کساندر فرتز سے محمد عبد اللہ بننے کی ایمان افروز کہانی

کساندر فرتز سے محمد عبد اللہ بننے کی ایمان افروز کہانی
کساندر فرتز سے محمد عبد اللہ بننے کی ایمان افروز کہانی
سورس: Representational Image

  

 امریکی بچے کساندر فرتز نے امریکا کے ایک عیسائی گھرانے میں 1990ء میں آنکھ کھولی۔ماں باپ عیسائی تھے مگر ماں نے اسے کھلے عام اجازت دی کہ میرا بیٹا جو چاہے مذہب اختیار کرلے۔میری طرف سے اس پر کوئی پابندی عائد نہیں ہوگی۔اس کی ماں نے اسے مختلف مذاہب کی کئی کتابیں فراہم کردیں۔اس نے تقریباً تمام کتابوں کا تقابلی مطالعہ کیا اور نتیجتاً  آٹھ برس کی عمر میں اس نے اپنے اسلام قبول کرنے کا نہ صرف اعلان کردیا بلکہ وہ دین اسلام کے بارے میں بہت کچھ جان بھی چکا تھا،نماز،اذان اور بہت سے شرعی احکام بھی اسے سمجھ میں آگئے تھے۔  اس نے قرآن کریم کا بھی کچھ حصہ ازبر کرلیا تھا۔اس سب میں دل چسپ بات یہ ہے کہ اس دوران میں اس کی کسی ایک مسلمان سے بھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔

اس کے دل و دماغ میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت جاگزیں ہوگئی تھی،اس نے حضرت محمد خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام نامی اور اسم گرامی سے برکت حاصل کرنے کے لیے اپنا نام "محمد عبداللہ" رکھا۔ اسے ایک اسلامی چینل نے اپنے ہاں بطور مہمان مدعو کیا،اس کی عیسائی والدہ بھی اس کے ساتھ تھیں۔ ابھی ٹی وی اینکر،بچے سے سوالات کرنے کی تیاری میں تھا۔اس بچے نے اچانک سے انہیں سوال کرکے چونکا دیا۔ "میں حج اور عمرہ کیسے ادا کرسکتا ہوں؟ کیا یہ سفر مشکل ہے؟ میں لباس احرام کہاں سے خرید سکتا ہوں؟ وہ بچہ اپنے سکول میں اکیلا ہی مسلمان تھا،باقی سب طلبہ و اساتذہ عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔جب بھی نماز کا وقت ہوتا تو وہ اکیلا کھڑا ہوتا،اذان دیتا اور تن تنہا نماز کی ادائیگی میں مشغول ہوجاتا،اسی وجہ  سےوہ سکول میں کافی مشہور ہوگیا تھا۔

اینکر نے محمد عبداللہ سے پوچھا کہ کیا آپ کو اس راستے میں مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ اس نے بڑی حسرت اور افسوس سے ملے جلے جذبات میں کہا:

مجھے بس ایک ہی پریشانی ہے اور وہ یہ ہے کہ نماز کے اوقات معلوم نہ ہونے کی وجہ سے کبھی میری نماز رہ جاتی ہے۔

آپ کو کیا چیز اسلام میں کھینچ کر لائی ہے؟ اینکر

میں جتنا زیادہ اسلام کا مطالعہ کرتا گیا اتنا ہی زیادہ اسلام میرے دل میں گھر کرتا گیا۔ محمد عبد اللہ

آپ کی خواہشات کیا ہیں؟

بچہ فوراً بولا:

 میری دو تمنائیں ہیں۔ایک تو یہ ہے کہ میں ایک اچھا سا مصور بن جاؤں تاکہ میں مسلمانوں کی صحیح منظر کشی کروں۔امریکا کی گندی فلمیں،میرا دل دکھاتی ہیں،جن میں میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ مبارک بگاڑا جاتا ہے۔ دوسرا میں مکہ مکرمہ جانا چاہتا ہوں اور حجر اسود کا بوسہ لینا چاہتا ہوں۔

اسی اثناء اس کی عیسائی ماں کہنے لگی کہ اس کا کمرہ مسلمانوں کے کعبہ کی تصویروں سے بھرا ہوا ہے اور اس نے اپنے ہفتے کے  جیب خرچ سے300ڈالر جمع کر رکھے ہیں۔اس کی دیرینہ تمنا ہے کہ یہ کبھی کعبہ کی زیارت کے لیے جائے۔

لوگ سمجھتے ہیں کہ محمد عبداللہ کے یہ خیالات اور افعال ایک قسم کا دھوکہ اور فریب ہیں لیکن میں یقین سے کہتا ہوں کہ محمد عبداللہ کو حقیقی ایمان کی وہ دولت نصیب ہوئی ہے،جس کا دوسرے لوگ اندازہ ہی نہیں لگاسکتے۔

اسی انٹرویو کے دوران محمد عبداللہ نے بتایا کہ اس نے   گذشتہ برس روزے رکھے تھے۔میرے پاپا نے مجھے چیلنج کیا کہ میں روزے نہیں رکھ پاؤں گا لیکن وہ اس وقت ہار گئے جب میں نے یہ کام کر دکھایا۔

آپ کی اور کیا آرزوئیں ہیں؟ اینکر

میں چاہتا ہوں کہ فلسطین دوبارہ سے مسلمانوں کے پاس آجائے۔یہ انہی کی سرزمین ہے۔ محمد عبداللہ

کیا آپ اپنے والدین کے ساتھ خنزیر کا گوشت کھاتے ہیں؟

خنزیر تو بہت ناپاک جانور ہے،میں نہیں کھاتا اور پتا نہیں لوگ کیسے اسے کھا لیتے ہیں؟ محمد عبداللہ

کیا آپ سکول میں نماز کا عمل برابر جاری رکھے ہوئے ہیں؟ اینکر

جی، میں نے لائبریری میں ایک خفیہ جگہ کا انتخاب کر رکھا ہے،جس میں روزانہ نماز ادا کرتا ہوں۔

ابھی اس لطف اندوز انٹرویو کا سلسلہ چل رہا تھا،مغرب کا وقت ہوگیا۔اس نے اینکر کو لجاجت بھری نظروں سے دیکھا اور کہا:

کیا آپ مجھے اذان کہنے دیں گے؟

پھر وہ اٹھا اور اس نے پرسوز لب و لہجہ میں اذان کہی۔۔۔۔۔

یہ ایمان افروز منظر دیکھ کر اینکر کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب امڈ آیا۔

آہ،اللہ کریم سورہ محمد میں سچ ہی فرماتے ہیں کہ" اگر تم دین محمدی سے روگردانی کروگے تو اللہ تمہاری جگہ اور لوگ پیدا فرمادیں گے جو تم جیسے نہیں ہوں گے۔"

آج اسلام تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن گیا ہے۔ماہرین کا ماننا ہے کہ 2050ء میں افرادی قوت کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا مذہب اسلام ہی ہوگا۔

بات یہ ہے کہ جب تک کائنات میں سورج چاند چمکتے رہیں گے،ستارے جگمگاتے رہیں گے،چرند پرند چہکتے رہیں گے اور پھول کلیاں مہکتی رہیں گی فصل گل و لالہ بہاریں دکھاتی رہیں  گی، تب تک "لا الہ الا اللہ" کا نغمہ گنگنایا جاتا رہے گا۔رسول پاک ﷺ کی ختم نبوت کا سورج صبح قیامت کا تک ایمان و ایقان کی روشنیاں بکھیرتا رہے گا۔

اگر ہم مسلمان اس بارے میں کوتاہی کے مرتکب ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کسی اور کو اس "کار خیر"کے لیے استعمال کرلے گا۔یہ ہماری خوش قسمتی اور خوش بختی ہوگی کہ ہم اس کام میں جت جائیں اور خدمت اسلام میں دامے،درمے،قدمے سخنے جتنا ممکن ہو حصہ ڈال لیں۔سوچیں کہ اپنی آنے والی نسلوں کو رسول عربی ﷺ کے دامن رحمت سے کیسے وابستہ رکھنا ہے؟ انہیں فکری الحادی یلغار سے کیسے بچانا ہے؟ انہیں دور حاضر کے فتنوں سے کیسے محفوظ رکھنا ہے؟ ہماری سوچ و فکر کا محور یہ ہونا چاہیے۔دین ہمارا نہیں،ہم اس کے ہر پل محتاج ہیں۔ہمیں اپنی نجات کے لیے اس دین کامل کی شدید ضرورت ہے۔

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

مزید :

بلاگ -