ففتھ جنریشن وار اور قابل فخر پاکستانی فوج

بات ووہان چائنہ سے شروع ہوئی۔ ففتھ جنریشن وار کے کھلاڑیوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے خوف کا میزائل داغا۔دیکھتے ہی دیکھتے دنیا COVID 19 کی اصطلاح سے روشناس ہوئی۔ کرونا وائرس فزیکل سے پہلے ڈیجیٹل طریقے سے دنیا بھر کے ممالک تک پہنچ گیا۔چائنہ میں خاموش بخار سے ہونے والی اموات پر امریکہ، یورپ، بھارت نے تالیاں بجائیں۔ دنیا کو چائینیز فیکٹریز سے دور رہنے کا مشورہ دیا۔چینیوں کا تمسخر اڑایا گیا اور کئی ملکوں میں شہریوں پر حملے بھی کئے گئے۔ بہت ہی قلیل عرصے میں منظر نامہ بدلا۔ کرونانے لیبارٹریز، موسمی حالات، ڈی این ایز ہسٹریز کی پرواہ کئے بغیر نئے خطوں میں بھی وار شروع کر دیے۔کئی ممالک ماسک چڑھائے کرونا کے انتظار میں بیٹھ گئے۔ ہر ملک کی سول و ملٹری قیادت سر جوڑ کر بیٹھی۔ رشیا نے اسے امریکی لیبارٹریوں کی کارستانی قرار دیا۔ چائنہ نے امریکن فوجیوں کی ووہان میں مشقوں پر الزام دھرا۔ امریکہ نے چائنیز لیبارٹریوں پر انگلیاں اٹھائیں۔ افواہوں کا بازار گرم ہوا۔ کسی نے نیو ورلڈ آرڈر اور کرونا کا تعلق جوڑا۔ کسی کو یہ تیار شدہ جراثیم لگا۔ کسی نے ہر دوسرے ٹیسٹ کو پازیٹو دکھاتی کٹس پر اعتراضات اٹھائے۔ کوئی نارمل اموات کو بھی کرونا کے کھاتے میں ڈالتے حکومتی اعدادوشمار کے متعلق شبہات میں پڑا۔حتی کہ یہ الزام بھی لگا بااثر ممالک، وبائی امراض سے ہر روز ہونے والی ہزاروں اموات کو بھی کرونا کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ اسی دوران بیلاروس، تاجکستان، شمالی کوریا سے بالکل نارمل کی خبروں نے بھی دنیا کو چونکا دیا۔
اب آتے ہیں بھارت، پاکستان کی طرف۔ وباء کے ابتدائی دنوں میں بھارت نے پہلے تو چائنہ کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کیا۔ چمگادڑ کے سوپ سے لے کر قہوہ پینے تک کی ریسیپی کو شدیدتنقید کا نشانہ بنایا۔ پھر پاکستان کو بخار زدہ قرار دیتے ہوئے مذاق اڑایا اورخود کو محفوظ ملک قرار دیا۔ اسی دوران وائرس بھارت میں بھی نمودار ہوگیا۔ فوری پینترا بدلا گیا اور دھڑ سے پاکستان پر بذریعہ تبلیغی جماعت کرونا کے پھیلاؤ کا الزام لگا دیا۔ بھارتی میڈیا نے نہ صرف پاکستان کے خلاف زہر اگلا بلکہ ہندوؤں کو مسلمانوں سے دور ی اختیار کرنے پر بھی اکسایا۔ مودی سرکار کے کہنے پر زی نیوز سے لے کر…… ”آج تک تیز“جیسے چینلوں نے اپنے ہی مسلمان شہریوں کے خلاف جو رائے عامہ ہموار کروائی اس کا نتیجہ آج سامنے آ رہا ہے۔ اس وقت ہندو انتہاء پسند تنظیمیں بھارتی مسلمانوں کو بخار پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے سرعام تشدد کر رہی ہیں اور سارا بھارت تماشائی۔ دوسری طرف پاکستان میں کیا ہوا۔ پہلے چائنہ سے متاثرہ سٹوڈنٹس کو لانے سے انکار کیا گیا۔ پھر پڑوسی ممالک سے آنے والے زائرین کو سرسری چیک کرکے انٹر کر لیا گیا۔
وہ تو بھلا ہو پاکستانی فوج کا جس نے بروقت حالات کی سنگینی کو بھانپا اور راتوں رات سرحدوں پر نہ صرف فیلڈ ہسپتال قائم کئے بلکہ ان خفیہ راستوں کی ناکہ بندی بھی کی جہاں سمگلر بھاری رقومات لے کر لوگوں کو داخل کروا رہے تھے۔ یہاں یہ امر قطعا نظر انداز نہیں کرنا چاہئے پاکستان میں کئی ایسے گروہ سرگرم عمل ہیں جو خوف کی فضاء کو مسلسل بڑھارہے ہیں۔ کبھی سوشل میڈیا پر اموات کی جعلی ویڈیوز پھیلائی جا تی ہیں، کبھی با اثر افراد کے ذریعے کہلوایا جاتا ہے۔ ملک میں بہت زیادہ اموات ہو چکی ہیں جنہیں عام عوام سے چھپایا گیا ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے یہ سب کون کر رہا ہے؟ کن مقاصد کے تحت سوشل میڈیا پر خوفزدہ کرنے والے پیغامات اپ لوڈ کئے جا رہے ہیں؟ حکومت کیوں نہیں ان لابیز تک پہنچ رہی جو اکیس کروڑ آبادی اور نیوکلئیر طاقت کے حامل ملک کو افراتفری کی جانب دھکیلنے کی خواہش مند ہیں۔
حکومت اپنی تمام تر استطاعت کے باوجود خوف کے اس کلچر کو پھیلنے سے نہیں روک پا رہی، جس نے پاکستانیوں کی کثیر تعداد کو ڈیپریشن جیسے مہلک مرض میں مبتلا کر دیا ہے۔ کیا معاشرہ ایسا ہوتا ہے جہاں چھینکنے والے سے خوف اور کھانسنا قابل نفرف۔ جہاں کاروبار بند اور کمانے والوں کو سہمی نظروں سے تکتی عورتیں، بچے۔ حقیقت یہ ٹھہری خاندانوں کی اکثریت نقد رقوم سے محروم ہو چکی۔ بے اعتباری ایسی جو نہ کسی آنکھ نے دیکھی اور کان نے سنی۔ عوام دیدے پھاڑے، چہروں کو چھپائے اس وائرس کے منتظر ہیں، جس کے بارے میں آج بتایا جا رہا ہے یہ تووہ ہے ہی نہیں جو چائنہ اور یورپ پر حملہ آور ہوا۔ کرونا سیریز کے وائرس ہزاروں سالوں سے دنیا میں موجود ہیں۔ پچھلے سال امریکہ میں پینتیس ہزار افراد چھاتی میں جمی بلغم کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ یورپ میں یہ وائرس شہریوں کے ڈی این اے میں سرایت کر چکا ہے۔ عالمی ماہرین طب کہتے ہیں سو میں سے اٹھانوے مریض خودبخود ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ ہلاک ہونے والے دو فیصد وہ ہوتے ہیں، جنہیں دیگر بیماریوں نے پہلے سے ہی گھیرا ہوتا ہے۔
تو جناب کنفیوژن کے اس دور میں قوم کو ہیجان انگیزی سے کون نکالے گا؟ حکومت کے ہاتھ پاؤں اک طویل عرصے سے پھولے ہوئے ہیں۔ اب یقینا افواج پاکستان پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ ففتھ جنریشن وار میں آگے بڑھیں۔ اکیلی حکومت یہ جنگ نہیں لڑ سکتی۔ کون دنیا کو بتائے گا کرونا نے کبھی بھی برصغیر میں تباہی نہیں پھیلائی، کون عوام کو تسلی دے گا یہ وائرس خطے کے باسیوں کے ڈی این اے میں کبھی ٹریول کر ہی نہیں سکا۔ بھارت سوا ارب آبادی، پاکستان بائیس کروڑ، سری لنکا، بنگلہ دیش، نیپال، تبت اور ٹوٹل مریض تیس ہزار، جبکہ ہلاکتیں تین ہزار سے بھی کم۔دوسرے لفظوں میں جنوبی ایشیاء میں پایا جانے والا کرونا اپنی شدت میں کہیں کم طاقت کا حامل ہے۔
یہ ایسے ممالک ہیں جہاں روزانہ لگ بھگ پچیس ہزار افراد دل کی بیماریوں اور دس ہزار کینسر سے جاں بحق ہو جاتے ہیں، جہاں ریس لگاتی بسوں کی ٹکر سے چار پانچ سو افراد ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں، جہاں گوبر میں لتھڑے ہاتھوں سے دھویا دودھ گھر گھر پیا جاتا ہے، جہاں کریانہ سٹوروں میں اجناس کی کھلی بوریوں پر چوہے، چھپکلیاں رات بھر منہ مارتے رہتے ہیں، اب ان خطوں میں کرونا تباہیوں کی کیا حیثیت؟۔ کرونا کے ساتھ ساتھ یہ تکلیف دہ حقیقت بھی نہیں بھولنی چاہئے پورا ملک اوپر نیچے ہوچکا ہے۔ برسہا برس کی کاوشوں سے قائم کئے گئے کاروباری سرکل ٹوٹ رہے ہیں۔ گرمیوں کے سیزن سے تعلق رکھنے والے تمام بزنس یونٹس تقریبا تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ اگر لاک ڈاؤن کی مزید دو تین سیریز چلیں تو پہلے سے موجود آٹھ کروڑ کی غریب آبادی میں دو کروڑ کا مزید اضافہ ہو جائے گا۔تین چار ماہ بعد کرونا کی ویکسین تو مارکیٹ میں آجائے گی۔ بخار بھی جیسے آیا ویسے ہی چلا جائے گا، لیکن وہ کاروبار جو مقروض ہو کر ڈوب چکے ہوں گے، انہیں بحال کون کرے گا؟
اس وقت دنیا کیا سوچ رہی ہے؟ کیا امریکہ اپنی معیشت کو تباہ ہوتے دیکھتا رہے گا؟ کیا یورپ کروڑوں بیروزگاروں کا دباؤ برداشت کر سکے گا؟۔ نہیں بڑی طاقتیں ایک نتیجے پر پہنچ چکی ہیں۔ امریکن لاک ڈاؤن کھولنے جا رہے ہیں۔ وہ اندازہ کر چکے ہیں کرونا کی حد کیا ہوگی۔ بیس لاکھ کے قریب شہریوں کی جانی قربانی۔ برطانیہ چار لاکھ اموات کی توقع کر رہا ہے، بھارت اڑھائی لاکھ۔ سبھی کو علم ہے یہ بخار کئی سالوں تک چلنا، لیکن جو معاشی نقصان ہوگا وہ سپر پاورز کو گھٹنوں کے بل گرا دے گا۔کیا دنیا کی سپر پاورز خود کو زیرو ہوتے ہوئے دیکھتی رہیں گی؟ قطعا نہیں۔ وہ بخار سے لڑیں گی، مریں گی اور کاروبار زندگی بھی کھولیں گی۔ ریاستیں یونہی کرتی ہیں۔ اعلی مقاصد کی خاطر ”قربانی“…… بظاہر پاکستان میں حالات ابتر نظر آرہے ہیں۔ لیکن آنے والے دنوں میں بہت بڑے امکانات نظر آرہے ہیں۔اتنے بڑے کہ شائد ساری گیم ہی چینج ہو جائے۔ پراپرٹی، تعمیرات کے کاروبار میں بناء سوال جواب سرمایہ کاری، شرح سود میں کمی، پٹرول کی گرتی قیمتیں اور بیرون ملک بستے وائرس سے خوفزدہ پاکستانیوں کی بڑے پیمانے پر سرمائے سمیت واپسی۔
یہ سب کچھ ہونے جا رہا ہے، لیکن شرط یہ ہے، ففتھ جنریشن وار کو پوری طاقت سے لڑا جائے۔ یہ جنگ کی وہی نئی قسم ہے، جس میں بغیر طیاروں کی گھن گرج شہری گھروں میں مقید اور بغیر بارود کے دھوئیں معیشتیں زمین بوس ہو رہی ہیں۔ پاکستان یہ جنگ تبھی جیت سکتا ہے، جب حکومت، افواج اور اپوزیشن یکجان ہو جائیں۔ آنے والے ہفتوں مہینوں میں دنیا بدلنے، طاقت کا توازن بگڑنے جا رہا ہے۔ امریکہ، یورپ کی سرپٹ دوڑتی معیشتیں لڑکھڑا چکی ہیں۔ اب نمودار ہوتے نئے منظر نامے میں بھی پاکستان نے اپنا حصہ وصول نہ کیا تو بہت بڑی بدقسمتی ہوگی۔