سورن سنگھ ،گھبرو پاکستانی
تحریر: شاہدنذیر چودھری
سردار سورن سنگھ میرے فیس بک فرینڈ تھے ۔چھ ماہ پہلے انہوں نے مجھے فرینڈ ریکوئسٹ بھیجی اور پھرفون کرکے مجھے بونیر آنے کی دعوت دی تو میں نے ازراہ تفنن کہا” سردار جی خیرتو ہے۔کیوں مروانا چاہتے ہیں۔ہمیں تو بہت ڈر لگتا ہے ۔بونیر میں روزانہ کوئی نہ کوئی واقعہ ہوجاتا ہے “
”اوجان دیوچودھری صاحب ،ادھر خیر میر ہے،کوئی ڈر ور نئیں جناب۔تہاڈی ذمہ واری میری“.... انکے ساتھ مذاق میں بات شروع ہوئی اور پھرموضوع سنجیدہ ہوگیا۔انہوں نے کے پی کے میں تحریک انصاف کے کاموں کی تعریف کے پل باندھ دئیے اور پھرکہا” دشمن سب کا سانجھا ہے جناب۔ہم نے پاکستان کو بچانا ہے اور ایک نیا پاکستان بنا کر تبدیلی لائیں گے“
میں نے سوال کیا” ویسے سردار صاحب ادھرمسلمان محفوظ نہیں ،کے پی کے میں اقلیتیں کتنی محفوظ ہیں“
”جناب اس وقت جنگ ہورہی ہے اور د شمن نہیں دیکھتا کہ مسلمان کون ہے اور سکھ کون اور عیسائی ہندو کون۔ہم سب پاکستانی ہیں ،اگر میرا خون بھی پاکستان کی نذرہوجاتا ہے تو پرواہ نہیں۔مگر یہ کہہ دوں کہ میں شہید ہوا تو یہ خون ایک سکھ کا نہیں پاکستانی کا ہوگا“
مجھے سورن سنگھ کی باتوں سے ایک سچے کھرے اور پاکستان کی خوشبو آتی رہی۔میں نے وعدہ لیا کہ وہ لاہور تشریف لائیں گے تو میں کسسٹم ٹوڈے کے لئے انکا خصوصی انٹرویو کروں گا یا مجھے پشاورجانے کاموقع ملا تو لازمی ملاقات کروں گا۔اس دوران لاہور کے الحمرا ہال میں پشاور کے شہدا بچوں کی یاد میں مشاعرہ کا اہتمام کیا گیاتوانہیں بھی مدعو کیاگیا،ویسے بھی وہ وقف املاک بورڈ کی میٹنگ میں آیا جایا کرتے تھے لیکن اتفاق سے ان کے ساتھ ملاقات نہ ہوسکی۔مشاعرہ میں چند نوجوان سکھوں سے ملاقات ہوئی ۔وہ پشاور کے رہنے والے تھے اور لاہور کے نجی کالج میں پڑھتے تھے۔مشاعرے میں انکی دلچسپی اور انہماک دیکھ کر بات چیت ہوتی رہی تو انہوں نے بتایا کہ وہ سردار سورن سنگھ کی تحریک پر لاہور میں پڑھنے آئے ہیں اورسردار صاحب کی مدد سے بہت سے نوجوان سکھ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں اور اسکا پلس پوائنٹ یہ ہے کہ سورن سنگھ نے انہیں کمٹڈ پاکستانی بنانے میں اہم کردار ادا کیاہے........آج میں پریشان ہوں ۔ڈاکٹر سردار سورن سنگھ جیسے لوگ سالوں بعد جنم لیتے ہیں ۔وہ جان کی پرواہ کئے بغیر اپنی قوم میں پاکستانیت کی بوٹی لگاتے ہیں تو معاشرے میں اعتدال اور میانہ روی کا پودا مشک مچانے لگتا ہے ،پاکستان کو تو ایسے بہت سے سرداروں کی ضرورت رہی ہے جو پاکستانی مشک پیدا کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں ....
نئے پاکستان اور تبدیلی کے دیوانے سورن سنگھ کو پرانے پاکستان کی روائتی سیاست نے ابدی نیند سلادیا ،وہ سیاست کی اندھی اور ظالم ہوس کی نذر ہوئے ہیں۔انکے قاتل پکڑ لئے گئے ہیں لیکن وہ وادیاں جو اس گبھرو سکھ کے نعرہ پاکستان سے گونج اٹھتی تھیں آج بین کررہی ہیں۔ اقلیت کا نمائندہ ہونے کے باوجود سورن سنگھ کٹر پاکستانی تھے،ایسا علاقہ جو دہشت کی تھرتھراہٹ سے ہلکان ہوچکا ہے اور مائیں اپنے لاڈلوں کو اکیلے سفر پر نکلنے سے باز رکھتی ہیں جہاں کسی سیاسی اورمذہبی لیڈر کا محافظوں کے بغیر نکلنا ناممکن ہوچکا ہے وہاں یہ سورما اکیلا نکلتا ،گھوڑے پر سوار ہوتااور سرسبز ہلالی پرچم لہراتا ہوا کسی اساطیری کردار کی طرح پاکستان زندہ باد کا نعرہ¿ مستانہ لگایا کرتا تھا ۔یہ سورما پشاور اور اسلام آباد میں موٹر سائکل پر سوار ہوہوکر پرچم لہراتااور بے ساختہ نعرے لگا کر مسلمانوں میں بھی جوش پیدا کردیتاتھا۔اسکا جوش دشمنان پاکستان پر لرزہ طاری کرتا تھا۔
سورن سنگھ قتل ہواتو طالبان نے اسکے خون کو اپنے سر پر لے لیا اور کہا ” سورن سنگھ کو اقلیت کی وجہ سے نہیں مارا گیا بلکہ اس کی وجوہات کچھ اور ہیں جس کا علم حکومت اور اس کے اداروں کو ہے“ ٹی ٹی پی نے ان وجوہات کو تو بیان نہیں کیا تاہم ان کے نزدیک سورن سنگھ کے قتل کی سب سے بڑی وجہ انکا پاکستان کے ساتھ اخلاص ، رواداری اور امن پیدا کرنا تھا۔
سورن سنگھ ہمہ گیر شخصیت تھے۔پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر اور عمل کے اعتبار سے سیاستدان اوراینکرپرسن۔پشتون ٹی وی چینل اے وی ٹی خیبر کے لیے وہ ”زہ ہم پاکستانی یم“ (میں بھی پاکستانی ہوں) جیسا پروگرام تین سال تک کرتے رہے۔حالیہ انتخابات میں اکیاون سالہ سورن سنگھ اقلیتی نشست پر کامیاب ہوئے تو انہیں صوبائی وزیراوروزیر اعلٰی کے پی کے کااسپیشل ایڈوائزر مقرر کیا گیا۔انہوں نے 2011 میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی جبکہ اس سے پہلے وہ 9 سال تک جماعت اسلامی سے وابستہ رہے ۔جماعت کے ساتھ ان کی ہمدردیاں اسکے باوجود قائم رہیں۔وہ سکھ کمیونٹی کی ایک طاقتور اور محبوب شخصیت تھے لہذا انہیں پاکستان وقف املاک بورڈ اور پاکستان سکھ گردواہ پربندھک کمیٹی کا رکن ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔چئرمین بورڈ صدیق الفاروق ان کی قومی خدمات کے گرویدہ تھے۔لطف کی بات ہے پاکستان وقف املاک بورڈ کے سابق چیرمین آصف ہاشمی سے جب میری برطانیہ میں فون پر بات ہوتی تو وہ بورڈ کے لئے اپنی بے لوث خدمات کا ذکر کرتے ہوئے سردار سورن سنگھ سے اس بات کی تصدیق کرانے کا کہتے ” وہ جانتے ہیں کہ میں نے سکھوں کی فلاح اور انکی عبادت گاہوں کی تعمیر کے لئے کتنا مخلصانہ کام کیا ہے“
سردار سورن سنگھ کی کوششوں سے پچھلے ماہ پشاور میں دہشتنگری گیٹ کے قریب سکھوں کے ایک گوردوارے کو 70 سال بعد عبادت کے لیے کھول دیا گیا تھا۔ان کے قتل سے سکھ کمیونٹی میں بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے ،وہ اقلیتوں اور مسلمانوں کے درمیان مضبوط پل تھے جس کے ٹوٹنے سے مسلمانوں کو بھی بڑا نقصان ہوا ہے۔