یکساں نصاب آسان نہیں
جب سے تحریک انصاف اقتدار میں آئی ہے، اس نے اپنے مرکزی تعلیمی ایجنڈے کے طور پر ایک ”یکساں قومی نصاب“ کی بات کی ہے۔تاہم، آج تک اس بارے میں واضح نہیں ہوسکا کہ اس کا اصل مطلب کیا اور منزل کہاں ہے، ایسے وقت میں جب تعلیم کے لیے بجٹ بہت کم ہے، فیسیں بڑھ رہی ہیں،بڑے بڑے سرکاری تعلیمی ادارے مالی بحران کا شکار ہیں، پرائیویٹ تعلیمی ادارے حکومت کی بے تکی پالیسیوں کے سبب الگ سے سخت مشکلات کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں، یکساں نصاب لاگو کرنا ہرگز آسان نہیں، تاریخی طور پر، پاکستان میں متعدد‘قومی تعلیمی ’پالیسیاں رہی ہیں، تاہم ان کے نفاذ کے بعد بھی زیادہ بڑی کامیابیاں حاصل نہیں کی جاسکیں آخری ”نیشنل ایجوکیشن پالیسی“ 2006 ء میں مرتب کی گئی تھی، اور اس کے بعد سے تا حال کوئی قومی پالیسی نہیں بن سکی کیونکہ اب اٹھارویں ترمیم کے تحت تعلیم ایک صوبائی معاملہ ہے اور اسی طرح ہر صوبے کی اپنی اپنی تعلیمی پالیسیاں بھی ہونگی۔ تو پھر حکومت کا پلان کیا ہے؟۔ یکساں قومی نصاب ہر گز کوئی بیکار منصوبہ نہیں۔ اس ملک میں جو طبقاتی تفریق ہے اس کی بنیادی وجہ مختلف نصاب، مختلف سکولز،مختلف طریقہ ہائے امتحانات اور سب کو ایک جیسے مواقع کی عدم دستیابی ہے۔ چونکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہر پاکستانی کو روزگارملے اور یونیورسٹی کی تعلیم میسر آئے تو اس بات پر کوئی ہرج نہیں کہ یکساں قومی نصاب لاگو ہونا چاہئے مگر اتنے بڑے منصوبے پر عمل درآمد کے لیے کچھ شرائط ہیں۔ طبقاتی تفریق ہونے کی ایک وجہ سہولیات کا فرق ہے۔ایک طرف معمولی درجے کے مدارس ہیں پبلک اور پرائیویٹ سکول ہیں اور دوسری جانب ایچی سن جیسے ادارے ہیں اور پھر درمیانے طبقے کے بڑے سکول ہیں۔اگر فیس کے اعتبار سے دیکھیں تو ان میں جو سہولیات میسر ہیں وہ بالکل مختلف ہیں۔ ایچی سن کے باغات کو دیکھیں، وہاں جو کھلے میدان ہیں، کمپیوٹر لیبز، سائنس لیبز، لائبریریز ہیں اور اعلی تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ اساتذہ ہیں اور انہیں بھاری تنخواہیں بھی دی جاتی ہیں اور جو ہمارے محلے کے سکول ہیں ان کے حالات سے تو سب واقف ہیں۔ یہ بات سب جانتے ہیں کے سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے اکثر بچے انگریزی تو دور کی بات اردو میں بھی ڈھنگ کے جملے نہیں لکھ سکتے جبکہ گرائمر سکول کا بچہ پانچویں جماعت میں ہی انگریزی میں اعتماد سے تقریر کرتا پھرتا ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ تمام بچوں میں ایک جیسی صلاحیت ہے تو پھر کیوں سرکاری سکول کے بچے اتنا پیچھے رہ گئے ہیں؟۔اگر حکومت نے نصاب ایک ہی طرح کا کر بھی کردیا تو اس سے برابری نہیں آئے گی۔ اس کے بعد آپ او اور اے لیول کے طریقہ ہائے امتحان کا بورڈ کے طریقہ ہائے امتحان سے مقابلہ کرکے دیکھ لیں۔ وہاں بھی ہمیں زمین اور آسمان کا فرق دیکھنے کو ملے گا۔ پچھلے دنوں شائع ہونے والے ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کے مضمون میں اس بات کی بہترین مثال ملتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بورڈ کے امتحانات میں ریاضی کے پرچے میں یہ سوال پوچھا گیا ہے کہ الوگرتھم کا موجد کون تھا؟۔ اس سے کیا فرق پڑھتا ہے کہ الوگرتھم کا موجد کون تھا؟ اس کے برعکس او اور اے لیول میں آپ سے کہا جاتا ہے الگورتھم کا استعمال کرکے دکھائیں۔ اس سے صاف صاف نظر آتا ہے ایک طرف رٹا چلتا ہے اور دوسری طرف وہ نظام جو آپ کو جدید دنیا کے لیے تیار کرتا ہے۔ کہہ سکتے کہ ایچی سن سے پڑھے ہوئے طلبہ جدید دنیا کے لیے بڑی حد تک تیار ہیں، عملی زندگی کے طور طریقے اور اس سے متعلقہ علم سے پوری طرح سے آشنا ہیں۔
اگر حکومت کو یکساں نصاب تعلیم اور نصاب نافذ کرنا ہے تو اس کے لیے بہت جامع پلاننگ کرنا ہوگی اور خاصی رقم خرچ کرنا پڑے گی، بجٹ کی ترجیحات کا ازسر نو جائزہ لینا ہوگا،اس ملک کے اندر جو تقریباً ڈھائی لاکھ سکول ہیں ان میں سے اکثر و بیشتر پسماندہ سکول ہیں اور کچھ سکول ہیں جہاں پر فیس چھ ہزار، آٹھ ہزار، دس ہزار ہے۔ اور ایسے بھی سکول موجود ہیں جہاں ماہانہ فیس پچاس ہزار روپے ہے تو جہاں پانچ سو روپے فیس ہے اور جہاں پچاس ہزار فیس ہے ان میں کیا برابری ہو سکتی ہے۔ تو پھر سرکار نے کیسے سوچا ہے کہ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز۔ سرکار پھر ان کا نصاب کیسے ایک جیسا کر سکتی ہے۔ اس منصوبے کے حوالے سے حکومت نے ابھی تک تو اتنا ہی کیا ہے کہ نصاب میں مذہبی مواد کا اضافہ کرنے کا سوچا ہے تاکہ تاثر ملے کہ کسی حد تک یکسانیت آگئی ہے، دینی حوالے سے اب ایچی سن والے ساری وہ چیزیں سکھیں گے جو مدرسے کے طلبہ سیکھتے ہیں۔ کیا ہمارا تعلیمی مسئلہ بس یہیں تک محدود ہے،اصل مسئلہ یہ ہے کہ آج پاکستان علمی، سائنسی اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بہت بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اس کے ہمیں کئی شواہد ملتے ہیں۔حالات ایسے ہیں کہ کئی دیگر شعبوں کی طرح تعلیم کے شعبے میں زیادہ تر ترقی پذیر ممالک ہم سے آگے نکل چکے ہیں۔ ہمارا جو خلائی پروگرام ایران سے کئی سال پرانا ہے وہ بالکل ٹھپ پڑا ہوا ہے، کیوں؟ اسی لیے کیونکہ یہاں جو تعلیم کا معیار ہے وہ ایسا ہے ہی نہیں کہ ہم ایسے انجینئر اور سائنس دان پیدا کر سکیں جو غیر معمولی کارنامے دکھا سکیں۔ ایک اور مثال قابل غور ہے پچھلے سال بھارت نے سافٹ ویئر کی شکل میں 190 بلین ڈالر برآمد ات کیں اور پاکستان نے صرف 1.9 بلین ڈالر کی،ہمارے لیے یہ کس قدر شرم کی بات ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ ہمارے تعلیمی ادارے انتہائی ناقص ہیں۔ زیادہ تر اداروں میں ڈھنگ سے کچھ نہیں پڑھایا جاتا، ایک اور سنگین مسئلہ یہ ہے کہ حکومت نے پرائیویٹ پبلشرز کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ پرائیویٹ پبلشرز ملک کی 70 فیصد نصابی کتابیں شائع کرتے ہیں اور ان کے پاس ایک سال کا سٹاک پہلے سے ہی موجود ہوتا ہے۔ کورونا وباکے باعث ان مہینوں میں ان کا مال بھی فروخت نہیں ہوا اور اب اگر حکومت یک دم ”یکساں قومی نصاب“پروجیکٹ کو لانچ کرتی ہے تو ان کا اربوں کا مال ردی کی ٹوکری کی نذر ہو جائے گا اور بے روزگاری کا طوفان مزید بیس لاکھ افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ یکساں تعلیمی نصاب ہے تو بہت اچھی بات، حکومت اسے یہاں پر ضرور لاگو کرے لیکن پہلے اس کے لیے بنیادی ضروریات،سہولیات، شرائط پوری کی جائیں۔ پہلے حکومت کو اس کے لیے جو رقم درکار ہے وہ مختص کرے۔ اس کے بعد جو امتحانات کا طریقہ کار ہے اس کو بدلے۔