”مریضوں کو حاصل ہونیوالی صحت و شفاء دراصل ان کے اپنے تصور اور خیال کے اثر کا نتیجہ تھا“ اس تحقیقاتی رپورٹ کے آنے کے بعد مسمیر کو فرانس بد ر کر دیا گیا

مصنف: ڈاکٹر جوزف مرفی
مترجم: ریاض محمود انجم
قسط:50
اندھا اعتقاد اور ایمان، کس طرح کارگر ثابت ہوتا ہے اور اس کا طریقہ کار کیا ہے، اس کی وضاحت کی خاطر ایک مثال ملاحظہ فرمایئے:
”فرانز اینٹن مسمیر (Franz Anton Mesmer) نامی، سوئنرلینڈ کے ایک فزیشن کے ساتھ گفتگو کو اپنے ذہن میں دوبارہ لایئے۔ 1776ء میں اس نے دعویٰ کیا کہ اس نے مصنوعی مقناطیس کو مریضوں کے بدن سے مس کرنے کے ذریعے ان کا علاج کیا۔ بعدازاں وہ اپنے اس دعوے سے دستکش ہو گیا اور اس نے ”حیوانی مقناطیس لہروں“ کے ذریعے مریضوں کے علاج کا دعویٰ کیا۔ پھر اس نے ایک ایسے مائع کے ذریعے مریضوں کا علاج کرنے کا نظریہ پیش کیا جو عمومی طور پر اس کائنات میں موجود ہے، لیکن خصوصی طور پر یہ مائع انسانی خلیوں میں بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے۔
اس نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس کی طرف سے مریضوں کی طرف منتقل ہونے والا مقناطیسی مائع ہی دراصل مریضوں کیلئے صحت و شفا ء کا باعث ہے۔ لوگوں کی اکثریت اپنے امراض کے علاج کیلئے اس سے رابطہ کرنے لگی اور بہت سے پیچیدہ قسم کے مریض بھی شفاء پا گئے۔
بعدازاں مسمر (Mesmer) پیرس چلا گیا اور وہاں کے گورنر نے متعدد ڈاکٹروں اور اکیڈمی آف سائنس (Academy of Science) کے اراکین پر مشتمل ایک کمیشن قائم کیا تاکہ مسمر کے طریقہ علاج کے بارے تحقیق کی جائے۔ منجمن فرنیکلن (Benjamin Franklin) بھی کمیشن کا ایک رکن تھا۔ کمیشن کی طرف سے جاری کی گئی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اس کے طریقہ علاج کے اہم نکات و حقائق کی تصدیق کی گئی تھی لیکن مقناطیسی مائع کے ذریعے علاج کے ضمن میں انہیں کوئی ثبوت ہاتھ نہیں آیا تھا۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ مریضوں کو حاصل ہونے والی صحت و شفاء دراصل ان کے اپنے تصور اور خیال کے اثر کا نتیجہ تھا۔
اس رپورٹ کے منظرعام پر آنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد مسمیر کو فرانس بدر کر دیا گیا اور وہ 1815 میں اس دنیائے فانی سے کوچ کر گیا۔ اس کے نہایت تھوڑے عرصے کے بعد ہی مانچسٹر کے ڈاکٹر بریڈ (Dr.Braid) نے یہ دعویٰ کیا کہ اس مقناطیسی مائع کے ذریعے مریضوں کا علاج قطعاً ممکن نہیں۔ ڈاکٹر بریڈ کے انکشاف کیا کہ شاید ان مریضوں کو تنویم کی حالت میں منتقل کر کے ان پر کوئی مخصوص خیال یا ہدایت مسلط کر کے ان کا علاج کیا جاتا تھا۔
مریضوں کے اس طرح صحت یاب ہونے کے ذریعے آپ فوری طور پر یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بلاشبہ، صحت و شفا ء کے حصول کا یہ عمل، مریضوں کے فعال تصور اور مریضوں کے تحت الشعوری ذہن کو پہنچنے والے صحت و شفا ء کے پیغام کے باہمی تعامل کا نتیجہ تھا۔ یہ تمام کارروائی اور یہ تمام عمل، ایک ”اندھے اعتقاد و ایمان“ کا نتیجہ کہا جا سکتا تھا کیونکہ اس دور میں کسی کو کوئی سمجھ نہ تھی کہ مریضوں کو صحت و شفاء کیسے حاصل ہوتی ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بْک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔