پورے شہر میں ایک ہی چھّپرہوٹل تھا جہاں 4آنے میں دال سبزی اور روٹی ملتی تھی، بڑے پیسے بچا کر بچوں کیلئے کھٹ مٹھی گولیاں لے جاتے جس کا گھروں میں بے چینی سے انتظار کیا جاتا تھا

  پورے شہر میں ایک ہی چھّپرہوٹل تھا جہاں 4آنے میں دال سبزی اور روٹی ملتی تھی، ...
  پورے شہر میں ایک ہی چھّپرہوٹل تھا جہاں 4آنے میں دال سبزی اور روٹی ملتی تھی، بڑے پیسے بچا کر بچوں کیلئے کھٹ مٹھی گولیاں لے جاتے جس کا گھروں میں بے چینی سے انتظار کیا جاتا تھا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:45
نیم کے ایک بڑے درخت کے نیچے رنگ دار پگڑیاں پہنے جوڑیوں والے منہ میں دو الغوزے ٹھونسے لوک گیت سناتے پھرتے تھے۔ اسی طرح چند خواجہ سرا ٹھمکے لگاتے تالیاں بجاتے یا کسی چھوٹے بچے کو اٹھا کر ناچنا شروع ہو جاتے۔ اس وقت خواجہ سرا صرف اپنی اداؤں سے ہی من کو لبھاتے تھے ان کے لیے میک اپ ابھی اتنی ترقی یافتہ شکل میں موجود نہیں تھا بلکہ شاید ایجاد بھی نہیں ہوا تھا اس لیے وہیں کہیں قریب ہی کسی گشتی نائی سے داڑھی مونچھ منڈواتا ہوا خواجہ سرا بھی دکھائی دے جاتا تھا۔جسے دیکھ کر ہر کسی کے چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی تھی۔وہ خود بھی کھسیانہ سا ہو کر نظریں جھکا لیا کرتا تھا۔
بڑے لوگ مستیاں کرتے اور کُشتیوں یا کبڈی کے جوڑ پڑتے، جلیبیوں اور مٹھائیوں کی شرطیں لگتیں اور جیتنے والوں کو کندھوں پر اٹھا کر خوب شور مچاتے اورمیلے کے چکر لگاتے۔بچوں کے لیے سادے سے دو سفری جھولے تھے جن کے نیچے پہیئے لگے ہوتے تھے، حسب ضرورت اور موسم کے مطابق وہ حرکت میں رہتے، عورتوں اور بڑی لڑکیوں کو میلے میں جانے کی اجازت نہیں تھی‘ اس لیے ان کی مخصوص چیخ و پکار کی کمی شدت سے محسوس ہوتی تھی۔ 
وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا اور بس یونہی اچانک شام ہو جاتی اور لوگ لٹ لٹاکر گھروں کی راہ لیتے۔ اگر کسی کے پاس چار پیسے بچ جاتے تو وہ چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے بھی مرو نڈے یا برفی کے ایک دو ٹکڑے لے جاتا۔
فاصلے ایسے بھی ہو ں گے
گھروں سے ذرا باہر نکلتے تو ہر سُو ریت ہی ریت نظر آتی تھی۔کئی کئی دن چلنے والی آندھیاں نئے نئے ٹیلوں کو جنم دیتیں اور پرانے راتوں رات غائب ہو جاتے تھے اور اگلے روزلوگ ڈھونڈتے ہی رہ جاتے۔نہر کے ساتھ والے ڈاک بنگلے سے ٹیلی گراف کے کھمبے فورٹ عباس تک جاتے تھے۔ ویسے بھی وہاں جانے کا سب سے آزمودہ اور محفوظ راستہ بھی یہی تھا، لوگ کھمبوں کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے تھے۔راستے میں ایک بڑی نہر ہاکڑہ آتی تھی، وہاں کپڑے اتار کر سر پر رکھ لیتے تھے اور نہر میں گھس کر پانی کے اندر چلتے ہوئے اس پار جا نکلتے۔ نہر اتنی گہری تھی کہ صرف سر ہی باہر رہ جاتاتھا، ہاں اس بات پر نظر رکھی جاتی تھی کہ نہر عبور کرنے کے اس عمل کے دوران مکمل تنہائی ہو‘ تاکہ بے پردگی کا خدشہ نہ ہو۔ بچوں کو کندھوں پر بٹھا کر نہر پار کرا دی جاتی تھی۔خواتین ساتھ ہوتیں تو کوئی دو کلو میٹر دور جا کر ایک پلی سے گزر جاتے۔
وہاں سے مزید چار پانچ کلومیٹر کا سفر طے کر کے محض نام کے شہر فورٹ عباس پہنچ جاتے جو بس ایک بڑا سا گاؤں ہی لگتا تھا۔ اس میں صرف ایک بازار تھا جس میں عام گھریلو استعمال کی چیزوں اور کپڑے وغیرہ کی چند دکانیں تھیں۔ اس کے علاوہ غلّہ منڈی میں آڑھتیوں کی دکانیں اور گودام تھے۔ پورے شہر میں ایک ہی چھّپرہوٹل ہوتا تھا جہاں چار آنے میں دال یا سبزی اور روٹی مل جاتی تھی۔ دیہاتوں سے آنے والے لوگ اپنی روٹی ساتھ باندھ کر لاتے تھے کیونکہ چار آنے روٹی پر خرچ کردینا بڑے حوصلے کی بات ہوتی تھی۔ و ہ یہ پیسے بچا کر ان سے بچوں کے لیے کھٹ مٹھی گولیاں لے جاتے تھے جس کا گھروں میں بے چینی سے انتظار کیا جارہا ہوتا تھا۔ میں نے بھی اپنے بچپن میں وہاں ایک دفعہ کھانا کھایا تھا اس لیے اب تک یاد ہے اس دن دال تو نہیں تھی ہاں ٹینڈے بنے ہوئے تھے۔
ہمارے ہاں بھی خواتین ہفتہ بھر اپنی ضروریات کا اندازہ لگاتی رہتی تھیں اور پھر ایک روز باقاعدہ اعلان ہوتا تھا کہ کل صبح ہمارے ایک تایا نور محمد نے، جو ابا جان کے تایازاد بھائی تھے، شہر جانا ہے اس لیے جس کسی کو بھی کچھ منگوانا ہے تو اس کے بارے میں بتا دیں اور پیسے بھی دے دیں۔ ہمارے سب کے یہ تایا تعلیم یافتہ نہیں تھے اس لیے ہر ایک سے ان کی ضروریات کا سن لیتے اور پیسے لے کر اپنے صافے کے کسی کونے میں باندھ لیتے۔ اسی طرح ان کے صافے میں بے شمار گانٹھیں لگ جاتیں۔ انھی میں ایک گانٹھ ہماری بھی ہوتی تھی۔ماں اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو میں لکھ بھی دیا کرتی تھیں خاص طور پر جب ہم نے کتابیں اور کاپیاں منگوانا ہوتی تھیں۔وہاں میرے ماموں عبدالحق یہ سب کچھ خرید کر بھیج دیا کرتے تھے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بْک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -