آمد ِ رمضان،توبہ اور مادہ پرست!

مرکزی روئیت ہلال کمیٹی کے اجلاس میں اتفاق رائے سے ماہِ رمضان المبارک کے آغاز کا فیصلہ ہو گیا،جس کے مطابق آج ملک بھر میں پہلا روزہ رکھا گیا ہے،نشریاتی خبروں میں اِس امر پر خوشی کا اظہار کیا گیا کہ اِس بار وزارتِ سائنس کا نمائندہ بھی اجلاس میں شریک ہوا، اور یہ روئیت ہلال کمیٹی کی تاریخ کا پہلا واقع ہے یوں برادرم فواد حسین چودھری نے بھی مفتی منیب الرحمن پر اعتراض واپس لے لیا اور سائنس اور روئیت کمیٹی کا تنازعہ ختم ہو گیا۔اب فواد چودھری کو مفتی منیب الرحمن کے چاند دیکھنے پر کوئی اعتراض نہیں ہوا،ورنہ وہ ہمیشہ کہتے کہ مفتی صاحب کو…… نظر نہیں آتا، چاند کیسے دیکھ لیتے ہیں۔ بہرحال یہ تنازعہ اپنی جگہ طے ہوا، اور جدید سائنس اور علماء کا اتفاق ہو گیا، لیکن برادرم فواد اور حکومت ملک بھر میں مکمل اتفاق ر ائے نہ کرا سکی اور پشاور والے مفتی پوپلزئی میدان میں جمے رہے اور ان کے اعلان کے مطابق چاند نظر آ گیا،ان کے معتقد حضرات نے گذشتہ سے پیوستہ شب نمازِ تراویح ادا کی، جبکہ باقی ملک میں گزشتہ شب(24اپریل) کو نمازِ تراویح کا اہتمام ہوا۔روئیت کے حوالے سے ہم پہلے بھی عرض کرتے رہے اور آج پھر دہرا دیتے ہیں کہ مفتی پوپلزئی اور ان کے ہم نواؤں کا مسئلہ روئیت کی شرعی نہیں،ذاتی خواہش کا مسئلہ ہے۔
وہ اور افغانی بھائی(مہاجر افغانی) معہ بعض قبائلی دین دار روزہ رکھنا اور عیدالفطر منانا سعودی عرب کے مطابق چاہتے ہیں،ان کو ہمیشہ چاند سعودی سلطنت پر نکلنے والے چاند ہی کے مطابق نظر آتا ہے، اور اب بھی ان کا فیصلہ اسی اصول کے مطابق ہوا کہ سعودی عرب اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں روزہ پاکستان سے ایک روز قبل(24اپریل)کو رکھا گیا ہے، ہماری درخواست ہے کہ اب فواد چودھری ان حضرات کو سائنسی توضیح کے مطابق قائل کریں کہ یہ معاملہ صرف رمضان اور عید کے چاند کی روئیت تک کا ہے اور ان کی وزارت نے تو پانچ سال کے لئے کیلنڈر بنا رکھا ہے، ہم یہ بھی عرض کر چکے ہیں کہ چودہ سو سال قبل جو ہدایت پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد مصطفےٰﷺنے فرمائی کہ ”چاند دیکھو روزہ رکھ لو، چاند دیکھ کر عید کر لو“ وہ آج کی سائنسی تحقیق اور فکر کے عین مطابق ہے کہ زمین کی گردش کے مطابق سورج اور چاند کے طلوع وغروب پر نظر ڈالیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ کسی بھی پورے خطے میں ایک ہی دن روزہ رکھنا اور عید کرنا ممکن نہیں کہ طلوع و غروب آفتاب و ماہتاب کے اوقات بھی مختلف ہوتے ہیں۔
پاکستان کا وقت سعودی عرب سے دو گھنٹے پہلے کا ہے کہ یہاں سورج پہلے طلوع ہوتا(زمین سورج کے سامنے آتی ہے) جبکہ چاند سعودی سرزمین کے دو گھنٹے بعد یہاں طلوع ہوتا ہے کہ چاند کی گردش زمین کے گرد ہے۔یوں ہر روز چاند وہاں دو گھنٹے پہلے نظر آئے گا، طلوع ہو گا، اس لئے دونوں ممالک میں بیک وقت روئیت ممکن نہیں۔یوں سعودی عرب میں ایک روز پہلے ہو گی اور فرمانِ نبویؐ کے مطابق وہاں روزہ پہلے ہی رکھا جائے گا۔ مفتی منیب الرحمن تو مان گئے۔ اب مفتی پوپلزئی اور قبائلیوں سمیت افغان مہاجرین کو ان سائنسی معلومات کے مطابق قائل کر لیں تاکہ یہ تنازعہ بھی حل ہو، ورنہ ایک ہی روز ملک بھر میں روزے اور عیدین کا معاملہ حل نہیں ہو گا۔
آج ہم کورونا کے موسم میں زندگی گذارنے پر مجبور ہیں اور اسی وبا نے جو اب جو آسمانی آفت کہلاتی ہے، لوگوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنی ساری روایات کو بھول کر نئے دور میں داخل ہوں،چنانچہ آج جو روزہ رکھا وہ بھی اس جدید کورونا ماحول والا ہے کہ سحری تو کھا ہی لی، لیکن سابقہ برسوں والی رونق نظر نہیں آئی، نہ ہی گزشتہ شب تراویح کا پہلے جیسا ماحول تھا، اکثر مساجد میں 20نکاتی معاہدے پر جزوی عمل ہوا، اور قالین، دریاں اٹھوا کر صفائی کی گئی اور صف بندی میں احتیاط ہوئی، تاہم سینی ٹائیزنگ والی شرط پوری نہیں ہوئی، بہت سی مساجد میں کئی امر نظر انداز ہوئے اور نمازیوں نے وضو بھی مسجد ہی آ کر کئے۔ بہرحال ایک بات بہتر ہوئی کہ پی ٹی وی نے تراویح والی قرائیت سے مستفید کیا اور گھروں میں قرآن سنا گیا، ہم نے انہی سطور میں یہ گزارش کی تھی، بلکہ یہ بھی تجویز کیا تھا کہ نمازِ جمعہ کے لئے بھی ایسا اہتمام کیا جائے۔ آج جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو جمعتہ المبارک ہی کا روز ہے، حکومت نے اسے یوم توبہ اور رحمت قرار دیا۔ گذارش کی تھی کہ اس کے لئے اجتماعی دُعا توبہ اور طلب رحمت کا اہتمام بھی اسی جدید سہولت کے ساتھ کیا جائے اور دُعا کا ایک وقت مقرر کر کے مرکزی مقام سے دُعا نشر کی جائے اور مقتدی مساجد اور گھروں میں ساتھ دیں۔ اگر پی ٹی وی سے یہ اہتمام کر لیا جاتا تو وقت کے فرق کا بھی جھگڑا نہیں تھا۔
کراچی، لاہور، راولپنڈی، پشاور، کوئٹہ اور ملتان جیسے شہروں کے پی ٹی وی سنٹرز کا ایک ایک مرکزی مسجد میں نشریات کا اہتمام کر کے دُعا کرائی جا سکتی تھی، مگر ایسا نہیں ہوا۔ بہرحال تراویح والی پیش رفت بہتر ہے، آئندہ جمعتہ المبارک کو یہ کر لیں آپ کی جیب سے کچھ جا ئے بغیر عوامی جیبوں سے نکلی رقوم ہی سے اخراجات سہنا ہیں، توقع ہے کہ یہ بھی ہو جائے گا کہ آسمانی وبا کے لئے دوا کے ساتھ ساتھ دُعا اور خصوصی طور پر توبہ کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے اعمال کا جائزہ لے کر آئندہ کے لئے راہِ راست اختیار کریں، احتیاط اور علاج کی دریافت اور دوا سے کبھی کسی اکابر دین نے منع نہیں فرمایا،اِس لئے ان کی طرف سے دُعا اور توبہ کے بیان کو لے کر نشانہ نہ بنائیں اور خود کو راہِ راست پر لائیں، اگر آپ خود نمازی نہیں، روزہ نہیں رکھتے اور روحانیت سے زیادہ مادیت کے قائل ہیں تو ماننے والوں اور تسلیم و رضا کے حامیوں کو بھی معاف کر دیں، احتیاط کی آڑ میں غصہ نہ کریں اور نہ گالی ہی دیں کہ یہی اعمال ہمارے سد ِ راہ ہیں۔ آپ انسانیت اور انسانی حقوق کے نام پر وہ تمام عمل کرنے پر زور دیتے ہیں، جو دین ِ اسلام کے مطابق حقوق العباد ہیں، جب حقوق اللہ کا نام آتا ہے تو آپ کے پیٹ میں مروڑ اٹھتے ہیں، یہ عرض تو ان حضرات کے لئے ہے جو خود کو سول سوسائٹی کے نام پر لادینیت کے پرچارک ہیں،لیکن ان حضرات کی خدمت میں بھی عرض ہے جو ماتھے پر محراب سجائے، سر پر ٹوپی رکھے،
حج و عمرہ کئی بار کرتے اور زکوٰۃ ایک ایک سو روپے کے حساب سے لائن لگوا کر دیتے ہیں، کہ اللہ کے واسطے بلیک مارکیٹنگ، ملاوٹ، ناجائز منافع خوری، جھوٹ اور ریا کاری سے باز آ جاؤ، ورنہ یہ عذاب تو معمولی ہے، اس سے بڑی آفات بھی آ سکتی ہیں۔ ایک بڑے گناہ کے عوض اللہ نے حضرت نوع علیہ السلام کی پوری قوم کو پانی میں غرق کر دیا تھا، اور ان کا نافرمان بیٹا بھی نہیں بچا تھا، تو تم کس باغ کی مولی ہو،اب بھی بہتر ہے کہ اس وبا کو وارننگ جان کر رُک جاؤ،ہر نوع کی بداعمالیوں سے،جھوٹ اور گناہوں سے تائب ہو جاؤ، اللہ معاف کرنے والا ہے۔ دوا بھی ایجاد ہو جائے گی، ویکسین بھی بن جائے گی، کورونا میں کمی بھی ممکن ہے، تاہم اس کا خاتمہ توبہ ہی سے ہو گا۔
قارئین! قلم اٹھایا تو خیال تھا، رمضان المبارک کے حوالے سے اپنے بچپن اور لڑکپن کے رمضان کی یادوں کو شیئر کروں گا کہ رو ادھر بہک گئی اِن شاء اللہ کل ”چڑی“ اور ”چھکے“ والے روزے کی بات ہو گی۔