اساتذہ، رانا سکندر حیات اور سکالرز سیمینار ملتان 

Apr 25, 2024

انتظار احمد اسد

 ذوالقرنین ملک سے راقم کی یاد، اللہ بہت پرانی ہے۔وہ اندھیروں میں روشنی پیدا کرنے والے لیڈر اور با صلاحیت اسکالر ہیں۔ان ہونی کو ہونی میں بدلنے کی صلاحیت ان میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ ان کے اعصاب مضبوط، ارادے بلند اور عقابی نگاہیں اساتذہ کے لئے کچھ کر گزرنے کا عزم لئے ہوئے ہیں۔2009 ء میں انہوں نے محسوس کیا کہ پنجاب میں اساتذہ کی ایک بڑی تعداد ایم فل و پی ایچ ڈی ایسی اہمیت کی حامل ڈگری لینے کے باوجود پرائمری وہائی سکولز میں لوئر سکیلوں پر کام کرنے پر مجبور ہے۔محکمہ تعلیم میں اس حوالے سے ان کی تعلیمی قابلیت کے مطابق ترقی کا نہ تو کوئی قانون ہے اور نہ ہی قاعدہ،بلکہ بعض جگہ یہ لوگ میڑک,ایف اے اور بی اے پاس لوگوں کے زیر نگیں کام کر رہے ہیں جو نہ صرف ان اساتذہ کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں، بلکہ ان اساتذہ کے تعلیم کے حصول میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں ۔ذوالقرنین ملک نے اس حوالے سے اساتذہ میں بیداری پیدا کرنے کے لئے ایک پلیٹ فارم پنجاب ایجوکیشنل ریسرچ سکالر ایسوسی ایشن کے نام سے قائم کرکے سکالرز کے جائز مقام کے حصول کے لئے جدوجہد شروع کی۔یار لوگوں نے اس کی آواز کو دیوانے کی بڑھک سے تعبیر کیا،لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی توانا آواز نہ صرف مقتدر حلقوں میں گونجی، بلکہ ایوان اقتدار میں بیٹھے اہل رائے لوگ اس سے متاثر بھی ہوئے۔ مسلم لیگ (ن) کے پچھلے دور حکومت میں جب اللہ بخش ملک سیکرٹری ایجوکیشن پنجاب تھے،ذوالقرنین ملک سے ان کی مسلسل ملاقاتیں رہیں۔ انہوں نے ”پارسا“سے مل کر ایک پلان ترتیب دیا تاکہ سکالرز کو ان کا جائز مقام ملے، لیکن شومی ئ  قسمت کہ الیکشن کے بعد ان کو اس عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ یوں سکالرز کی منزل جوکہ بالکل قریب تھی پھر دور ہوگئی۔2018ء کے الیکشن کے بعد  مراد راس کو وزیر تعلیم بنایا گیا، جس نے گذشتہ حکومت  میں اسمبلی  کے فلور پر سکالرز کے جائز مقام کے لئے قرارداد پیش کی تھی۔ ذوالقرنین ملک نے انہیں کہا کہ چونکہ اب آپ خود وزیر تعلیم ہیں اِس لئے اپنی ہی پیش کردہ قرار داد کو عملی جامہ پنہائیں، لیکن پی ٹی آئی کے چار سالہ دور میں بار بار اسمبلی کا رخ کیا گیا۔ڈپٹی سپیکر، ممبران اسمبلی، وزراء، سٹیک ہولڈرز سے ملاقاتیں ہوئیں۔گورنر پنجاب نے ان کا جائز مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے سی اہم پنجاب کو لیٹر بھی لکھامگر مراد راس اپنی ہی پیش کردہ قرار داد پر اپنے دورِ حکومت میں عمل درآمد کروانے سے قاصر رہے۔اس دور میں وزراء  سے سیکرٹری تعلیم تک ہر ایک نے نہ صرف ذوالقرنین ملک  اور ان کی ٹیم کے پیپر ورک کو  سراہا، بلکہ قابل عمل بھی گردانا،لیکن بوجوہ ان کی مہیا کردہ تجاویز عملی جامہ سے قاصر رہیں۔ ذوالقرنین ملک کی انتظامی صلاحیتوں اور دور رس نگاہوں کے عقابی فیصلوں کو بھانپتے ہوئے، انہیں ملازمین کی سب سے  بڑی اور منظم تنظیم ”اگیگا پنجاب“ کا وائس چیئرمین منتخب کر لیا گیا، جہاں پچھلے دِنوں ان کی صلاحیتوں کو عملی طور پر اس وقت دیکھا گیا جب پنجاب حکومت اور ”اگیگا“ کے درمیان مذاکرات ہوئے۔

پنجاب کے اساتذہ کی یہ خوش بختی ہے کہ رانا سکندر حیات جیسے پڑھے لکھے اور مشرقی ومغربی تعلیمی پالیسیوں سے آشنا شخص کو وزارت تعلیم جیسے اہم عہدے پر فائز کیا گیا ہے۔ موصوف چار سال ضلع کونسل قصور کے چیئرمین رہے ہیں۔ ان کا تعلق قصور کے اس سیاسی خانوادے سے ہے جو عرصہ دراز سے سیاست کی خاردار وادی میں قدم رکھے ہوئے ہے۔ پھولنگر کے اس باسی راجپوت خاندان کے سپوت سے اساتذہ کو بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔نکئی خاندان کی وراثت سمجھی جانے والی نشست سے کامیابی حاصل کرکے وزیر تعلیم بننے والے رانا سکندر حیات کے عزم بظاہر بلند نظر آرہے ہیں۔  وہ اساتذہ اور سکالرز کے لئے کچھ کر گزرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ گذشتہ دِنوں ”پارسا“ کے پلیٹ فارم سے چیئرمین ذوالقرنین ملک نے چوہدری ستار وڑائچ صدر کرکٹ ایسوسی ایشن قصور کی وساطت سے ان سے دو دفعہ ملاقاتیں کیں۔ آپ نے وزیر موصوف کو اس دکھ سے متعارف کروایا،جس سے سکالرز اساتذہ روز گزر رہے ہیں۔انہوں نے وزیر تعلیم کو باور کروانے کی کوشش کی کہ معاشرے کے سب سے ذہین ترین سکالرز اساتذہ جن سے کام لیکر پنجاب حکومت تعلیمی انقلاب برپا کر سکتی ہے،پنجاب محکمہ سکول ایجوکیشن میں لوئر سکیلوں پر پرائمری اور ہائی سکولوں میں کام کر رہے ہیں۔ ذوالقرنین ملک نے انہیں اِس امر کی طرف توجہ دلائی کہ آج کل جبکہ سکولوں کی انتظامی پوسٹیں تقریبا خالی ہیں، ان تخلیقی صلاحیتوں سے مالامال اساتذہ سے کام لیا جاسکتا ہے۔ایم فل اساتذہ کو گریڈ17 اور پی ایچ ڈی سکالر کو گریڈ ا18 دیکر جو کہ ان کا جائز حق ہے،تعلیمی حوالے سے انقلابی تبدیلیاں لاکر پنجاب میں تعلیمی انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ اساتذہ پہلے ہی گریڈ17 اور 18 کے برابر تنخواہ لے رہے ہیں اگر ان کو پروموٹ کردیا جاوے تو بغیر کسی مالی رکاوٹ کے نہ صرف اداروں میں اچھے منتظم میسر آجائیں گے، بلکہ اساتذہ برادری میں تعلیمی طور پر آگے بڑھنے کا جذبہ بھی پیدا ہوگا۔ملک ذوالقرنین کا اس حوالے سے یہ بھی موقف ہے کہ اگر پنجاب حکومت ان انتظامی سیٹوں پر نئی بھرتی کرتی ہے تو کروڑوں روپے تنخواہ کی مد میں ادا کرنا پڑیں گے،لیکن اگر سکالرز کو ان کا جائز حق  ہے دیا جائے تو اس مالی بحران کے دور میں بہت زیادہ بچت ممکن ہے۔

وزیر تعلیم سے ملاقات سے ”پارسا“ کے لوگ بہت مطمئن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ رانا سکندر حیات کے تعلیم دوست اور اساتذہ کے ساتھ مثالی رویے سے انہیں امید کامل ہے کہ وہ اپنی منزل جلد حاصل کر لیں گے۔اس حوالے سے 30 اپریل کو ملتان میں ہونے والا ”ایجوکیشنل سکالرز سیمینار“بہت اہمیت کا حامل ہے،جس میں وزیر تعلیم رانا سکندر حیات خود شریک ہوکر سکالرز اساتذہ کے زخموں پر مرہم رکھیں گے۔ ذوالقرنین ملک اس حوالے سے بہت سی امیدیں رکھتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس پیپر ورک مکمل ہے اور وہ ڈاکومینٹری پروف وزیر تعلیم رانا سکندر حیات کے سامنے رکھ چکے ہیں، جنہیں دیکھ کر  وزیر موصوف نہ صرف متاثر ہوئے ہیں،بلکہ انہوں نے ان کو قابل ِ عمل بھی گردانا ہے۔

مزیدخبریں