قومی یکجہتی،ملکی ضرورت

  قومی یکجہتی،ملکی ضرورت
  قومی یکجہتی،ملکی ضرورت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ملک میں ایک طویل دھینگا مشتی کے بعد حکومتی تبدیلی آخر کار ممکن ہو گئی،اس تبدیلی نے جہاں بڑے پیمانے پر سیاسی، آئینی اور قانونی بحث کو جنم دیا وہاں سابقہ حکومت کی کارکردگی کو عمران خان نے ایک سازش  اور امریکی مکتوب کی گرد میں کہیں گم کردیا ہے اس کے ساتھ ہی ایک مرتبہ پھر قومی سلامتی کے حساس ایشو بھی سر اٹھا کر سامنے آ گئے ہیں،یہ حقیقت ہے کہ سابقہ اپوزیشن اور موجودہ حزبِ اقتدار کے لئے معیشت پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہو گی،مگر ارض خداداد میں جب بھی انتقالِ اقتدار ہوتا ہے تو معیشت کو کم و بیش اسی قسم کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے،ان مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ ادائیگیوں کے توازن کا ہے، گزشتہ  چار  بار  انتقالِ اقتدار سے مشاہدے میں آ رہا ہے جب بھی نئی حکومت آتی ہے اسے زرِمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم سطح پر ملتے ہیں،جس کی وجہ سے ہر حکومت کو آئی ایم ایف پروگرام میں جانا پڑتا ہے،اس مرتبہ صورت حال اس لیے مختلف ہے کہ موجودہ حکومت کے پاس انتخابات تک ڈیڑھ سال کا عرصہ باقی ہے،نئی حکومت کو سابقہ حکومت کے آئی ایم ایف سے طے کردہ پروگرام کو بحال اور اس کو مکمل کرنا ہو گا جو لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہو گا،اس پروگرام کی تکمیل سے مہنگائی کی ایک نئی لہر وجود میں آئے گی،جو گرانی کی چکی میں پستے عوام کے لئے زہر قاتل بھی ہو سکتی ہے،عمران خان حکومت کی مقبولیت میں کمی کی وجہ بھی مہنگائی ہی تھی،اسی وجہ سے اتحادی بھی ساتھ چھوڑ گئے،اس پر عمران خان کی طرف سے بھٹو بننے کی کوشش اور سامراج کے خلاف محاذ آرائی،حکومت کی تبدیلی میں امریکی مداخلت کا الزام اور روس و چین کو باقاعدہ فریق بنانا بھی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے،جس کی وجہ سے ملکی خارجہ پالیسی میں تو تبدیلی ناگزیر ہو گی،مگر ملک کے اندرونی حالات بھی متاثر ہو سکتے ہیں،عمران خان کے دورہ روس کے بعد ملک میں اچانک در آنے والی دہشت گردی کی لہر بھی فوری غور طلب معاملہ ہے۔


ملک میں رونما ہونے والی سیاسی ہلچل کے دوران ملک کے بیرونی ادائیگیوں کے رسک میں اضافہ ہو گیا ہے، پاکستان کو قلیل مدت میں بیرونی مالیاتی خطرات کا سامنا ہے اور اس خطرے میں عالمی سطح پر اجناس کی قیمتوں میں اضافہ صورت حال کو مزید پیچیدہ اور مشکل بنا رہا ہے، نئی حکومت کے لئے اہم یہ ہے کہ وہ کس طرح موجودہ اور آئندہ مالی سال کے دوران واجب الادا قرضوں کو ری فنانس کر سکے اور نئے قرض بھی حاصل کر سکے،آئندہ بجٹ بھی نئی حکومت کے لئے آسان نہیں ہو گا،اس صورت حال سے نبٹنے کے لئے آخر کار عالمی مالیاتی اداروں کے پاس جانا ہو گا اور ان کی شرائط قوم کا معاشی  گلہ گھونٹنے کے مترادف ہوں گی، خدانخواستہ ایسی نوبت آ گئی تو ملکی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچانا معجزہ ہی ہو گا،ان گمبھیر حالات سے نبٹنے کے لئے پہلا اور آخری اقدام قومی یکجہتی ہے،قومی سیاست دانوں پر یہ حقیقت عیاں ہو چکی ہے کہ مخالفت اور مخاصمت کی سیاست ملک و قوم کے لئے مضر ہے اور آج تک اس سے  ملک کو فائدہ ہوا نہ قوم کو، ملکی بحران حل ہوئے نہ عوامی مسائل،موجودہ حکمران  خود عمران حکومت کے ساڑھے تین سال میں حکومت کو مشکلات سے دوچار کرنے میں مگن رہے،حالانکہ حکومت کے کسی مشکل میں گرفتار ہونے کا سیدھا مطلب  عوام کا مشکلات کے بھنور میں دھنسنا ہے،اب عمران خان نے موجودہ حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے فوری الیکشن کا مطالبہ کیا ہے اور تاخیر کی صورت میں کارکنوں کو اسلام آباد آنے کی تیاری کی بھی ہدایت کر دی ہے۔عمران خان بھی گزشتہ قریب ربع صدی سے سیاسی میدان میں ہیں،اس عرصہ کا زیادہ حصہ انہوں نے اپوزیشن کی سیاست کی،وہ جانتے ہیں کہ اس ساری مدت میں وہ حکومت کے لئے مسئلہ بنے رہے تو خمیازہ عوام کو ہی  بھگتنا پڑا۔


مملکت خداداد کے شہریوں کی بھاری اکثریت مسلمان ہے،ماہ رمضان رحمت بخشش اور دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے،روزہ مسلمانوں کی اجتماعی عبادت ہے ویسے تو نماز روزہ حج زکوٰۃ سب اجتماعی عبادات ہیں، دراصل اسلام ہے ہی اجتماعیت کا مذہب، اس ماہ مبارک میں رب کریم اپنے بندے کی دعاؤں کو شرف قبولیت عطا کرتے ہیں،آئندہ کچھ دِنوں میں شب قدر بھی آنے والی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے عمران خان نے کارکنوں کو شب قدر شب نجات کے طور پر منانے اور اس روز قومی اتحاد،حقیقی آزادی کے لئے کارکنوں کو دعا کرنے کی تلقین کی ہے،کیا ہی اچھا ہوتا کہ ملک کی ساری قومی سیاسی قیادت اپنے کارکنوں کو اس شب ملکی ترقی،عوامی خوشحالی،ملی یکجہتی،غیر ملکی قرضوں سے نجات،معیشت کی بحالی،اندرونی بیرونی خطرات سے نجات کے طور پر دعائیہ شب کے طور پر منانے کی تلقین کرتی اور پوری قوم شب قدر  میں اللہ سے ملک و قوم کی بہتری بھلائی کے لئے دعا کرے، 22کروڑ مسلمان جب اپنے رب کو خلوص گریہ زاری اور یقین کے ساتھ پکاریں گے تو وہ  ضرور رحم فرمائیں گے اور وہ ملک جو  ماہ رمضان کی شب قدر کو وجود میں آیا اور جس کے قیام میں لاکھوں مسلمانوں کا لہو شامل ہے اور جس کا مقصد ”لا الٰہ الااللہ“ تھا اس کے شہریوں کی فریاد ضرور سنیں گے اور اس قوم کو حقیقی آزادی،خوشحالی اور ترقی و کامرانی عطا فرمائیں گے۔


ہم بحیثیت قوم،اپنا ماضی، اپنے اسلاف کی قربانیوں کو فراموش کر چکے ہیں اور سب سے اہم اسی ماہ رمضان میں رب کریم نے ہمیں اصلاح احوال کے لئے زندگی کا قرینہ قرآن پاک کی صورت میں دیا اسے اپنی زندگیوں سے نکال چکے ہیں،یہ ماہ مبارک اس حوالے سے بھی عزم کا مہینہ ہے،ہمیں  ایک امت بن کر رہنا ہو گا، اجتماعی طور پر رب کریم کو پکارنا ہو گا،ایسا ممکن ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں اللہ جل شانہ کی مدد ہمارے شامل حال نہ ہو۔
ہمارا پیارا ملک اپنے قیام کے بعد سے ہی  سیاسی اور انتظامی بحران سے دوچار رہا  ہے اس بحران سے نبٹنے کے لئے بھی  ہمیشہ نت نئے بحران پیدا کئے گئے،ہر حکمران نے خود کو نجات دہندہ سمجھا  اور  اپوزیشن کو ملک کے لئے خطرہ قرار دیا،یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، شہباز شریف عمران خان کو ملک کے لئے خطرہ کہتے تھے اور کہتے ہیں،عمران خان شریف خاندان اور زرداری کو ملک کے لئے خطرہ قرار دیتے ہیں سوال یہ ہے کہ کب تک سیاسی معاملات عدالتوں میں زیر بحث رہیں گے؟کب تک تیسری قوت کو مداخلت کی دعوت دی جائے گی؟کب تک منتخب حکومتیں قبل از وقت تحلیل ہوں گی؟اس بحران کا حل ہمیں امریکہ نے دینا ہے نہ کسی دوسری غیر ملکی طاقت نے،ہمیں خود اس کا حل نکالنا ہے،اور اس کا واحد حل ذاتی مفادات کو تج کر سیاسی مفادات کو نظر انداز کر کے اقتدار کے لالچ کو پس پشت ڈال کر ملکی مفاد میں فیصلے کرنا ہے،ملی یکجہتی  اور قومی اتحاد، بحران سے نبٹنے کی مشترکہ کوشش ہے،ماہ رمضان اس کے لئے بہترین موقع ہمیں دے رہا ہے تمام سیاست دانوں کے لئے یہ لمحہ فکریہ اور عمل کا وقت ہے۔

مزید :

رائے -کالم -