میاں صاحب....ایک نظر ادھر بھی!
نو منتخب وزیر اعظم جناب شہباز شریف کی زیر قیادت" اتحادی حکومت" کے وزیر مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی جناب مفتی عبدالشکور کی" موٹر سائیکل سواری" کی سادہ سی تصویر نےلوگوں کے دل موہ لیے۔۔۔سوشل میڈیا صارفین نے ان کی اس "سادگی اور عاجزی" کو خوب سراہتے ہوئے کہا کہ یہ" افغان طالبان" نہیں پاکستان کے نئے وزیر مذہبی امور ہیں۔۔۔
مفتی صاحب این اے 51خیبر پختونخوا سے جناب مولانا فضل الرحمان کی جماعت کے رکن قومی اسمبلی ہیں۔۔۔دینی حلقوں کے لئے یہ بات بڑی باعث فخر ہے کہ مولانا صاحب خود اس "گئے گذرے زمانے" میں بھی ہر سال نماز تراویح میں قرآن ختم کرکے اپنے اکابرین کے نقش قدم پر چل رہے ہیں تو مفتی صاحب کے "عام آدمی والے طرز زندگی" نے سابق وزیر اعلی کے پی کے جناب مفتی محمود کی "درویشانہ زندگی "کی یاد تازہ کر دی ہے۔۔۔
اللہ کرے مفتی عبدالشکور صاحب "اس انکساری" کا بھرم رکھ چھوڑیں کہ ہمارا اب ایسی "تصویروں اور تحریروں" سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے کہ ہم نے سائیکل اور موٹر سائیکل سوار "حضرات گرامی قدر" کو حالات بدلتے ہی" تیور" بدلتے دیکھا ہے۔۔۔فٹ پاتھ سے ایوان اقتدار پہنچے تو وہی دنیا دار سیاستدانوں والا "انداز گفتگو" اور "لائف سٹائل"کہ سمجھ نہیں آتی جس" بنیاد "پر عزت ملے لوگ اسے چھوڑ کر ذلت کے راستے کیوں چلتے ہیں؟؟؟
جناب شہباز شریف نے وزارت عظمی کے حلف پر خطاب کرتے ہوئے مزدور کی کم از کم تنخواہ 25ہزار کرنے کا اعلان کرکے مہنگائی کی چکی میں پستے محنت کشوں کو قدرے حوصلہ دیا... اگر سرمایہ داروں نے جناب وزیر اعظم کی یہ بات مان لی تو مزدور کو کافی سہارا بھی مل جائےگا۔۔۔
مکہ مکرمہ میں مقیم وضع دار اور خود دار عالم دین جناب ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ سے شہباز شریف کے دینی رجحان کی بڑی تعریفیں سنی ہیں۔۔۔ڈاکٹر صاحب علمائے کرام کا شملہ اونچا دیکھنا چاہتے ہیں... کاش وہ اپنے ممدوح کے نام ایک مکتوب لکھیں کہ وہ دینی مدارس کے اساتذہ اور مساجد کے خطیبوں،اماموں اور موذنوں کو بھی کم از کم مزدور کا درجہ ہی دے جائیں کہ اس" کرسی" کا پتہ نہیں کہ ابھی کل اس"مسند" پر عمران خان تھے۔۔۔وہ انہیں یہ مشورہ بھی دیں کہ آپ نے اپنی وزارت اعلی کے ادوار میں کتنے ہی "انداز" اپنائےکہ کبھی پائوں میں لانگ بوٹ تو کبھی سر پر ہیٹ پہنا...کسی روز روپ کر بدل کر کسی مسجد اور دینی مدرسے میں بھی جاکر جھانکیں کہ اللہ کے یہ "سفید پوش بندے" کس حال میں ہیں...؟؟؟ یہ بھی آپ کی رعایا میں ہیں اور آپ ان کے بھی جوابدہ ہیں... ڈاکٹر صاحب کے مولانا فضل الرحمان صاحب سے بھی اچھے مراسم ہیں... جناب یہ انتہائی اہم مسئلہ ان کے گوش گذار بھی کر سکتے ہیں کہ مولانا صاحب بھی اقتدار میں برابر کے شراکت دار ہیں اور اتنے ہی جوابدہ ہیں جتنے باقی "مقتدر لوگ"۔۔۔!!!!
وزیر مذہبی امور جناب مفتی عبدالشکور بھی یاد رکھیں کہ ان سے پہلے پیر نورالحق قادری،سردار محمد یوسف،خورشید شاہ اور سید حامد سعید کاظمی اس منصب پر تھے۔۔۔کل کو وہ بھی اس عہدے پر نہیں ہونگے۔۔۔آج ان کے پاس یہ قلمدان ہے تو کاظمی صاحب کی طرح "حج عمرہ سکینڈل" میں الجھنے کے بجائے اپنے ان "دینی بھائیوں" کے لیے کچھ کر جائیں،امر ہو جائینگے۔۔۔مفتی صاحب سے بہتر کون جانتا ہے کہ مدارس کے اساتذہ کس کسمپرسی میں زندگی گذار رہے ہیں...وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مساجد کے خطیبوں،اماموں اور موذنوں کی حالت کتنی ناگفتہ بہ ہے۔۔۔ ؟؟؟ دین مبین کے لیے وقف یہ لوگ اوسطا چھ سات ہزار سے پندرہ بیس ہزار تک تنخواہ لینے پر مجبور ہیں... افسوسناک امر یہ ہے کہ بعض مساجد اور مدارس میں یہ تنخواہ بھی ہر مہینے باقاعدگی سے نہیں ملتی۔۔۔قرآنی اور نبوی علوم پڑھانے والے ان قابل قدر لوگوں کی اس سے بڑی بے قدری کیا ہوگی...عجب بات ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قرآن و حدیث کی تعلیم ترجیح ہے نہ تفسیر اور حدیث کے اساتذہ کرام مقدم ۔۔۔ہم ویسے ان قابل صد احترام حضرات کو قاری صاحب اور حافظ صاحب کہتے نہیں تھکتے مگر جب تنخواہ کی باری آتی ہے تو دو تین سو روپے "دیہاڑی کا حقدار" ہی سمجھتے ہیں...مولانا فضل الرحمان کی جماعت کو علمائے کرام کی بڑے پیمانے پر تائید حاصل ہے۔۔۔اس حوالے سے ان داڑھی پگڑی والے بوریا نشینوں کی عزت و توقیر بھی ملک کی اس سب سے بڑی دینی سیاسی جماعت کے کسی ذمہ دار کی زیادہ ذمہ داری ہے...!!!
مفتی صاحب پہلی فرصت میں مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمان سمیت تمام مسالک کے جید علمائے کرام کا نمائندہ اجلاس بلاکر مساجد اور مدارس کے ذمہ داروں کی کم از کم تنخواہوں بارے مشاورت کریں کہ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے...وہ وفاق المدارس اور تنظیم المدارس سمیت تمام وفاقوں سے ملکر کوئی ایسا قابل عمل میکانزم بنائیں کہ مدارس کے اساتذہ کی کم از کم تنخواہ بھی مزدور کے برابر ہی ہوجائے... اس ضمن میں حکومتی سطح پر بھی جو ہو سکے کریں...مساجد کے خطیبوں،اماموں اور موذنوں کے لیے بھی کوئی" باعزت پیکیج" ڈیزائن کیا جائے کہ ان مسکینوں کے بچے بھی اچھا کھا اور اچھا پہن سکیں...
ہوسکتا ہے ہمارے علمائے کرام کو مساجد میں" قرآن سکول "کا "آئیڈیا" پسند نہ آئے کہ وہ کسی بھی" نئے خیال" کو مسترد کر دیتے ہیں مگر یہ" تجویز" ہمارے امام مسجدوں،خطیبوں اور موذنوں کا معیار زندگی بہتر کر سکتی ہے۔۔۔ ملک بھر کی مساجد کو" قرآن سکولوں" کا درجہ دیکر وہاں نماز فجر کے بعد سے ظہر تک قرآن کلاسیں شروع کی جائیں... مساجد کے باہر قرآن سکول اور اوقات کار کا بورڈ لگایا جائے جبکہ اس کے اوپر" آئیں دیکھیں ہم فروغ قرآن کے لیے کیسے کوشاں ہیں"کا سلوگن تحریر کیا جائے۔۔۔محکمہ تعلیم سے رجسٹرڈ ان قرآن سکولوں میں بچوں کا باقاعدہ اندراج ہو... امام مسجد کو سرکاری طور پر قرآن ٹیچر، خطیب نگران جبکہ موذن کو معاون قرار دیکر مناسب مشاہرہ دیا جائے۔۔۔سکول جانے والے بچے جز وقتی جبکہ باقی بچے کل وقتی طالب علم ہوں.....ایک آسان نصاب کے تحت بچوں کو ناظرہ،حفظ اور تجوید و قرآت کی تعلیم دی جائے۔۔۔اس" طریقہ تدریس" سے قرآن کی تعلیم کو عام کرنے میں مدد ملے گی.....کسی زمانے میں برائے نام مسجد مکتب سکول ہوا کرتے تھے... قرآن سکول اس سے پرکشش منصوبہ ہے... یہ طویل مدتی مگر کامیاب پراجیکٹ ثابت ہو سکتا ہے۔۔۔اس منصوبے سے مساجد میں بچوں کے لیے صبح سویرے قرآن کی تعلیم کا دم توڑتا رجحان پھر جی اٹھے گا کہ اللہ کی کتاب کرسی نہیں چٹائی پر بیٹھ کر ہی سینوں میں اترتی ہے۔۔۔
خاکسار نے لاہور کی صحافی کالونی میں قرآن سنٹر کا سنگ بنیاد رکھنے والے مدینہ منورہ میں مقیم نامور اسلامی سکالر ڈاکٹر احمد علی سراج سے مساجد میں قرآن سکولوں کی تجویز پر رائے مانگی تو ان کا کہنا تھا کہ فروغ قرآن کے لیے یہ انتہائی" مجرب نسخہ" ہے۔۔۔کویت کی وزارت اوقاف اور کویت اسلامی بینک میں تیس پینتس سال اعلی عہدے پر کام کرنے والے ڈاکٹر احمد علی سراج کہنے لگے کہ میں مذکورہ عرب ملک میں قرآنی حلقوں کے نام سے یہ کامیاب تجربہ کر چکا ہوں۔۔۔میرے پاس اس حوالے سے بہترین پلان ہے...میں نے کہا کہ آپ اپنے "دینی بھائی" مفتی عبدالشکور سے یہ پلان شئیر کیوں نہیں کرتے تو انہوں نے آہ بھرتے ہوئے کہا کہ" ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں"۔۔۔!!!
پس تحریر:قرآن و حدیث کے اساتذہ کرام کی بات کرتےکرتے" پے اینڈ سروس پروٹیکشن" کے لیے جھولی پھیلائے پنجاب کے کالجوں کے ساڑھے 6ہزار پروفیسرز اور لیکچرارز پھر یاد آگئے...کتنی شرمناک بات ہے کہ عزت مآب کالج اساتذہ سالہا سال سے سراپا احتجاج ہیں مگر "اندھے بہرے نظام"میں کوئی ان" معماران قوم" کو دیکھ نہ سن پارہا ہے۔۔۔میاں صاحب ایک نظر ادھر بھی۔۔۔!!!
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں