دین کم مسلک زیادہ
یہ سوال بہت اہم ہے کہ ہم رسولﷺ سے محبت کا دعو یٰ کرتے ہیں یعنی ہم محبت بھی کرتے ہیں اور دعو یٰ بھی کرتے ہیں۔ عید میلادالنبیﷺ پہ یہ سب نظر آتا ہے۔ گھر، گلیاں،بازار سجتے ہیں، جلوس نکلتے ہیں، نعتیں پڑھی جاتی ہیں مگر بحیثیت مجموعی اگر پاکستان کو دیکھیں تو کیا آپ کو نبیﷺ کی تعلیمات کا عکس اس معاشرے میں نظر آتا ہے؟
پچھلے دس ہزار سال کی تاریخ دیکھ لیں تو اللہ تعالیٰ نے کبھی کوئی اُمت اس وجہ سے تباہ نہیں کی کہ اس نے نماز کم پڑھی ہو یا وہاں کا داڑھی کا سٹائل اللہ کو پسند نہ آتا ہویا اُن لوگوں کے لباس کے پائینچے اُونچے یا نیچے ہوں، لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک جھوٹ بولنے پہ، ایک کم تولنے پہ اُمتوں کو اُوپر سے نیچے کر دیا۔
حضرت جبرائیل ؑ کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا اورکہا ’’ اس امت کو اُلٹا دو‘‘
حضرت جبرائیل ؑ واپس آئے اور کہا کہ’’اے اللہ! اس میں ایک ایسا شخص بھی ہے جو آپ کی اتنی عبادت کر رہا ہے کہ پلک جھپکنے جتنا کم وقت بھی ضائع نہیں کر تا۔ ہر لمحہ عبادت کر رہا ہے۔‘‘
اللہ نے فرمایا ’’ سب سے پہلے اسی کو تباہ و برباد کرناکیونکہ میرا نام لیتے ہوئے اُس کا چہرہ نہیں بدلتا‘‘اب یہ کیفیت آپ کے اندرونی جذبات پہ منحصر ہے۔
رسول پاکﷺ سے جب اللہ تعالیٰ نے کہا کہ جا کے اعلان نبوت کر دیں تو اللہ کے رسول کو چاہیے تو یہ تھا ناں کہ جا کے اعلان نبوت فرماتے مگر آپ ﷺ نے تو تین دن لوگوں کو کھانے پہ بلایا اور تیسرے دن بھی لوگوں سے یہ نہیں کہا کہ کلمہ پڑھیں بلکہ کہا کہ اگر میں محمدﷺ یہ کہوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے ایک فوج ہے تو کیا تم یقین کرو گے؟ لوگوں نے بیک زبان کہا کہ یقینا!ً آپ صادق ہیں، آپ امین ہیں۔ اور اس میں سب سے بڑی شہادت پتا ہے کس نے دی؟ ابو جہل نے، وہ وہاں سے اٹھا اور جانے لگا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ’’تیرا دادا مجھے جانتا ہے، تیرا باپ مجھے جانتا ہے، تو اٹھ کے کیوں جانے لگا؟‘‘ کہتا ہے محمدﷺ! آپ ہی نے تو کہا کہ پیچھے فوج ہے۔ میں تو کھانے پہ آیا تھا، اب میں گھر جا رہا ہوں تلوار لینے۔
محمدﷺ کہتے ہیں ’’ابوجہل! اگر تو واپس آیا اور تجھے فوج نظر نہ آئی تو؟‘‘
تو وہ کہتا ہے’’ رب کعبہ کی قسم !محمدﷺ تیری زبان پہ یقین کروں گا، اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں کروں گا‘‘
یہ ہے اتباع رسول !
دیکھئے حدیث کیا کہتی ہے کہ وقت آخر کے جو علماء ہوں گے، وہ دین سے دنیا کمائیں گے۔ ذرا ایک نام تو لیں جو دین سے دنیا نہیں کما رہا۔ دوسری بات یہ بتائی کہ دنیا سے علم اٹھا لیا جائے گا۔ علم اٹھانے سے مطلب کیا ہوا؟ اس کی تفسیر حضرت عباسؓکرتے ہیں، آپﷺ کے چچاِ، آپؓ فرماتے ہیں کہ علم اٹھنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگ اپنی بات کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی بات پر فوقیت دیں گے۔ اور یہ زمانہ جس میں ہم موجود ہیں، کیا اس میں ہم اپنی رائے کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی رائے سے بڑھ کے پیش نہیں کرتے؟ جب ہم ایسا کریں تو پھر محبت قائم نہیں ہوتی، مسلک قائم ہوتا ہے۔ پھر مسلک کی ہی حدیث ہو گی اور مسلک ہی کا ترجمہ و تفسیر یعنی مسلک ہی کی بات ہو گی۔ یوں دین کم اور مسلک زیادہ ہو گا۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔