’’سچ تو یہ ہے!‘‘ پر ایک نظر
چودھری شجاعت حسین مسلم لیگ(ق) کے سربراہ ہیں۔ ان کا تعلق گجرات شہر سے ہے جہاں وہ 27 جنوری 1946ء کو پیدا ہوئے۔ حصولِ تعلیم کے بعد انہوں نے والد صاحب (چودھری ظہور الٰہی) کا کاروبار سنبھال لیا۔ وہ شاید کوچۂ سیاست کا کبھی رُخ نہ کرتے لیکن والد کی مسلسل قید و بند نے انہیں اس راستے پر ڈال دیا۔ وہ پہلی بار ماچ 1977ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے امیدوار تھے لیکن اپوزیشن نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔
دو دن بعد صوبائی انتخابات ہوئے تو اپوزیشن نے کامل اتحاد کے ساتھ ان کا بائیکاٹ کردیا، چنانچہ بھٹو حکومت کے خلاف ملک بھر میں تحریک چل پڑی اور چودھری شجاعت حسین اور ان کے کزن چودھری پرویز الٰہی اس کے بعد آج تک خار زار سیاست ہی میں تلوے سہلا رہے ہیں۔ حال ہی میں چودھری شجاعت حسین کی یادداشتیں ’’سچ تو یہ ہے‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آئی ہیں۔ اس کتاب میں بقول مصنف، مَیں نے اپنے تمام تجربات و مشاہدات سچ سچ بیان کردیئے ہیں۔ کتاب کا عنوان غالب کے اس شعر سے ماخوذ ہے:
صادق ہوں اپنے قول کا، غالب خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
ایک سیاست دان کو سیاسی سفر میں بعض اوقات کتنے برے حالات دیکھنے پڑتے ہیں، اس ضمن میں مصنف کا پہلا مشاہدہ جنرل ایوب خان کے مارشل لاء سے متعلق ہے۔ جب ایک روز مارشل لاء حکام پھاؤڑے گینتیاں لے کر ظہور پیلس پہنچے اور بیرونی دیوار کو ناجائز تجاوزات گردانتے ہوئے گرانا شروع کردیا۔ یہ تخریبی کارنامہ انجام دینے کے بعد چودھری ظہور الٰہی کو ہتھکڑی لگا کر لے گئے۔ شجاعت کہتے ہیں کہ اس موقع پر والد صاحب نے جس حوصلے اور ثابت قدمی کا ثبوت دیا، اس نے میرے دل و دماغ پر غیر معمولی اثرات مرتب کئے۔
دوسرا واقعہ بھی والد کی عظمت ہی سے متعلق ہے جب انہیں الذوالفقار کی طرف سے قتل کی دھمکیاں ملنے لگیں تو انہوں نے کہا، میرا ایمان ہے کہ جو رات قبر میں ہے، وہ باہر نہیں آسکتی۔ مجھے موت کا کوئی خوف نہیں چودھری صاحب اپنے قول کے سچے نکلے، الذوالفقار حملہ آور ہوئی اور چودھری صاحب نے اپنی جان، جاں آفریں کے سپرد کردی۔
اُس وقت ان کے ساتھ کوئی سیکیورٹی گارڈ نہ تھا۔
چودھری شجاعت جب خود کوچۂ سیاست میں آئے تو ان کی کتاب بتاتی ہے کہ انہوں نے بھی صبر واستقلال کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا۔ مشکل سے مشکل حالات میں بھی آپے سے باہر نہیں ہوئے۔ اپنی سوچ صاف اور سیدھی رکھی۔ پیچیدہ سے پیچیدہ معاملات کو کمال تدبرو تفکر سے حل کرنے کی کوشش کی۔ اپنے مخالفین کو بھی دلیل اور حکمت کے ساتھ اپنا ہم خیال بنانے کی سعی کی۔
میاں نواز شریف سے کئی باتوں میں اختلاف رہا لیکن بڑے حوصلے کے ساتھ سب برداشت کیا۔ انہوں نے بڑے اختصار اور جامعیت کے ساتھ اختلاف کی کہانی اول تاآخر بیان کردی ہے اور حیران کن حد تک لہجے میں شائستگی برقرار رکھی ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ ایک اچھے سیاستدان کی خوبی ہوتی ہے کہ وہ ہر حال میں اعتدال کا دامن تھامے رکھتا ہے۔ بہت اختلافی فضا میں بھی مکالمے کی گنجائش رکھتا ہے۔
اہلِ گجرات جانتے ہیں کہ چودھری ظہور الٰہی کو مقامی نوابزادہ فیملی کے مقابلے میں جو مقام ملا تو اس وجہ سے تھا کہ وہ عوام دوست تھے۔ جس کسی نے انہیں اپنی کوئی مشکل بتائی وہ اس کی مدد کرنے پر فوراً تیار ہو گئے۔ خواہ وہ مسئلہ تھانے کچہری کا ہوتا یا مالی نوعیت کا، وہ حتی المقدور تعاون کرتے تھے۔ طبیعت میں کوئی نازنخرہ نہ تھا۔
چودھری شجاعت حسین نے اپنی یادداشتوں میں کئی ایسے واقعات بیان کئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی کبھی خدمت خلق کے معاملے میں پیچھے نہیں رہے۔
خاص طور سے ایسے مسائل جو اجتماعی نوعیت کے تھے، ان میں انہوں نے پوری پوری دلچسپی لی اور خلق خدا سے دعائیں لیں۔ مجھے پورا پورا حسنِ ظن ہے کہ انہوں نے یہ واقعات محض تحدیثِ نعمت کے طور پر بیان کئے ہیں، دکھاوا ہر گز مقصود نہیں۔
چودھری صاحب نے ’’ سچ تو یہ ہے‘‘ لکھ کر ایک اہم قومی خدمت انجام دی ہے۔
اس کے مندرجات ہمیں کئی ملکی مسائل و معاملات کی صحیح صحیح تفہیم فراہم کرتے ہیں۔ خاص طور سے پاکستانی سیاست، تاریخ اور سماج کے محققین (Researchers) اس کتاب سے بہت استفادہ کریں گے۔ فاضل مصنف نے 2008ء تک کے حالات بیان کئے ہیں، امید ہے کہ وہ بعد کی صورت حال پر بھی لکھیں گے۔
چودھری صاحب نے ملکی سیاست کے پیچ و خم بیان کرنے کے ساتھ ساتھ بعض معاصر شخصیات کی عادات پر بھی خوب روشنی ڈالی ہے۔ خاص طور سے قید و بند کے زمانے میں انہیں بعض رہنماؤں کو بہت قریب سے دیکھنے کے مواقع ملتے رہے۔مثلاً غوث بخش بزنجو لال مرچ کے شیدائی تھے۔ لال مرچ کے دو بڑے چمچے دیکھتے ہی دیکھتے نگل جاتے تھے۔
اس کے برعکس اکبر بگٹی کو سبز مرچ پسند تھی۔ دوپہر کے کھانے میں میں نے اکثر دیکھا کہ دس بارہ بڑے سائز کی نہایت کڑوی ہری مرچیں کچی چباگئے۔ مولانا مفتی محمود شوگر کے مریض تھے، لیکن میں نے اپنے گھر میں کئی بار ان کو اس طرح دیکھا کہ ایک بڑی سی پلیٹ میں آم ہیں۔ آم میں سے گٹھی نکال کر اس میں آئس کریم ڈال کر دیوار کی طرف منہ کرکے کھارہے ہیں تاکہ کوئی انکو ٹوک نہ دے کہ شوگر کی وجہ سے اتنا میٹھا ان کے لئے اچھا نہیں۔(ص67-66-)
چودھری صاحب نے ایک واقعہ خان عبدالولی خان کے بارے میں اڈیالہ جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ایوب کی زبانی بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’خان عبدالولی خان جیل میں کسی چھوٹے سے چھوٹے شخص سے بھی نہیں الجھتے تھے۔ نہایت پُر سکون طریقے سے قید کا زمانہ گزارتے۔ جیل کے نظم و ضبط کی پوری پوری پابندی کرتے، زیادہ تر خاموش رہتے اور سوچ بچار کرتے نظر آتے۔
ایک رات شدید طوفان آیا۔ موسلا دھار بارش سے ان کی کوٹھڑی کی چھت گرگئی اور پانی ٹپکنے لگا۔ خان صاحب ساری رات ایک کونے میں کمبل اوڑھ کر بیٹھے رہے۔
صبح عملے کو پتا چلا کہ رات کو ان کی کوٹھڑی کی چھت گر گئی تھی۔ اہل کاروں نے کہا، خان صاحب! آپ رات ہی کو بتادیتے، ہم آپ کو دوسری کوٹھڑی میں منتقل کردیتے۔ خان صاحب نے کہا: میں نے رات گئے آپ لوگوں کو پریشان کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ (ص141:)
مصنف نے آخری جویادداشت قلمبند کی ہے وہ تین امریکی سینیٹرز کے بارے میں ہے جو چودھری صاحب کو بتانے آئے تھے کہ الیکشن میں اگر ان کی پارٹی (مسلم لیگ ق) جیت گئی تو ہم نتائج تسلیم نہیں کریں گے۔
چودھری صاحب کے بقول، یہ بات سن کر ہمیں بڑی حیرت ہوئی۔ میرا خیال ہے انہیں حیرت ہونی تو نہیں چاہئے تھی، کیونکہ ہمارے ہاں جو شخص ایک دفعہ اقتدار کی غلام گردشوں میں پہنچ جاتا ہے اس سے عالمی طاقتوں کی دخل اندازیاں مخفی نہیں رہتیں۔ مولانا ظفر علی خان مرحوم و مغفور کا شعر اسی حقیقت کی ترجمانی کرتا ہے:
میرے ہم نفس میرے ہم نشیں میرے غم کا قصہ طویل ہے
میرے گھر کی لٹ گئی آبرو ہوا غیر جب سے دخیل ہے