رائٹ ٹو انفارمیشن

رائٹ ٹو انفارمیشن
رائٹ ٹو انفارمیشن

  

شہریوں کیلئے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت معلومات کے حصول میں آسانی اور سسٹم کو پیپر لیس بنانے کیلئے پنجاب آئی ٹی بورڈ پنجاب انفارمیشن کمیشن کیلئے سنٹرلائزڈ ویب پورٹل وضع کرے گا۔ اس حوالے سے ارفع ٹاور میں چیئرمین پی آئی ٹی بی اظفر منظور اور چیف انفارمیشن کمشنر پنجاب انفارمیشن کمیشن محبوب قادر نے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کئے۔ پورٹل کے قیام سے شہری معلومات حاصل کرنے کیلئے آن لائن درخواست دے سکیں گے۔ پنجاب کے تمام محکموں کو پورٹل پر پنجاب انفارمیشن کمیشن سے منسلک کیا جائیگا اور ایک جیسی معلومات کی بار بار تیاری، توانائی وقت اور سٹیشنری کا ضیاع روکا جا سکے گا۔چیف انفارمیشن کمشنر محبوب قادر نے کہا کہ پورٹل بننے سے پنجاب انفارمیشن کمیشن کو درخواستوں پر کارروائی بارے تازہ معلومات میسر ہوں گی اورشہریوں کو معلومات کی فراہمی میں تیزی اور شفافیت آئے گی۔

 چیف انفارمیشن کمشنر محبوب قادر نے ایڈیشنل چیف سیکرٹری کو رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013ء کی ڈیجیٹلائزیشن، کمیشن میں آر ٹی آئی کورٹس کے قیام اور پنجاب انفارمیشن کمیشن کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے قانون میں ترامیم کی تجاویز سے آگاہ کیا۔ ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے قانون میں تجویز کردہ ترامیم پر جلد از جلد عمل درآمد کی ہدایت کر دی۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب انفارمیشن کمیشن میں آر ٹی آئی عدالت کے نفاذ کے لئے قانون میں ترمیم نا گزیر ہے۔ اجلاس میں صوبائی آرٹی آئی کمیٹی کے لئے محکمہ انفارمیشن اینڈ کلچر کو بطور فوکل پوائینٹ نامزد کیا گیا جوکہ کمیٹی کے تمام فیصلوں کو متعلقہ محکموں تک پہنچانے اور کمیٹی کو  اس کی رپورٹ پیش کرنے کا مجاز ہو گا۔ ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے صوبائی آرٹی آئی عملدرآمد کمیٹی کا ماہانہ اجلاس بلانے کی بھی ہدایات جاری کر دیں۔ 

 پنجاب انفارمیشن کمیشن 2018ء سے اب تک پانچ ہزار اپیلوں پر فیصلہ سنا چکا ہے جس میں وزیر اعلی کے ہیلی کاپٹر کے اخراجات کا حصول، آئی جی پولیس سے ایک سال کے کرائم ڈیٹا کا حصول جیسی انفارمیشن پبلک کرنے اور انسانی نعشوں پر قانون سازی کے حوالے سے فیصلے کئے گئے۔اس قانون کے تحت معلومات کے حصول کا عمل اس قدر پیچیدہ تھا کہ 2005ء سے 2010ء تک صرف 51 لوگوں نے اس قانون کے تحت معلومات تک رسائی کے لیے حکومت سے رجوع کیا۔تبدیلی کا عمل2010ء میں 18ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد شروع ہوا جس کے مطابق پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 19اے کو  شامل کیا گیا۔ اس کے مطابق کوئی بھی شہری قوانین کے تحت مفاد عامہ سے متعلق کسی بھی محکمے سے معلومات حاصل کر سکتا ہے۔

قومی اسمبلی نے مشرف دور میں منظور شدہ رائٹ ٹو انفارمیشن آرڈیننس 2002ء کو تبدیل کرتے ہوئے دی رائٹ آف ایکسیس ٹو انفارمشن ایکٹ 2017 ء پاس کیا تھا۔ اس کے تحت شہری تمام وفاقی وزارتوں اور محکموں سے معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔اسی طرح خیبرپختونخوا میں رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013ء نافد العمل ہوا، سندھ انفارمیشن کمیشن اور شکایات سننے کے لیے پاکستان انفارمیشن کمیشن کا قیام 2018ء میں قانونی چارہ جوئی کے بعد عمل میں آیا۔

بلوچستان میں فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ 2005ء نافذ ہے۔ دیگر صوبوں کے برعکس بلوچستان میں تاحال انفارمیشن کمیشن قائم نہیں ہوا۔ صوبے میں اب بھی سرکاری اداروں سے معلومات کے لیے درخواست کے ساتھ 50روپے فیس دی جاتی ہے، جبکہ 21دن کا انتظار کرنا  پڑتا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -