اسد عمر کی چھٹی
اسد عمر کی چھٹی ہوگئی، اسد عمر ملک میں معاشی اصلاحات نہیں کر سکے اور ایک ناکام وزیر خزانہ گردانے گئے ، ان کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے کرتے ہیں جن کے دور میں شرح ترقی 5.3 فیصد تک پہنچی جس نے موجودہ دہائی میں سب سے زیادہ رہی اسحاق ڈار نے ڈالر کو 105 پر جکڑے رکھا جو کہ اسحاق ڈر کی معاشی پالیسی کا بنیادی نقطہ تھا ،آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ ڈالر کی قیمت مارکیٹ کس طرح مقرر کرتی ہے اور اسحاق ڈار نے کس طرح اس میں مداخلت کی ، مارکیٹ میں کسی بھی چیز کی قیمت کا تعین ڈیمانڈ اور سپلائی کے فارمولے کے تحت ہوتا ہے، چاہے وہ آپ کا قیمتی موبائل ہو یا پسندیدہ گاڑی جس چیز کی ڈیمانڈ مارکیٹ میں ابھرتی ہے ،اگر اس چیز کی سپلائی اسی رفتار سے نا بڑھائی جائے تو اس چیز کی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
ڈالر کی فروخت کتنے پاکستانی روپوں کے عوض ہو گی، اس کا فیصلہ بھی مارکیٹ اسی اصول کے تحت کرتی ہے، آئیے اب جائزہ لیتے ہیں کہ ملک میں ڈالر کس طرح آتے ہیں، ہر ملک کا ایک جاری کھاتا ہوتا ہے جس میں اس کی برآمدات اور درآمدات کا حساب ہوتا ہے ،انتہائی سادہ الفاظ میں پاکستان کی درآمدات ،برآمدات کے مقابلے میں کم ہیں پاکستان نے 2019-2018 میں 13 ارب ڈالر کی برآمدات کیں 12 ارب ڈالر بیرون ملک پاکستانیوں نے بھیجے جو ملا کے 25 ارب ڈالر بنتے ہیں، جب کہ پاکستانیوں نے 32 ارب ڈالر کی درآمدات بیرونی دنیا سے کیں یعنی جب پاکستانی ڈالر لینے مارکیٹ پہنچے تو 7 ارب ڈالر مارکیٹ میں کم تھے لہٰذا ڈیمانڈ اور سپلائی کا فارمولا لگا اور ڈالر مہنگا ہو گیا، یہاں پر فرق آیا ، اسحاق ڈار اور اسد عمر کی پالیسیوں میں، اسحاق ڈالر نے ڈالر کو مہنگا نہ ہونے دیا، بیرون ملک سے کامیابی کے ساتھ زیادہ قرضے لیے اور ایسے وقت میں جہاں imf کے نزدیک ڈالر کی اصّل 125 تھی، ڈیمانڈ اور سپلائی کے فارمولا کے تحت اسحاق ڈار صاحب نے ڈالر کو 105 پر ہی جکڑے رکھا جب اسد عمر کی باری آئی تو اسد عمر نے ڈیمانڈ اور سپلائی کا فارمولا لگنے دیا، قرضے تو لیے ڈالر کی کمی پورا کرنے کے لیے لیکن پاکستانی کرنسی کو مصنوئی طور پر مظبوط رکھنے کے لیے مزید قرضے نا لینے کا فیصلہ کیا اور ڈالر 140 کا ہو گیا۔
اب ان دونوں پالیسیوں کے ملکی معیشت پر اثر دیکھتے ہیں جب مسلم لیگ ن کے دور میں ڈالر 105 کا تھا تو پٹرول سستا تھا، بیرون ملک سے منگوائی جانے والی اشیا سستی تھیں جس کی وجہ سے افراط زر قابو میں تھا ،ملک میں ترقی کی شرح بڑھ کر 8۔5 فیصد تک جا پہنچی تھی لیکن اسد عمر کے دور میں جب ڈالر مہنگا ہو گیا تو اس کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی کا طوفان آیا۔افراط زر بڑھ کر 84۔7 تک جا پہنچی تو شرح سود بھی بڑھ کر 52۔10 تک جا پہنچی جس کی وجہ سے ملکی شرح ترقی کو بھی بریک لگی جو کم ہو کر 2.7 فیصد تک آ گری، صرف ڈالر کی قیمت سے عوام مہنگائی کے طوفان میں مبتلا ہوگئے اور ملکی وزیر اعظم ڈالر مانگنے کبھی سعودی عرب تو کبھی متحدہ عرب امارات تو کبھی چین کے دورے پر نظر آئے، یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسحاق ڈار کی معاشی پالیسی درست تھی یا نہیں جس کا جواب یقینناً نفی میں ہے اسحاق ڈار اصلی ہیرو تو تب قرار پاتے جب وہ ڈالر کی کمی کو مصنوئی طور پر نہیں اصل میں پورا کرتے جس کا واحد راستہ برآمدات میں اضافہ تھا لیکن اسحاق ڈار کے دور میں برآمدات میں کمی ہوئی ملکی برآمدات میں اضافہ ملکی بقا کا مسلہ بن چکا ہے ۔
پاکستان عملی طور پر چین کا ڈمپنگ گراؤنڈ بن چکا ہے، چین کی سستی درآمدات کا مقابلہ تو یورپ اور امریکا نا کر سکے وہاں کی انڈسٹری کو بھی بند ہونا پڑا جب کہ وہ چین سے سات سمندر دور تھے، پاکستان کی کمزور انڈسٹری کسی صورت بھی چین کی سستی درآمدات کا مقابلہ نہیں کر سکتی، یعنی انڈسٹری لگنا تو دور کی بات، کمبل جسی انڈسٹری بھی چین کے سستے کمبل کا مقابلہ نا کر سکی اور اب پاکستانی کمبل ناپید ہو چکا ہے۔ حکومت کو چین سے فری ٹریڈ ایگریمنٹ کرنے کی بجائے چین کی مصنوعات سے ملکی منڈیوں کو بچانے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ایسے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی چین کے بارے میں تجارتی پالیسی ایک مثال ہے، امریکا کی جدید انڈسٹری بھی چین کی سستی درآمدات کے سامنے ہار مانتی نظر آتی ہے تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں، ایسی تمام اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کی جائے جو ملک میں بن سکتی ہے، وہ پرفیوم ہو یا موبائل فون ، چارجر ہوں یا ہینڈ فری یا بچوں کے کھلونے، ایسی سینکڑوں اشیا ہیں جو ملک میں بن سکتی ہیں، اگر حکومتی سرپرستی حاصل ہو ، ملک کو سیلف ریلائنس کی طرف جانا ہو گا ، اپنی صنعتی ضروریات خود پوری کرنے کے لیے اب امپورٹ پر پابندی لگانی ہو گی ، اگر پاکستان adam smith کی فری ٹریڈ کے اصول پر چلتا تو کھبی ایٹم بم نہ بنا پاتا ، اگر ہم ایٹم بم اور jf-17 thunder بنا کر اپنی فوجی ضروریات پوری کر سکتے ہیں تو پھر انڈسٹری لگا کر ملکی بقا کو درپیش مالی مسائل کا حل بھی تلاش کر سکتے ہیں۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’dailypak1k@gmail.com‘ پر بھیج دیں۔