پنجاب میں حکومتی اختلافات،کیسے بہتر ہوں حالات ؟

پنجاب میں حکومتی اختلافات،کیسے بہتر ہوں حالات ؟
پنجاب میں حکومتی اختلافات،کیسے بہتر ہوں حالات ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پنجاب حکومت میں اختلافات کے خاتمے کےلئے گورنر چودھری سرور متحرک ہو گئے ہیں ،حالانکہ وہ خود بھی موجودہ حالات میں کوئی خوش نہیں ہیں۔پنجاب کی موجودہ حکومت اپنی ابتداء سے ہی مشکلات کا شکار ہے،مخالفین تو رہے ایک طرف، وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو اپنی پارٹی اور اتحادیوں کی طرف سے بھی مخالفت کا سامنا رہا، مخالفت کی بڑی وجہ صوبائی حکومت کا ڈیلیور نہ کرپانا تھا، اور اس کی وجہ عثمان بزدار کی شرافت ،بردباری اور پنجاب کے سیاسی راجواڑوں سے خوشگوار تعلقات نہ ہونا تھا۔پنجاب کے بڑے سیاسی خاندانوں نے انہیں روز اول سے ہی قبول نہیں کیا تھا۔وزیر اعظم عمران خان کو پنجاب کی سیاسی صورتحال کا بخوبی اندازہ تھا اس لئے انہوں نے تین بڑے عہدوں گورنر،وزیراعلیٰ اور سپیکر کے عہدوں پر اپنی مرضی کے لوگوں کو تعینات کیا،تاکہ معاملات بہتر چل سکیں، مگراس کے باوجود بہتری نہیں ہے اور پنجاب آج بھی ڈانواں ڈول ہے۔
پنجاب میں حکومت سازی اور حکمرانی ہر دور میں ایک مشکل مرحلہ رہا ہے،ون یونٹ دور میں گورنر جنرل موسیٰ اور نواب کالا باغ امیر محمد خان کا دور امن و امان کے حوالے سے ہمیشہ یادگار رہے گا،بھٹو دور سے شروع ہونے والے پارلیمانی نظام کے بعد پنجاب حکمرانی کیلئے ایک پیچیدہ صوبہ رہا،خود ذوالفقار علی بھٹو کو اس صوبہ کو قابو میں رکھنے کیلئے پاپڑ بیلنا پڑے اور پارٹی پر اپنی اجارہ داری کے باوجود بار باروزیر اعلیٰ تبدیل کر نا ان کی مجبوری بنا رہا،بہت سے بااعتماد ساتھیوں کو اس عہدہ پر آزمایا گیا مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پاٹ کی صورت نکلا۔پیپلز پارٹی کو اگر چہ اس صوبہ میں حکمرانی کے کم مواقع اور ٹائم ملا،مگر نواز شریف کو پنجاب پر حکمرانی کے متعدد مواقع ملے،جب تک وہ مرکز میں نہیں گئے پنجاب کے تخت حکمرانی پر خود براجمان رہے،بعد میں اپنے بھائی شہباز شریف کو پنجاب کی باگ ڈور تھمائی مگر یہ اقدام اس وقت عمل میں آیا جب میاں منظور احمد وٹو نے وزیر اعلیٰ غلام حیدر وائیں کو معمولی عددی اکثریت اور پیپلز پارٹی کے تعاون سے چلتا کیا اور خود وزیر اعلیٰ منتخب ہو گئے۔
اس تلخ تجربے کے بعد نواز شریف نے پارٹی کے کسی رہنماء پر پنجاب کے حوالے سے اعتماد نہ کیا اور ساری ذمہ داری چھوٹے بھائی کے کندھوں پر ڈال دی ،اسی بناء پر پارٹی میں اختلاف کے باوجود کوئی بغاوت ہوئی نہ شہباز شریف کی حکمرانی کو کسی نے چیلنج کیا، شریف خاندان نے پنجاب پر طویل حکمرانی کی،مگر اب ن لیگ کی سیاسی صورتحال بھی غیر یقینی کا شکار ہے۔قارئین کو یاد ہو گا موجودہ مسلم لیگ کے بانی و سرپرست جنرل ضیاء الحق تھے،انہوں نے 1985ء کے غیر جماعتی الیکشن کے بعد اس کی بنیاد رکھی اورقیادت محمد خان جونیجو کے سپرد کی،وزارت عظمیٰ کا تاج بھی ان کے سر پر سجایا،مگر 1988ء میں طیارہ حادثہ میں انتقال سے کچھ عرصہ پہلے جونیجو حکومت پر کرپشن کا الزام عائد کر کے گھر کی راہ دکھا دی،جونیجو لیگ کا وجود اگر چہ برقرار رہا،مگر اس کے بطن سے نواز لیگ نے جنم لیا،منظور وٹو جونیجو لیگ ہی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے،جونیجو کے انتقال کے بعد اس جماعت کی قیادت حامد ناصر چٹھہ نے سنبھالی،اور منظور وٹو کو وزیر اعلی پنجاب منتخب کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔

جائزہ لیا جائے تو اس وقت پنجاب اسمبلی میں چودھری پرویز الہیٰ کی پوزیشن انتہائی مضبوط ہے،وہ نہ صرف پنجاب پر حکمرانی کا تجربہ رکھتے ہیں، پنجاب کے روائتی سیاسی گھرانوں سے ان کے دوستانہ تعلقات ہیں،لوگوں کو ساتھ لیکر چلنے کے گر سے بھی آگاہ ہیں،ن لیگ میں بھی ان کو قابل قدر حمائت حاصل ہے، اگر ن لیگ منطقی انجام کو پہنچتی ہے تو اگرکوئی منتشر مسلم لیگ کو مجتمع کر سکتا ہے تو وہ چودھر ی شجاعت اور پرویز الہیٰ ہی ہیں۔،پیپلز پارٹی کا مستقبل پنجاب میں دکھائی نہیں دے رہا بلکہ سندھ میں بھی مخدوش دکھائی دے رہا ہے،اس صورتحال میں پنجاب میں چودھری پرویز الہی کو اگنور کرنا انتہائی مشکل ہے۔وزیر اعلیٰ بزدار کو وزیر اعظم عمران خان کی مکمل حمائیت حاصل ہے مگر انکی شرافت کے باعث گورنر چودھری سرور بھی اپنی آئینی حدود سے تجاوز کر رہے ہیں،صوبے کے حالات کو بنیاد بنا کر وہ کبھی عثمان بزدار کبھی پرویز الہیٰ اور کبھی ارکا ن اسمبلی سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔صوبے کے سیاسی حالات ایسے ہو چکے ہیں کہ ہر کس و نا کس اپنے جثہ کے مطابق حصہ وصول کرنے کی دوڑ میں شامل ہو چکا ہے،جہانگیر ترین نے بھی پنجاب میں ڈیرے ڈال لئے ہیں،حالانکہ وہ ایک غیر منتخب رہنماء ہیں،پارٹی معاملات سے ان کا تعلق ختم نہیںکیا جا سکتا مگر حکومتی معاملات میں ان کی شرکت پر اعتراض کیا جا سکتا ہے، وفاقی کابینہ میں ردوبدل نے اس صورتحال کو مزید تقویت دی ۔یہ بات اب پایہء ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ عثمان بزدار اپنی دیانتداری اور شرافت کے باعث مختلف لوگوں کی بلیک میلنگ کا شکار بن رہے ہیں ۔وزیراعظم اگر چاہتے ہیں کہ پنجاب میں ان کی حکومت پر ان کی گرفت مضبوط ہو اور ن لیگ میںٹوٹ پھوٹ کا عمل وقت سے پہلے شروع ہو جائے تو نہ صرف پنجاب میں حکومت کے تینوں بڑوں کی کوآرڈینیشن بہتر بنائی جائے،ان کو اپنے اپنے دائرہ اختیا ر میں رکھا جائے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کو بھی سیاسی دباو سے آزاد کر کے کام کرنے دیا جائےتاکہ پنجاب میں انتظامی معاملات بہتر ہو سکیں۔

۔

نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

۔ْ

اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’dailypak1k@gmail.com‘ پر بھیج دیں۔ 

مزید :

بلاگ -