نئی نیلگوں صبح اور نئے سفر کا آغاز ہے، سندھواور ماحول دونوں ہی پرسکون ہیں، مشرق سے ابھرتے سورج کا تھال اپنی سنہری دھوپ کائنات پر بکھیر چکا ہے

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:137
موسیقی کی یہ محفل اپنے اختتام کو پہنچی تو چندا ماموں ہر طرف اپنی نرم نرم چاندنی پوری طرح سے پھیلا چکا ہے۔دب اکبر صحرائی اور دریائی مسافروں کو راہ دکھانے کا قدرتی نظام فلک پر تاروں کے جھرمٹ میں صاف دکھائی دے ر ہی ہے۔یہ خدائی نظام کا حصہ ہے جو دریاؤں اور صحراؤں میں مسافروں کو راہ سے بھٹکنے نہیں دیتا ہے۔ قدرت کا جی پی ایس سسٹم۔ دوست اپنے اپنے خیموں میں چلے آئے ہیں۔ نین کے لئے رات گزارنا اس ویرانے میں مشکل ہو گی کہ اسے ڈر لگے گا۔ گھنٹہ بھرہی گزرا تھا کہ ملاحوں کے کیمپ سے خراٹوں کی بھر پور آواز آنے لگی ہے۔ کچھ ایسا ہی حال مشتاق کا بھی ہے۔ باس اور قاسم نقوی بھی خواب خرگوش میں ہیں۔ میرے کھاتے میں ایک اور رات کا جگراتا ہے۔ مجھے خیمہ کے پاس سایہ نظر آیا ہے۔ باہر آیا تو یہ نین ہے۔ بولی؛ مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے اور باقی کسر ان خراٹوں نے پوری کر دی ہے۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسی کے خیمے میں چلا آیا ہوں۔ باہرکافی خنکی ہے۔ اس نے سر میرے سینے پر رکھا، میری بانہوں کے گھیرے اور گرمائش نے جلد ہی اسے نیند کی وادی میں اتار دیا ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کے منے منے سے خراٹے سنائی دینے لگے ہیں۔ خیمہ میں آتی چاندنی میں اس کا چہرہ اور بھی حسین اور معصوم لگ رہاہے۔ دن بھر کے سفر اور تھکاوٹ کے بعد ایسی نیند کی ہی ضرورت ہے۔ میں کب سویا یاد نہیں البتہ صبح باس نے آواز دی، خیمہ سے باہر آیا تو وہ بولے؛”میاں اگر نماز پڑھ سکتے ہو تو پڑھ لو ابھی کچھ وقت ہے۔“ سیانے اکثر گہری بات ہی کرتے ہیں اور باس بھی سیانے ہیں۔ میں مسکرا دیا۔ وضو کیا اور اللہ کے دربار میں جھک گیا ہوں کہ”وہ عظمت اور جلال والا ہے، عظیم قدرت طاقت والا ہے۔عرض و سماء کا مالک ہے۔زندگی اور موت اسی کی ہی قدرت ہے۔ وہ حئی و قیوم اور ہمشیہ رہنے والا ہے، وہ الرحمن رحیم اور معاف کرنے والا ہے۔ اے اللہ ہم شرمندگی، نافرمانیوں اورگناہوں کے ساتھ تیرے دربار میں حاضر ہیں۔ ایک بات ہے کہ کبھی شرک نہیں کیا، تجھ پہ ہی بھروسہ اور تجھ پر ہی توکل ہے، تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہی ہے، اے اللہ ہم پر اپنا رحم اور فضل کر، ہمیں بخش دے۔ آقا ئے دوجہاں ﷺ کے طفیل ہمیں معاف کر دے بے شک تو ہی معاف کرنے والا رحیم ہے۔ ہمیں سیدھے راستے پر چلا اُن لوگوں کے راستے پر جن پر تیرا انعام و اکرام ہوا نہ کہ ان لوگوں کے راستے پر جن سے تو ناراض ہوا۔آمین۔ بے شک وہ سننے والا، بخشنے والا، مہربان اور دلوں کے بھید جانتا ہے۔ اپنے بندوں کی دعا سنتا ہے۔ اپنے بندے سے سات ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ اے اللہ ہمیں دنیا اور آخرت میں نیکو کاروں میں شامل رکھنا۔ آمین۔“
نماز سے فارغ ہوا تو دیکھا چاچا گاموں اور حضور بخش ناشتہ بنانے کی تیاری میں لگے ہیں۔ مشتاق اور قاسم نقوی بھی خیمے سے باہر آ گئے ہیں۔ باس بولے؛”جاؤ اور جا کے عافیہ کو بھی اٹھا دو۔ ہمیں جلدی روانہ ہونا ہے۔چڑھتے سورج کا ایک منظر ہم اٹک پل پر دیکھ آئے ہیں۔ آج نیا منظر ہے دریا کے کنارے۔ طلوع آفتاب میں ابھی کچھ وقت ہے اور دور سندھو کے پانیوں پر ہلکی ہلکی سی دھند سی چھائی ہے۔ دور افق پر ایسے لگ رہا ہے جیسے بادلوں کے کچھ ٹکڑوں نے اپنا رنگ بدل لیا ہو۔کچھ ہی دیر میں طلوع ہوتے سورج کے جلوے، اس کی نرم شعاعیں، باد نسیم، لہر در لہر آتی سندھو کی قرمزی لہریں۔ سبحان اللہ۔ قدرت کے جلوں کی انتہا ہے۔
پراٹھے، آلو کی بھجیا اور املیٹ کے ناشتے سے فارغ ہوئے ہیں۔ کیمپ اکھاڑ کر پھر سے کشتی میں لاد دئیے گئے ہیں۔ ایک نئی نیلگوں صبح اور نئے سفر کا آغاز ہے۔ سندھواور ماحول دونوں ہی پرسکون ہیں۔ مشرق سے ابھرتے سورج کا تھال اپنی سنہری دھوپ کائنات پر بکھیر چکا ہے۔ ہوا ٹھنڈی اور سورج کی روشنی سندھو کے پانی میں ہلکورے لیتی محسوس ہو رہی ہے۔کشتی سندھو کی موجوں پر کھینے لگی ہے۔ مجھے فلم ”سفر“ کا گیت
ندیا چلے چلے رے دھارا
چندا چلے چلے رے تارا
تجھ کو چلنا ہو گا چلنا ہو گا
یاد آ گیا ہے۔ مجھے نین فلم کی شرمیلا ٹیگور لگی۔اس نے سرگوشی کی؛”آج ڈولفن نظر آئے گی کیا؟ ”ضرور انشااللہ۔“ میں نے جواب دیا۔
دریا میں کشتی کھینا کوئی آسان کام نہیں۔ ارد گرد پر نظر رکھنی پڑتی ہے۔ لہروں کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ سب سے بڑا خطرہ گرداب (بھنور) ہو تے ہیں۔اگر کشتی بھنور میں پھنس جائے تو نکلنا آسان نہیں ہوتا۔ وہاں پانی گہرا اور تیزی سے دائرے میں گھومتا ہے اور پھنسی چیز کو جلد ہی اپنی تہہ میں لے جاتا ہے۔ یہی دریائی سفر کا سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اگر مسافر تیراکی سے واقف نہیں تو پھر خطرہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ ہم میں سے اکثر اس فن سے ناواقف ہی ہیں۔ ویسے سبھی ملاح تیراکی کے فن کے ماہر ہوتے ہیں۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بْک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)