نئی حکومت کو درپیش چیلنجز

نئی حکومت کو درپیش چیلنجز
نئی حکومت کو درپیش چیلنجز
سورس: File

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پچھلے چند ہفتوں سے پاکستانی سیاست میں جو بھونچال آیا ہوا تھا اس میں کافی حد تک کمی آگئی ہے. معاملات سلجھتے نظر آ رہے ہیں. عدم اعتماد کے بعد جو آئینی بحران پیدا ہوگیا تھا وہ ہمارے جیسے سیاست کے طالب علموں کے لیے انتہائی عجیب و غریب اور بالکل نیا تھا. پارلیمانی روایات اور دستور کو پس پشت ڈال دیا گیا حتی کہ آئین کو بھی اپنے اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کی گئی. ایسے لگ رہا تھا جیسے ہم کسی پرانے دور میں چلے گئے ہوں جہاں بادشاہت قائم ہے اور ایک بادشاہ کو تخت سے اتارنے کے لیے جنگ کے میدان کے سوا کوئی دوسرا آپشن ہی نا ہو. بھلا ہو سپریم کورٹ آف پاکستان کا کہ جس نے بروقت مداخلت کی اور یہ باور کروایا کہ یہ ایک جمہوری ملک ہے جہاں اقتدار میں آنے کے لیے ایک باقاعدہ طریقہ کار موجود ہے اور کسی کے حکومت سے نکالنے کے لیے بھی طریقہ کار موجود ہے.
عدم اعتماد آنے سے پہلے ہر جگہ اور ہر زبان پر عمران خان صاحب کی کارکردگی زیر بحث تھی. لوگ عمران حکومت سے سخت مایوس تھے. پی ٹی آئی کے ورکرز بھی ملک میں انتہا کو ًچھوتی ہوئی مہنگائی، بیروزگاری، غربت اور تباہ حال معیشت پر اپنی حکومت سے نالاں نظر آرہے تھے لیکن بھلا ہو اپوزیشن کا جنہوں نے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد لا کر اس کے مایوس ورکر کو دوبارہ اس کے ساتھ کھڑا ہونے کا موقع دیا.
میں نے عدم اعتماد آنے سے قبل بھی لکھا تھا کہ عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو عمران خان صاحب کو سیاسی شہید بننے کا موقع مل جائے گا اور اگر ناکام ہوگئی تو اپوزیشن کو بہت سخت سیاسی دھچکا لگے گا.
عدم اعتماد نے نہایت دلچسپ و عجیب و غریب موڑ اختیار کیے اور پوری قوم نے اس سنسی خیز میچ کو دیکھا کہ جس میں آخری بال تک یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا تھا کہ اس میدان کی فاتح متحدہ اپوزیشن قرار پائے گی یا عمران حکومت. مہینہ بھر اس عدم اعتماد کی تحریک کو آئین کے مطابق باامر مجبوری چلایا گیا کہ آئین میں درج آخری آپشنز استعمال کیے گئے. اجلاس بلایا گیا اور چونکہ آئینی تقاضہ اجلاس بلانا تھا اس لیے اجلاس بلایا گیا اور بغیر کاروائی کے ہی ملتوی کیا گیا. عدم اعتماد کے معاملے میں کوئی بحث نہیں ہوئی یہ سازش ہے یا کیا ہے اس پر بحث کے لیے پارلیمنٹ سے بڑا کوئی میدان نہیں تھا لیکن وہاں پر کسی قسم کی ایسی کوئی بحث نہیں کی گئی اور پھر ووٹنگ کے لیے خدا خدا کرکے آخری دن اجلاس بلایا گیا جس کے اندر بھی کسی پارلیمانی سیاسی جماعت کو موقف پیش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور فواد چوہدری صاحب کی ڈیڈھ منٹ کی تقریر پر ڈپٹی سپیکر قاسم سوری صاحب نے رولنگ دی کہ یہ غیر ملکی سازش ہے اور می‍ں رولنگ دیتا ہوں کہ یہ تحریک عدم اعتماد مسترد کی جاتی ہے.
انتہائی عجیب سیاسی ماحول پیدا ہوگیا. حکومت نے خود ہی مدعی خود ہی وکیل اور خود ہی منصف بن کر فریق مخالف کو سنے بغیر فیصلہ صادر فرما دیا حالانکہ ایوان کی کارروائی چلانے کے لیے آئین پاکستان میں واضح لکھا ہوا ہے کہ چونکہ ملک عزیز پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں پارلیمانی نظام ہے اس لیے پارلیمنٹ میں فیصلہ سازی اکثریتی اراکین کی منشاء کے مطابق کی جائے گی.
ماضی میں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ حکومت کے چاہنے کے باوجود پارلیمنٹ نے اس کام کو کرنے کی اجازت نہیں دی تو پارلیمنٹ کے وقار کو مجروح نہیں کیا گیا بلکہ اس کام کو ہی کرنے سے گریز کیا گیا.
میاں نواز شریف کے دور اقتدار میں سعودی عرب میں فوج بھیجنے کا مسئلہ پیدا ہوا اور باوجود اس کے کہ حکومت فوج کو بھیجنا چاہتی تھی لیکن پارلیمنٹ نے اس پر بحث کی اور فوج بھیجنے سے منع کیا تو فوج نہیں بھجوائی گئی.
لیکن عدم اعتماد کے معاملہ پر اکثریتی اراکین کی منشاء کو روندتے ہوئے جب ڈپٹی سپیکر صاحب نے رولنگ دی اور فتح کے شادیانے بجانے شروع کردیئے گئے تو سپریم کورٹ آف پاکستان نے ہنگامی بنیاد پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے دروازے کھولے اور روزانہ کی بنیاد پر حکومت و اپوزیشن کے وکلاء کا موقف سنا اور چند روز کے اندر اندر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دے کر پارلیمنٹ کے اراکین کی جانب رجوع کرنے کا حکم دیا.
یہ فیصلہ آئین اور جمہوریت کے لیے انتہائی اہم، تاریخی اور شاندار فیصلہ تھا جس سے آئین پاکستان کی بنیادی اساس  ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے محفوظ رہی....
عدالت عظمی کے حکم کے مطابق اجلاس کو وہیں سے شروع کیا گیا جہاں پر رولنگ دے کر ختم کیا تھا لیکن یہ دن بھی پاکستانی تاریخ کا ایک عجیب دن تھا کہ جس دن رات کے 10 بجے تک لیت و لعل اور ٹال مٹول سے کام لیا جاتا رہا کہ کسی نا کسی طرح یہ ووٹنگ کا عمل ٹل جائے، کوئی ستارہ ٹوٹے، معجزہ ہو یا قیامت آجائے لیکن ووٹنگ سے بچنے کا کوئی تو بہانہ مل جائے.
جب رات کے اس پہر تک بھی سپیکر قومی اسمبلی نے ووٹنگ نہیں کروائی تو عدالت عظمیٰ نے رات 12 بجے ہی عدالت کے دروازے کھولنے کا حکم دے دیا اور 12 بجتے ہی سماعت کرنے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ قومی اسمبلی کے باہر قیدیوں کی گاڑیاں بھی پہنچا دی گئیں اس قدر جگ ہنسائی اور اقتدار کے لیے لگے تماشے نے پاکستان کا سر شرم سے جھکا دیا کہ جہاں ضابطہ، قاعدہ، دستور اور آئین کو مذاق بنایا گیا اور ہر صورت اپنی ہی جیت کا اعلان کروانے کے لیے عجیب و غریب حرکات کی گئیں.
جب سپریم کورٹ کی طرف سے ذرا لچک نظر نا آئی تو سپیکر قومی اسمبلی نے استعفیٰ دے دیا اور اپنی کرسی ایاز صادق صاحب کے حوالے کر دی انہوں نے ووٹنگ کروائی تو عدم اعتماد کامیاب ہوگئی اور عمران خان صاحب پاکستان کے وزیراعظم نہیں رہے.
پنجاب کے اندر بھی اسی طرز کا تماشہ لگایا گیا جو ابھی تک لگا ہوا ہے. پہلے پنجاب اسمبلی کے اجلاس کو رکوائے رکھا اور اگر عدالت کے حکم پر اجلاس بلایا ہی گیا تو پرویزالہی صاحب کے ہاؤس ممبرز پورے نہ ہونے کی وجہ سے ڈپٹی سپیکر پر حملہ کیا گیا اور اراکین کو آپس میں لڑوادیا گیا جس کے باعث چوہدری پرویزالہی صاحب اور ایک اور خاتون رکن اسمبلی زخمی بھی ہوئیں لیکن ووٹنگ کے بعد پنجاب اسمبلی نے حمزہ شہباز کو نیا وزیراعلیٰ منتخب کرلیا جن کا  حلف ابھی تک اٹکا ہوا ہے اور گورنر پنجاب ان سے حلف لینے سے انکاری ہیں....
صدر پاکستان جناب عارف علوی صاحب نے وزیراعظم شہباز شریف صاحب سے حلف لینے سے انکار کیا اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی صاحب نے کابینہ اور وزیراعظم صاحب سے حلف لیا.ملک عزیز پاکستان میں اس سے پہلے سیاست اس قدر نفرت اور ذاتی پسند ناپسند کی وجہ سے انتہا پسندی کا شکار نہیں تھی جتنا آج ہوچکی ہے. اہم ترین مناصب کا تقاضہ ہوتا ہے کہ صدر ہو، وزیراعظم ہو، سپیکر ہو یا گورنر ہو وہ ہر پارٹی اور ہر پاکستانی کا صدر، وزیراعظم ، سپیکر اور گورنر ہوتا ہے. اگر کوئی اتنے بڑے منصب پر بیٹھ کر بھی خود کو کسی ایک پارٹی تک محدود کرتا یے تو یہ اس کی کم ظرفی، انتہاپسندی، ملک دشمنی اور جمہوریت دشمنی ہے.
شہباز شریف صاحب نے اس حکومت کو  گرا کر ان کی تمام نااہلیوں، نالائقیوں، ناکامیوں اور بری کارکردگی پر انہیں محفوظ راستہ فراہم کردیا ہے.عمران خان صاحب کو غیر ملکی سازش کا بیانیہ اور وقت پورا نا کرنے دینے کی سیاسی مظلومیت کا بیانیہ مل چکا ہے. تاریخ کی سب سے زیادہ مہنگائی، غربت، بیروزگاری اور بری کارکردگی کہیں زیر بحث نہیں بلکہ عمران خان اور ان کی پارٹی کامیابی سے اپنا بیانیہ عوام میں منتقل کررہے ہیں.اتنی بری کارکردگی کے باوجود بھی اگر عمران خان کا ووٹر اور سپورٹر دوبارہ اس کے ساتھ جڑ گیا ہے تو یہ صرف عدم اعتماد کا   فیض ہے.
شہباز شریف صاحب نے حکومت میں آتے ہی اس خط کی تحقیقات کا اعلان کیا تھا جس کو عمران خان صاحب جلسوں میں لہراتے پھر رہے ہیں.لیکن اس پر ایک قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس ریلیز جاری کردینے سے مطلع صاف نہیں ہوا. کوئی غیرجانبدار کمیشن قائم کرکے اس کی تحقیقات کروانی چاہئیں تاکہ اس کی رپورٹ کے بعد پاکستانی عوام کا ذہن صاف ہوسکے.
مبینہ طور پر ایک اور خط بھی گردش کر رہا ہے کہ جس میں شاہ محمود قریشی صاحب نے امریکہ میں پاکستانی سفیر کو خط لکھ کر ڈانٹ پلائی کہ ابھی تک جوبائیڈن سے عمران خان کو کال کیوں نہیں کروائی گئی اور سفارتی سستی پر انہیں متنبہ بھی کیا ۔ جس امریکی صدر کی ایک کال کے لیے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا اور وہ کال تو کیا مس کال بھی نہیں آئی اسی امریکہ کے خلاف آج عوام کو بھاشن دیے جارہے ہیں. 
دوسری جانب اس نئی اور مخلوط حکومت کو جہاں قدم قدم پر اتحادیوں کی ناراضگی کا اور سیاسی وار کا خوف ہے وہیں پر مہنگائی، غربت، بیروزگاری، ڈالر کی اونچی پروان، ترقیاتی کاموں کی بندش اور دیگر نہایت سنجیدہ قسم کے چیلنجز ہیں. اگر نئی حکومت ان چیلنجز سے نا نمٹ پائی تو اس کا سارا ملبہ عمران خان پر گرنے کی بجائے اب آسانی سے اس حکومت کے سر گرے گا کیونکہ عمران خان کو تو یہ خود محفوظ رستہ فراہم کرچکے....

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

مزید :

بلاگ -