فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر412
اشوک کمار نے فلم ’’قسمت ‘‘کے گانے بھی خودی گائے تھے۔ان کا گایا ہوا ایک گانا اس وقت بھی سپر ہٹ تھا اور آج بھی سب کو یاد ہے ۔منظر یہ ہے کہ ایک کمرے میں ہیروئن سورہی ہے ہے یا بظاہر سو رہی ہے۔ہیرو کھڑکی میں سے جھانکتا ہے اور گاتا ہے۔
دھیرے دھیرے آ رے بادل
دھیرے دھیرے آ
میرا بلبل سو رہا ہے
شوروغل نہ مچا
آج یہ بول ،طرز اور موسیقی عجب سی لگتی ہے مگر یہ گانا اس وقت بھی ہٹ تھا اور آج بھی سپر ہٹ ہے۔گانے کے دوران کیا مجال جو ہیروئن اٹھ کے کھڑی ہو جائے یا پھر کروٹ ہی بدل جائے۔صرف ہیرو صاحب ہی کبھی ایک کھڑکی سے اور کبھی داوسری کھڑکی سے جھانک کر گاتے ہیں۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر411 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہ فلمیں ہم نے کافی عرصہ بعد بلکہ پاکستان بننے کے بعد دیکھی ہیں لیکن ہمارا مشورہ ہر شوقین کے لیے ہے کہ اسے یہ فلمیں دیکھنی چاہیں۔ایک وقت میں یہ گورنمنٹ کالج لاہور کے توسط سے دیکھنے کو مل جاتی تھیں۔مگر بھارتی فلم انڈسٹری نہ ان سب فلمون کو ویڈیو میں تبدیل کر دیا ہے اور سیٹلایٹ پر مختلیف چینلز سے بھی یہ فلمیں داکھائی جا رہی ہیں۔
اشوک کمار کی یادگار فلمیں لا تعداد ہیں ۔چند نام ہمیں یاد رہ گئے ہیں ۔
اچھوت کنیا،قسمت ،محل ،جیول،تھیف،افسانہ،نجمہ،تیری صورت،کنگن،بندھن،میری آنکھیں ،چلتی کا نام گاڑی،دیدار اور بے شمار ایسی فلمیں جنہیں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔وہ اس طرح اداکاری کرتے تھے جیسے سچ مچ باتیں کر رہے ہیں ۔نہ کوئی بناوٹ نہ اداکاری۔روز مرہ کی بول چال اور نقل و حرکت ۔وہ تھیٹر کے عروج کا دور تھا ۔فلموں اداکاروں پر بھی تھیٹر کا انداز چھایا ہوا تھا مگرا شوک کمار ،موتی لعل اور بعد میں دلیپ کمار جیسے اداکارو ں نے حقیقی اداکاری اور بول چال کے ذریعے انقلاب برپا کر دیا ۔
فلم ’’دیدار ‘‘میں اشوک کمار اور دلیپ کمار کی پہلی باریک جا ہو ئے تھے بلکہ انڈین فلموں کے سب سے بڑے اور مقبول ہیرو سمجھے جاتے تھے۔نرگس اس فلم کی ہیروئن تھیں اور نوشاد موسیقار،اس فلم کے تمام گانے ہٹ تھے۔جب اشوک کمار ،دلیپ کمار اور نرگس جیسے فن کار اکٹھے ہو جائیں تو ایسی فلم میں اداکاری کے معیار کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔یہ ایک سپرہٹ اور کئی اعتبار سے ایک نا قابل فراموش فلم ہے۔نمی بھی اس کی کاسٹ میں شامل تھیں ۔
یہ ایک خالص رومانی اور جذباتی فلم تھی اس کی موسیقی تو شاہکارتھی۔ کہانی یہ تھی کہ دلیپ کمار سڑکوں پر ہارمونیم بجا کر پیسے کماتے ہیں۔اشوک کمار ایک بلند پایہ ڈاکٹراور خوش ذوق انسان ہیں۔دلیپ کمار کا گانا سن کر بہت متاثر ہوتے ہیں اور انہیں گھر لے آتے ہیں۔نرگس ان کی منگیتر ہیں دونوں دولت مند اور اعلی تعلیم یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔
دلیپ کمار کی آواز سے نرگس بھی متاثر ہو جاتی ہیں اور ان کو گھر بلا کر خاطر و مدارت کرتی ہیں۔ان مہربانیوں کی بدولت دلیپ کما رغلط فہمیوں کاشکار ہو جاتے ہیں اور نرگس کے عشق میں گرفتار ہو جاتے ہیں ۔جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت کیا ہے تو اپنی آنکھیں دوبارہ جلا کر اندھے ہو جاتے ہیں ۔اس سے پہلے ایک سین میں وہ جب ڈاکٹر کے سامنے اپنی محبت کا تذکر ہ کرتے ہیں تو وہ غصے میں آ کر ایک تھپڑ رسید کر دیتے ہیں ۔مگر بعد میں اپنی اس حرکت سے پشیمان ہو جاتے ہیں ۔نرگس سے دلیپ کمار کی والہانہ محبت کو دیکھ کر وہ اپنی محبت سے دستبردار ہونے کو تیار ہو جاتے ہیں ۔مگر ادھر دلیپ کمار کو احساس ہوتاہے کہ انہوں نے اپنے محسن جنہوں نے انکی آنکھوں کا آپر یشن کیا تھا انکے ساتھ احسان فراموشی اور محسن کشی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی محبت کی بھی تذلیل کی ہے احساس ندامت کے باعث و ہ اپنی آنکھیں پھوڑ لیتاہے۔ ڈاکٹر کو بے حد قلق ہوتا ہے اور وہ اس آپریشن کو اپنے پروفیشن کا تاج محل کہتا تھا جسے اس کی وجہ سے دلیپ کمار نے مسمار کر دیا۔
ڈاکٹر کہتا کہ کاش تم ایسا نہ کرتے تو نرگس سے دستبردار ہونیکا فیصلہ کر لیا تھا ۔دراصل نرگس کا ’’دیدار ‘‘کرنے کی غرض سے ہی جو پہلے ہی اندھے تھے آنکھوں کے آپریشن کی آرزو کرتے ہیں اور آنکھیں ملنے پر نرگس پر دل و جان سے فریفتہ ہو جاتے ہیں ۔
اس فلم کا ایک خوبصورت سین ہمیں آج بھی یاد ہے ۔دلیپ کمار کو آنکھیں مل چکی ہیں ۔مگر وہ نرگس کو چاہتے بھی ہیں مگر اظہار کرنے سے ہچکچاتے ہیں ۔ایک موقع پر وہ اپنی آنکھیں ملتے ہیں تو نرگس پریشان ہو کر پوچھتی ہیں کہ کیا ہوا؟
جواب میں وہ کہتے ہیں ’’آنکھ میں کچھ گر گیا ہے۔‘‘
نرگس بے تکلفی اور معصومیت سے پاس آ کر کہتی ہیں ’’دکھائیں میں دیکھتی ہوں ‘‘
وہ ان کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھتی ہیں اور کہتی ہیں ’’ اس میں تو کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘
’’نہیں‘‘
ٍوہ کہتے ہیں ’’کیا آپ کو اس میں کچھ نظر نہیں آتا؟‘‘
وہ دوبارہ آنکھوں میں جھانکتی ہیں اور کہتی ہیں’’ان میں تو کچھ بھی نظر نہیں آ رہا‘‘
’’بلکل نہیں ‘‘وہ ایک بار پھر آنکھوں کا معائنہ کر کے سادگی سے کہتی ہیں کہ
جواب میں جس طرح دلیپ کمار انہیں مایوسی کے جس انداز کے تاثر سے انہیں دیکھتے ہیں وہ آج تک ہمیں نہیں بھولتا۔دراصل یہ فلم ان فن کے شاہکاروں کی فلم تھی ۔
یہ ایک سادہ سی رومانی کہانی تھی ۔جسے اداکاری ،ہداہت کاری مصنف کے مکالموں اور سچویشنز کے مطابق گانوں نے ایک نا قابل فراموش فلم بنا دیا تھا ۔ایسی فلمیں اب کہاں؟
لیجئیے۔ایک اور قابل ذکر بات ہم بیان کرنا بھول ہی گئے تھے۔ہم نے ہوش سنبھالنے کے بعد بھوپال میں زنانہ کلاس میں جو پہلی فلم دیکھی وہ اشوک کمار کی’’کنگن ‘‘دیکھی تھی۔اس کے ہیرو اشوک کمار تھے اور فلم کی ہیروئن لیلا چنٹسس تھی جس کا فلم میں نام رادھا تھا۔یہ فلم یکھ کر ہم رادھا کے عشق میں گرفتار ہو گئے تھے اور جب تک دوسری فلم ’’بغداد کا چور‘‘نہیں دیکھی رادھا کو نہ بھول سکے۔وہ بچپن کا زمانہ تھا ،نا سمجھی بھی تھی اور جذباتیت بھی۔ اس میں ذوق لظیف بھی شامل تھا ۔لیلا چنٹس کا ایک اعلی گھرانے سے تھا ۔اور وہ بی اے پاس تھیں ۔اشوک کمار بی ایس سی تھے۔یہ اس وقت کا دور ہے جب میڑک پاس کو بھی ایک تعلیم یافتہ سمجھا جا تا تھا۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پچاس ساٹھ سال پہلے ہندوستان کی فلمی صنعت میں تعلیم یافتہ افراد کی اکثریت تھی اور شریف خاندان کے لڑکے اور لڑکیوں کی فلم کی صنعت میں شمولیت کو برا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ما حال بھی بہت اچھا تھا ۔جب ساٹھ سال قبل کی ہندوستانی فلمی صنعت کا آج اپنی فلم صنعت سے موازنہ کرتے ہیں تو احساس ندامت اور پریشانی سے سر جھکا کر ماتم کرنے کے سوا کچھ نہیں سوجھتا۔(جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر413 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں