کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
ہم وہ مسجد و معبد کہاں تلاش کریں جہاں پاکستانی جمہوریت کی مضبوطی کے لئے لب ہلائیں اور ہاتھ اٹھائیں ،ہم وہ درگاہ اور خانقاہ کہاں سے لائیں جہاں پارلیمانی نظام کی بلوغت کی منتیں مانیں ،اس مزار یا دربار کو کہاں تلاش کریں ،جہاں سیاسی نظام کی سلامتی کے لئے چڑھاوے چڑھائیں اور ہاں ! ہم سب مل کر وہ کوہِ مقدس کس کرہ پرپائیں جہاں جمہوری نظام کے استحکام و تسلسل کے لئے سوختنی قربانیاں دیںیا پھر سیاست دانوں کی شائستگی و دانش مندی کے لئے اس قربان گاہ کا سراغ لگائیں، جس پر کئے جانے والے ذبیحے مقبول ہوں۔
کئی دنوں سے دارالحکومت کے مغرب کا افق دہک رہا اور دامانِ شفق بھڑک رہا ہے ۔گماں گزرتا ہے جیسے انقلابیوں نے شعلے سے چنے ہوئے ہوں اور سونامیوں نے تنور دھنے ہوئے ہوں ۔بقو ل افتخار عارف
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا ،جب تماشا ختم ہو گا
ڈاکٹرطاہرالقادری کے انقلاب مارچ اور عمران خان کے آزادی مارچ کا انجام و اختتام جو بھی ہو اور جیسے بھی ہو بہر کیف یہ تو طے ہوا کہ پاک سر زمین پر کچھ بھی نہیں بدلا ،اب بھی جمہوریت کی دوشیزہ کا جوبن لوٹا جا سکتا اورآج بھی آئین میں رو ح پھونکنے کی بجائے اسے ہی پھونکا جا سکتا ہے۔آج بھی پارلیمانی نظام کی ناؤ بھنور میں ہے اور چپو کھینے والے ملاح آج بھی مُنہ زور اور سرکش لہروں سے خائف اور خوف زدہ ہیں۔ہرگز کوئی کلام نہیں کہ موجودہ حالات اورحاضرہ لمحات میں حکومت بچانے والے شدید دباؤ کا شکار ہیں، لیکن اس سے بھی سنگین حقیقت اور تلخ سچ یہ ہے کہ حکومت گرانے والے اس سے بھی بڑھ کر اعصابی تناؤ کا شکار اور ذہنی تشنج ونظری تشتت میں مبتلا ہیں۔ عمران خان کی بڑھک بازی اور گرمئی گفتار، ڈاکٹر طاہرالقادری کی شعلہ بیانی اور تپی رنگ آمیزی سے صا ف اور صریح پتہ چلتا ہے کہ یہ بُری طرح آپے سے باہر ہو چکے ہیں ۔ دہائی خدا کی قادری صاحب کی پارلیمنٹ میں نمائندگی تک نہیں، مگر وہ شہنشاہوں اور ظلِ الہٰوں کی طرح حکم جاری کیا کیے کہ سب کچھ لپیٹ دیا جائے ،اک حشر اُٹھا دیا جائے اور میرے لئے میدان صاٖ ف کر دیا جائے ۔کوئی پوچھنے والا نہیں کہ کیوں ؟ حضور کیوں ؟
عمران خان کی تحریک انصاف نے عام انتخابات میں چھہترلاکھ اناسی ہزارنو سو چون (7679954)اور میاں نواز شریف کی مسلم لیگ(ن) نے ایک کروڑ اڑتالیس لاکھ چوہترہزارایک سو ایک (14874101) ووٹ حاصل کیے ۔حیرت ہے ،حیرت سی حیرت ہے ؟ کہ لاکھوں میں ووٹ لینے والے کروڑوں ووٹ حاصل کرنے والوں کو آنکھیں دکھا اور دھمکیاں لگا رہے ہیں ۔ دونوں نے ماحول کو اتنا گرما اور صورتحال کو اتنا تپا دیا ہے کہ بس توبہ بھلی،ایسے میں عقل ودانش کی نصیحتیں تحلیل ہوتی معلوم ہوتی ہیں ۔مباحثے کی میز اورمذاکرات کے میدان میں حکومت تو آگے بڑھ رہی ہے مگر عمران خان اور طاہرالقادری ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے چلتے نظر آتے ہیں ۔ حکومت کے لئے مذاکرات بھی مشکل ہیں اور طاقت کا استعمال تو اس سے بھی سوا۔معاملات اور حالات اس نہج اور دوراہے پر آن پہنچے ہیں کہ سیاسی نظام کی ناؤڈولنے لگی ہے، خدا خیر کرے ۔
لگتا ہے کسی سامری نے کوئی سحر پھونک دیا ہے کہ جمہوریت کاشجر سر سبز نہ ہونے پائے ،آئے روز دھرنے،لانگ مارچ ،جلسے جلوس ،استعفے ،تبدیلی اور انقلاب کی وہ گرد اٹھائی جائے کہ اچھے بھلے ہوش و خرد کھو دیں ۔جمہوری نظام کے قرار کو قرار نہ آئے اور پیہم جبر کی چکی چلتی رہے ۔آئے روز کچھ لوگ اٹھیں جو دھاندلی کے نام پر حقِ حکمرانی مانگیں یا کوئی دیارِ غیر کا باسی اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے اپنے ملازموں اور مریدوں کی گردنوں پر سوار ہو کر حکومت کے نام پر جمہوریت کو للکارے اور ریاست کے نام پر رِٹ کو رول دے۔نواز شریف نے بھی عجیب وغریب نصیب پایاہے کہ جب بھی وہ افتاں وخیزاں حکومت میں آئے تب ہی مخالفوں نے پتلی تماشے دکھانے شروع کر دیئے،سرکس کے کرتب دکھانے اور سوانگ بھرنے شروع کر دیئے۔شریف برادران کی عداوت و تعصب میں انہوں نے نظام کی بساط لپیٹنے سے بھی گریز نہیں کیا،جمہوریت جائے جہنم میں ،نظام کا استحکام جائے بھاڑ میں۔