سندھ طاس معاہدہ،تاریخی حقائق اور بھارت کا مکروہ کردار

جب کوئی معاہدہ دو ملکوں کے درمیان ہوتا ہے،تو اس کی بنیاد محض سیاہی اور کاغذ نہیں بلکہ نیت اور نرمی پر ہوتی ہے۔معاہدہ سندھ طاس 1960، پاکستان اور بھارت کے درمیان ایسی ہی ایک دستاویز تھی،جو نہ صرف دونوں ایٹمی قوتوں کے مابین پانی جیسی بنیادی ضرورت کی منصفانہ تقسیم پر قائم ہوئی بلکہ اس معاہدے نے برصغیر میں عشروں تک ایک ناممکن لگنے والے امن کو ممکن بنا کر دکھایا مگر بھارت نے ایک بار پھر اس معاہدے کو سیاست کی نذر کر کے نہ صرف اپنی پرانی روش کو دہرایا ہے بلکہ پورے خطے کو ایک نئے بحران کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی ہے۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب بھارت نے پانی کے مسئلے پر اپنی ہٹ دھرمی دکھائی ہو۔اگر ہم تاریخ کے اوراق پلٹیں تو 1948 میں،جب پاکستان محض ایک نوزائیدہ مملکت تھی،بھارت نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے پاکستان کے دریاؤں کا پانی بند کر دیا تھا۔یہ وہ لمحہ تھا جب پاکستان کو پہلی بار اندازہ ہوا کہ پانی،جو اس کے لیے زندگی کی حیثیت رکھتا ہے،بھارت کے ہاتھوں میں ایک ہتھیار بھی بن سکتا ہے۔اس کے بعد کئی برسوں کی محنت، عالمی ثالثی اور عالمی بینک کی مداخلت سے معاہدہ سندھ طاس وجود میں آیا۔اس معاہدے کے تحت تین مشرقی دریا (ستلج، بیاس، راوی)بھارت کو جبکہ تین مغربی دریا(سندھ، جہلم، چناب)پاکستان کو دیے گئے اور یوں ایک متوازن تقسیم کا خاکہ طے پایا لیکن بھارت نے اس توازن کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا۔ہر دورِ حکومت میں اس نے کسی نہ کسی بہانے اس معاہدے کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔
کبھی وہ پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاؤں پر متنازع ڈیم تعمیر کرنے لگا تو کبھی اس نے پاکستان کو معاہدے کی شقوں کے بارے میں بروقت اطلاع دینے سے گریز کیا۔چاہے وہ بگلیہار ڈیم ہو یا کشن گنگا،بھارت کی ہٹ دھرمی بارہا عالمی ثالثی عدالت میں چیلنج ہوئی اور کئی مواقع پر اسے اپنے اقدامات کو روکنا بھی پڑا۔۔۔۔۔حالیہ خط،جو بھارت کی وزارتِ آبی وسائل کی سیکرٹری نے پاکستانی ہم منصب کو بھیجا، اس پرانی روش کا تسلسل ہے۔اس میں دہشت گردی کو بنیاد بنا کر معاہدے کو"عارضی معطلی"کا شکار بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔یہ منطق نہ صرف قانونی طور پر کمزور ہے بلکہ اخلاقی لحاظ سے بھی انتہائی خطرناک۔ ایک بین الاقوامی معاہدے کو یک طرفہ طور پر معطل کرنا، وہ بھی ایسے وقت میں جب کوئی براہِ راست مذاکرات یا عالمی ثالثی زیرِ غور نہ ہو، بھارت کی اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ طاقت کے زعم میں کسی معاہدے کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔۔
بھارت کا یہ دعویٰ کہ "پاکستان نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے"دراصل اپنے اقدامات پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔اگر کوئی ملک مسلسل دہشت گردی کا نشانہ رہا ہے تو وہ پاکستان ہے،نہ کہ بھارت۔پاکستان خود دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑ چکا ہے اور لڑ رہا ہے اور یہ کہنا کہ وہ ریاستی سطح پر ایسے اقدامات کر رہا ہے،محض ایک سیاسی بیانیہ ہے جس کا مقصد عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنا ہے۔۔۔۔اس خط میں آبادیاتی تبدیلیوں اور صاف توانائی کی ترقی کا حوالہ دے کر معاہدے کو نئے سرے سے دیکھنے کی بات کی گئی ہے مگر یہ سب توسیع پسندانہ سوچ کا پردہ ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر بھارت کو واقعی شفاف مذاکرات درکار ہوتے تو وہ یک طرفہ طور پر معاہدے کی معطلی کا اعلان کرنے کے بجائے عالمی فورمز کا دروازہ کھٹکھٹاتا۔
پاکستان نے بارہا ثالثی عدالت اور عالمی بینک کو رجوع کیا، مگر ہر بار بھارت نے تاخیری حربے اپنائے اور معاملات کو بگاڑنے کی کوشش کی۔یہ فیصلہ نہ صرف پانی کی تقسیم کے نظام پر اثرانداز ہو گا بلکہ جنوبی ایشیاء میں امن و امان کے توازن کو بھی بگاڑ سکتا ہے۔ پاکستان کی زراعت کا دار و مدار انہی دریاؤں پر ہے، اور اگر بھارت یک طرفہ طور پر پانی روکنے کی کوشش کرے، تو یہ معاملہ کسی بھی لمحے کھلی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ اقوام متحدہ، عالمی بینک اور بااثر ممالک اس خطرناک روش کا نوٹس لیں، کیونکہ پانی کی جنگ کسی ایٹمی تصادم سے کم نہیں ہو گی۔پاکستان کے لیے بھی یہ لمحہ غور و فکر کا ہے۔
ہمیں اپنی سفارتی حکمت عملی کو از سر نو ترتیب دینا ہو گا، قومی مفاد کو سیاسی مفادات سے بالاتر رکھنا ہو گا اور اس مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھانے کے لیے مربوط کوششیں کرنا ہوں گی۔پانی صرف ایک قدرتی وسیلہ نہیں،یہ ہماری بقا ہے اور جب دشمن بقا کو نشانہ بنائے تو پھر جواب بھی بقاء کے اصولوں کے تحت ہی دینا پڑتا ہے۔
۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔