یونہی کوئی مل گیا تھا سرِ راہ چلتے چلتے۔۔۔میٹھی اور دلنشیں آواز ابھری اور روح کو سرشار کر گئی، وہ سوچنے لگا ان لفظوں میں کس قدر سچائی ہے

مصنف:یاسمین پرویز
قسط:15
یونہی کوئی مل گیا تھا سرِ راہ چلتے چلتے
میٹھی اور دلنشیں آواز ابھری اور اس کی روح کو سرشار کر گئی۔ وہ سوچنے لگا کہ ان لفظوں میں کس قدر سچائی ہے۔ زندگی کی شاہراہ پہ چلتے ہوئے بعض مرتبہ سرراہ ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو پل بھر میں ذہن و دل کے سارے گوشے شاداب کر دیتے ہیں۔
ثمینہ چائے کی پیالی لیے نمودار ہوئی اور ہمدردانہ لہجے میں مخاطب ہوئی ”آپ کو اس وقت موسیقی کی نہیں، آرام کی ضرورت ہے۔“ مگر جمال کو اس وقت یہ ہمدری بہت ناگوار گزری۔ اس نے خاموشی سے چائے کی پیالی لے لی۔
”خیر…… جو آپ کے جی میں آئے کیجیے۔ مجھے تو ابھی کتنے ہی کام نمٹانے ہیں۔“ وہ بڑی عجلت سے کمرے سے باہر نکلی اور جمال اس کی پشت پہ بے ترتیبی سے بکھرے ہوئے بالوں اور اس کے لباس کو دیکھ کر سوچنے لگا کہ اس نے اپنے آپ کو گھریلو مصروفیات میں کس قدر الجھا لیا ہے کہ اپنے آپ سے بھی بیگانہ ہو گئی ہے۔ جمال نے اگرچہ اس بیگانگی کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا، مگر ثمینہ کے پاس ان باتوں کو سوچنے کی فرصت کہاں تھی؟ وہ تو صرف اس کو جسمانی سکون پہنچا سکتی تھی۔ روحانی سکون تو اس کے نزدیک ایک بے معنی لفظ تھا۔ یا وہ اس سے آشنا ہی نہیں تھی۔
روحانی سکون کی اسی تمنا نے ایک دن اسے ”شاہین پیلس“ پہنچا دیا۔ جہاں پہنچتے ہی اسے یوں محسوس ہوا جیسے دکھوں کا اس کی زندگی سے کوئی واسطہ نہ رہا ہو۔ لان میں خوشنما پھولوں کی کیاریوں کے پاس گارڈن چیئرز پڑی تھیں۔ وسطی میز پہ پھولدان میں سجے نرگس کے تازہ پھولوں نے ہر طرف اپنی خوشبو بکھیری ہوئی تھی۔ بڑا پرکیف سماں تھا۔
فوزیہ نے بڑے تپاک سے اس کا استقبال کیا۔
”جمال صاحب! کافی پسند کریں گے یا چائے؟“
”کافی۔“
چند ہی لمحوں بعد، ملازم کافی کا سامان لے آیا۔
”لیموں پسند کریں گے یا دودھ؟“
”لیموں۔“
لانبی لانبی انگلیوں نے کافی کی پیالی اس کی طرف بڑھا دی۔
”آپ آج کل کیا لکھ رہے ہیں؟“ کافی کا گھونٹ حلق سے نیچے اتارتے ہوئے فوزیہ اس سے مخاطب ہوئی اور وہ اس سوال پر بوکھلا اٹھا۔ اس لیے کہ اس کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ وہ تو اپنے جاگتے ہوئے ذہن کو خواب آور گولیوں سے سلا رہا تھا۔ کاغذ قلم کی دنیا سے تو اس کا رشتہ کب کا ٹوٹ چکا تھا۔ مگر وہ سچ بولنے سے اس لیے خوفزدہ تھا کہ اسے عقیدت کے پھولوں کی مدہوش کن خوشبو سے محروم ہو کر سمٹتی ہوئی شخصیت کے پھر سے بکھر جانے کا خدشہ تھا مگر وہ اپنا دکھ نہ چھپا سکا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بْک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)