ابلیس کی پیروی کیوں؟ (2)
قرآن کریم میں سورة الاعراف نمبر7، آیات 11تا18 اور سورہ¿ ص، نمبر38کی آیات(71تا87) اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا بڑا گستاخانہ اور بے باکانہ طرز گفتگو ملاحظہ فرمایا جا سکتا ہے۔ یہی وہ موقعہ ہے جب اس نے اُمت ِ مسلمہ کو اغوا کرنے کی اجازت لے لی تھی۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم نے فرمایا کہ شیطان اپنی ذریات کو طلوع آفتاب کے وقت طلب کرتا ہے۔ خود سمندر پر تخت بچھاتا ہے اور دُنیا جہان کے ہر کونے میں دنگا فساد پھیلانے کی ذمہ داری سونپتا ہے۔ بالخصوص انسانی گھریلو زندگی کو تباہ و برباد کرنے میں زیادہ زور دیتا ہے۔ شام کو بوقت غروب آفتاب ہر گروہ سے رپورٹ طلب کرتا ہے۔ سب گروہوں سے دن بھر کی کارروائی سنتا ہے اور ناراض ہوتا ہے کہ تم میں سے کسی نے بھی کوئی بڑی کارروائی نہیں کی، حتیٰ کہ ایک گروہ آ کر بتاتا ہے کہ اُس نے ایک گھر میں خاندانی تنازعات کا آغاز کر دیا ہے ۔ یہ سن کر شیطان بہت خوش ہوتا ہے اور باقیوں کو کہتا ہے کہ یہ ہے وہ کام جس سے مجھے خوشی ہوتی ہے اور اس گروہ کو بغل میں لے کر شاباش دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ایسے فتنے چاہئیں، جن میں اجتماعی دشمنی پیدا ہو، تم نے تو کوئی ایسا کمال نہیں دکھایا“۔
(5) تلبیس ابلیس کے موضوع پر امام ابن الجوزی ؒ نے اپنی کتاب.... تلبیس ابلیس، امام غزالی ؒ نے اپنی کتاب منہاج العابدین میں شیطانی مکرو فریب کے ایسے راز افشا کئے ہیں، جنہیں ہر مسلمان، بالخصوصِ والیان ِ ملک اور صاحبان ِ اختیار و اقتدار کو ضرور جاننا چاہئے۔ اِس کتاب میں آپ خود فرماتے ہیں: ”بزرگان دین نے جن کا درگاہ ایزدی میں بلند مقام ہے، فضول اعتراضات کی پروانہ کرتے ہوئے اور تمام اُمت پر نظر کرم فرماتے ہوئے اس موضوع پر کئی کتابیں تصنیف فرمائیں۔ مَیں بھی اس ذات اقدس کی طرف متوجہ ہوا، جس کے قبضہ ¿ قدرت میں تمام عالم خلق و امر کی چیزیں ہیں کہ ایک ایسی کتاب تصنیف کرنے کی توفیق دے، جس پر سب متفق ہوں اور جس کے پڑھنے سے تمام کوفائدہ پہنچے، تو اس رحیم و کریم ذات نے میری التجا قبول فرمائی۔ اُس نے اپنے فضل و کرم سے عبادت کے عجیب و غریب اسرار و رموز پر مطلع فرمایا اور مجھے اس کتاب کی عجیب ترتیب و تدوین کا الہام فرمایا۔ ایسی ترتیب مَیں کسی اور کتاب کی تصنیف میں قائم نہیں رکھ سکا۔ یہ وہ تصنیف ہے، جس کی مَیں خود تعریف کرتا ہوں۔ اِس کتاب میں اپنے ہی ایک سوال ،شیطان کے مکر و فریب کس طرح معلوم ہو سکتے ہیں کے جواب میں ”وضاحت کی گئی ہے“۔
(6)۔ امام غزالی ؒ کی اس کتاب کے علاوہ ایک پنڈت کی مشہور و معروف کتاب ”انوار سہیلی ہے“، جس میں انہوں نے راج کماروں کے لئے ہدایات دی ہیں۔ علاوہ ازیں 2 مزید کتب کے مطالعے کا اتفاق ہوا، وہ ہیں علامہ کمال الدین دینوری کی شہرہ آفاق دو کتب ،کتاب الحیوان حصہ اول کے814صفحات اور دوسری کتاب کے 824صفحات ہیں، جس میں چیونٹی سے لے کر ہاتھی تک کے تمام حیوانات، چرند و پرند کے مفصل حالات کے علاوہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شیطان انسان کو کن طریقوں سے گمراہ کرتا ہے؟ یہ عجیب بات بتائی گئی ہے کہ دُنیا بھر کے پرندوں میں سے کوّا (غراب) ایسا پرندہ ہے، جو صبح سب سے پہلے بیدار ہوتا ہے۔ اگر85سالہ زندگی نے مزید وفا کی اور اخبار والوں نے اِس مضمون کو قابل ِ اشاعت جانا تو مذکورہ سب کتابوں کی تلخیص ان شا اللہ تعالیٰ قارئین کرام کی نذر ضرور کروں گا، تاہم چلتے چلتے روزِ محشر شیطان اپنی بداعمالیوں سے صاف مکر جائے گا۔ سورہ¿ ابراہیم نمبر14آیت نمبر22کا ترجمہ ملاحظہ فرما لیں:”اور شیطان کہے گا (میدان ِ حشر) میں جب سب کی قسمت کا فیصلہ ہو چکے گا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ تم سے کیا تھا، وہ وعدہ سچا تھا اور مَیں نے (شیطان) بھی تم سے وعدہ کیا تھا۔ پس مَیں نے تم سے وعدہ خلافی کی اور نہیں تھا تم پر میرا زور کچھ، مگر یہ کہ مَیں نے تم کو کفر کی دعوت دی اور تم نے فوراً قبول کر لی، میری دعوت۔ سو تم مجھے ملامت نہ کرو، بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو۔ نہ آج مَیں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میری فریاد رسی کر سکتے ہوں۔ مَیں انکار کرتا ہوں اس امر سے کہ تم نے مجھے شریک بنایا۔ اس سے پہلے بے شک ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے۔
روزِ محشر بدکاروں سے شیطان مخاطب ہو گا کہ مَیں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ قیامت نہیں آئے گی، کوئی حساب کتاب نہیں ہو گا، مَیں تمہارا ساتھی اور مددگار ہوں گا۔ حلال و حرام کی پروانہ کرو، جس طرح دولت کما سکتے ہو، کماﺅ اور داد عیش دو۔ سو اللہ تعالیٰ نے تو سارے وعدے پورے کر دیئے اور میرے وعدے جھوٹے تھے۔ مَیں نے خلاف ورزی کی۔ یہ جواب سن کر بدکار سیخ پا ہوں گے، تو شیطان کہے گا۔ مجھ پر کیوں ناراض ہوتے ہو۔ مَیں نے کب مجبور کیا تھا کہ میری پیروی کرو۔ مَیں تو تمہارا ازلی دشمن تھا۔ تم اتنے بے وقوف اور احمق نکلے کہ اندھا دھند میرے پیچھے بھاگے۔ اب مجھے کیوں کوستے ہو؟ اپنی کم عقلی ، بدبختی اور حماقت پر ماتم کرو۔ سب تمہارا اپنا قصور ہے۔ مَیں ہر گز تمہارے گناہوں کا ذمہ دار نہیں۔ تم دُنیا میں مجھے خدا کا شریک ٹھہراتے تھے۔ مَیں اس کا انکار کرتا ہوں اور صاف صاف بتائے دیتا ہوں کہ اللہ کا ہر گز شریک نہیں تھا، اس لئے ہم اس دن کے عذاب سے بچنے کے لئے اب بھی اصلاح کر لیں اور قرآن و سنت پر پوری طرح سے عمل پیرا ہو جائیں۔ ٭