب وہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے۔ بچے کے آنے والے مستقبل کیلئے ضروری ہے کہ ماں کو ایک استاد بنایا جائے تاکہ وہ اپنے بچے کی ذہنی تربیت کر سکے جو سب سے زیادہ ضروری ہے۔ اگر پاکستان میں بچوں کو بہترین تعلیم اور ان کی اچھی ذہنی تربیت دی جائے تو یہ بچے مستقبل میں پوری دنیا کیلئے لیڈر بن کر ابھرے گے۔ ہم امریکہ میں رہتے ہیں لیکن ہنارا دل پاکستان کیلئے دھڑکتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں 22 ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں ہم ان کے مستقبل کی فکر ہونی چاہئے۔ رپانی فاؤنڈیشن یہ چاہتی ہے کہ ماں کو ایک ٹیچر بنایا جائے تاکہ وہ اپنے بچے کی پیدائش سے قبل ہی اس کی تربیت کر سکے۔ کسی بھی معاشرے میں ماں اور استاد کا بہت کردار ہوتا ہے اگر یہ دو لوگ اپنا کام صیحح طریقے سے کریں تو کسی بھی قوم کا مستقبل روشن بن سکتا ہے آج پاکستان کو بھی اسی عمل کی ضرورت ہے۔ ان کامزید کہنا تھا کہ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم ایک ماں کو اور اس کے گھر کے ماحول کو کیسے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ آج ایک عورت کی شادی ہوتی ہے تو اس پر زور ڈالا جاتا ہے کہ فوراً بچہ پیدا کر کے دے لیکن ہمیں یہ نہیں پتہ کہ جب وہ عورت ایک نئے گھر میں آتی ہے رو اس پر بہت سا دباؤ ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک نئی جگہ پر آئی ہے اس دباؤ کا اثر بچے کی پیدائش پر بھی پڑتا ہے۔ اگر ماں صحت مند نہیں ہوگی تو بچہ بھی کمزور پیدا ہوگا۔ آج پاکستان میں 45فیصد بچے کمزور اور کم وزن پیدا ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنی مکمل نشونماء تک نہیں پہنچتے۔ ہماری فاؤنڈیشن اس حوالے سے پاکستان کے ہر گاؤں اور شہر میں موجود گھروں میں آگاہی فراہم کر رہی ہے۔ ہم بچوں کی پیدائش اور ان کی نشونماء پر توجہ دے کر دنیا میں لیڈر پیدا کرنے ہیں۔ بچے کے اس سیکھنے کا عمل ان کی پیدائش کے بعد کے تین سال ہوتے ہیں جسے میں ہمیں ان پر توجہ دینے اور ایک پر سکوں گھریلو ماحول مہیا کرنے کی ضرورت ہے۔ نا تین سالوں میں بچے کا دماغ 90 فیصد تک افزائش پا چکا ہوتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میں آج جو بھی ہوں پاکستان کی بدولت ہوں اب یہ میرا فرض ہے کہ میں پاکستان کی خدمت کروں۔ بچوں کی ذہنی تربیت کا عمل بہت اہم ہے جس کیلئے سکولوں کا کردار بھی اہم ہوتا ہے۔ اس حوالے سے تمام اسٹاک ہولڈرز کو بھی اعتماد میں لے رہیں اور حکومت بھی بہترین اصلاحاتی کردار ادا کر رہی ہے ہم وزیراعظم عمران خان کے ویڑن کی تائید کرتے ہیں اور پاکستان میں تعلیمی رفامزکیلئے کوشان ہیں۔ اس کے علاوہ اس ماہ کی 26,25 تاریخ کو اسلام آبادمیں ایک کانفرنس کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہے جس میں پوری دنیا سے اس مسئلے پر بات کرنے کیلئے اسپیکرز کو مدعو کیا گیا ہے۔ یہ کام ہم اکیلے نہیں کر سکتے اس لیے ہمیں پاکستان کے ہر فرد کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنا کردار ادا کرے۔ میرے لیے اس ملک کا ایک بچہ صرف بچہ نہیں بلکہ اس ملک کا مستطل ہے۔ پاکستام یں بہت سے مسائل ہیں جن کا واحد حل Early Chil Developmentہے۔
یہ وہ تمام عنصر ہیں جس کی آگاہی اور شعور ہونا بہت ضروری ہے۔ امید ہے کہ ہمیں یہ تمام چیزیں جس کی ہمیں ضرورت ہے جلد سمجھ آجائیں اور یہ روشنی کی کرنیں ایک چھوٹے سے پودے کو تن آور درخت بننے مید مدد کرے۔