ڈاکٹر قادری پچھلے سال الیکشن رکوانے آئے تھے

ڈاکٹر قادری پچھلے سال الیکشن رکوانے آئے تھے
ڈاکٹر قادری پچھلے سال الیکشن رکوانے آئے تھے
کیپشن: 1

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

چین کے چیئرمین ماﺅزے تنگ نے اپنی تقریباً 90ہزار فوج کے ساتھ نو ہزار کلو میٹر کے لانگ مارچ کی قیادت کی، جبکہ دشمن ہر سمت سے حملہ آور تھا اور ایک سال کی مدت کے بعد صرف سات ہزارفوجی اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکے اور یہی باقی ماندہ فوجی ”سرخ آرمی“ کی ہمت و استقلال اور بے مثال قربانی کی علامت بن گئے، جن کے گرد پوری قوم جمع ہو گئی اور دشمنوں کو شکست دی۔ عمران خان کے لانگ مارچ سے بھی ہمیں بڑی توقعات تھیں، لیکن پچھلے چند دنوں میں جو منظر ہم نے دیکھا ہے اور جو حکمت عملی، مقاصد اور ترجیہات ہم نے سنی ہیں، ان سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ یہ لانگ مارچ اپنی منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی ناکام ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ہمیں فوج میںیہ سکھایا گیا ہے کہ کوئی معرکہ ہو یا جنگ، اس کی حکمت عملی تیار کرنے میں اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ مقاصد واضح ہوں اور حکمت عملی اور وسائل کی فراہمی کے بعد سب سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ منصوبے کے ناکام ہونے کے امکانات کیا ہیں تاکہ کمزوری کو دور کیا جائے اور کامیابی کے امکانات زیادہ ہوں، لیکن عمران کا لانگ مارچ اور حکمت عملی دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ یہ سیاسی محاذ آرائی شروع ہونے سے پہلے ہی ناکامی کی طرف گامزن ہے۔بس ایک ہنگامہ ہے، سیاسی شعبدہ بازی ہے ۔
عمران خان کے لانگ مارچ کا بنیادی مطالبہ آئینی تھااور درست تھا کہ الیکشن 2013 ءمیں دھاندلی ہوئی ہے (صرف پنجاب میں) اور ان کا مینڈیٹ چرایا گیا ہے، اس لئے چار حلقوں میں ووٹوں کی جانچ پڑتال ہونی چاہئے۔ وزیراعظم مان گئے کہ سپریم کورٹ کا کمیشن تحقیق کرے اور فیصلہ سنائے، لیکن عمران خان نے اسے تسلیم نہیں کیا اور نئے مطالبات سامنے لائے، جو غیر آئینی ہیں۔ اس طرح انہوں نے اپنے بنیادی مقصد سے ہٹ کر اپنی پوزیشن کمزور کر لی ہے۔ مثلاً ان کا یہ مطالبہ کہ نواز شریف استعفیٰ دیں اور ٹیکنو کریٹس کی حکومت بنے ، جس کے خلاف لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ یہ دونوں مطالبات غیر آئینی ہیںاور ان غیر آئینی مطالبات کی بنیاد پر لانگ مارچ یا احتجاج بھی غیر آئینی ہے۔ عمران خان کی یہ پہلی ناکامی ہے اور ان پر اس کی وجہ سے قانونی گرفت ہو سکتی ہے۔ ان کی دوسری غلطی یہ ہے کہ انہوں نے سوچ لیاہے کہ فوج ان کی مدد کے لئے آئے گی، کیونکہ ان کے ذہن میں ماضی کی چار مثالیں ہیں: مگر وہ ماضی کے ان واقعات کے انجام کو نہیں دیکھ پائے۔ فوج نے فیصلہ کیا ہے کہ ”یہ سیاسی و آئینی مسئلہ ہے اور اس کا حل نکالنا بھی سیاسی و آئینی اداروں کی ہی ذمہ داری ہے“۔
عمران کے تمام مطالبات ایک ساتھ سامنے نہیں آئے ۔ جب ان کو اندازہ ہواکہ حکومت نے ایک مطالبہ مان لےاہے تووہ دوسرا مطالبہ لے آئے ۔ اب ٹیکنو کریٹس کی حکومت کے مطالبے کو ہی دیکھئے کہ جس کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔آئین کے تحت تو یہ حکومت نہیں بن سکتی۔ ایسی حکومت تو فوجی ہی بنائیں گے، جیسا کہ پرویز مشرف نے بنائی تھی، پارلیمنٹ تو ایسی حکومت نہیں بنائے گی، جبکہ پارلیمنٹ موجود ہے، وہ ختم تو نہیں ہوئی، ٹیکنو کریٹ حکومت بنانے کا مطالبہ ایسا ہے کہ خود ان کی جماعت کے اہم لیڈر جاوید ہاشمی بھی ان سے ناراض ہو گئے ”کہ تم فوج کو مداخلت کی دعوت دے رہے ہو“ ، یعنی بلی تھیلے سے باہر آ گئی ہے۔اب عمران سیاسی حکومت کی بات کرنے لگے ہیں، لیکن درپردہ ان کا مقصد فوج کو ہی مداخلت کی دعوت دینا ہے۔
عمران کی یہ غلطی ہے کہ انہوں اپنے آپ کو ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ نتھی کر لیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی پارلیمنٹ میں ایک سیٹ بھی نہیں ہے ،وہ تو غیر ملکی فنکار ہیں اور تماشا دکھا کرچلے جائیں گے، جس طرح پچھلے سال آ ئے تھے تو زرداری نے ان کو بہلا پھسلا کر واپس بھیج دیا تھا۔اب بھی ایسا ہی ہو گا اور انہیں واپس بھیج دیا جائے گا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے انقلاب کا ایجنڈا بہت موہوم سا ہے، ان کو خود نہیں معلوم کہ وہ انقلاب کب اور کیسے لائیں گے، عمران خان یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی اسلام آباد آمد اور احتجاج سے گھبرا کر وزیراعظم استعفیٰ دے دیں گے، لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ نواز شریف بھرپور مزاحمت کریں گے، اس لئے کہ پارلیمنٹ کی اکثریت ان کے ساتھ ہے۔ عمران خان، نوازشریف کو پارلیمنٹ توڑنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ غالباً عمران خان کے ذہن میں تحریر اسکوائر کا نقشہ ہے اور وہ اسلام آباد کو تحریر سکوائر سمجھ رہے ہیں ۔انہیں اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ اخوان کی تحریک 85سال پرانی ہے اور ایک نظریاتی تحریک ہے، جبکہ تحریک انصاف کا کوئی واضح نظریہ نہیں ہے ۔وہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ ” وہ نہ تو اخوان کی برابری کر سکتے ہیں اور نہ ہی نواز شریف حسنی مبارک ہیں “۔
 عمران خان کے اندازے بھی غلط نکلے۔ ملین مارچ کا خواب ادھورا ہے۔ عمران خان کو یہ بھی اندازہ نہیں ہے کہ میڈیا آزاد ہے اور انہوں نے جو کچھ کہا من وعن لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے ۔یہاں تک کہ انہوں نے جوش جذبات میںآ کر کہا کہ اگر مجھے قتل کیا گیا تو ”میرے کارکنو! نواز شریف کے خاندان کو نہ چھوڑنا“۔ ایسی باتیں ایک ذمہ دار شخص کبھی نہیں کرتا۔ پھر اس بات کو جھٹلانے لگے۔یہ ان کو زیب نہیں دیتا،اللہ نے ان کو زیرو سے ہیرو بنایا، الیکشن میں ان کی پارٹی کو اللہ نے تیسری بڑی جماعت بنایا اور ایک صوبے کی حکومت بھی دی ۔پنجاب اور سندھ میں بھی نشستیں دیں ،لیکن یہ اپنے ماضی سے اپنا موازنہ ہی نہیں کر رہے ، اتنے بے چین ہو گئے ہیں کہ اپنے مخصوص اقدامات کے ذریعے اقتدار پر قابض ہو کر ایک ایسی روایت قائم کرنا چاہتے ہیں جو آئین سے ماوراءہو گی، مستقبل میں کسی بھی حکومت کو چھ ماہ یا سال سے زیادہ مہلت نہیں ملے گی اور جمہوریت یرغمال ہو جائے گی۔
دراصل اقتدار کی یہ کشمکش نظریاتی ہے، سیکولر اور غیر سیکولر کی جنگ ہے ۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا ایجنڈا یہ تھا کہ الیکشن ہی نہ ہوں اورنواز شریف اقتدار میں ہی نہ آ سکیں۔ پچھلے سال یہی مقصد لے کر وہ پاکستان آئے تھے ۔جیسے بنگلہ دیش سیکولر ملک بنا دیا گیا اور وہاں اسلامی نظام کا نام لینے والوں پر زندگی مشکل بنا دی گئی ہے۔جیسے فلسطین میں 2006ءمیں حماس کامیاب ہوئی تو اس کو امریکہ نے مسترد کر کے سازشوں سے حکومت کو ختم کیا۔ انہیں پولیٹیکل اسلام پسند نہیںہے۔ الجزائر اور مصر میں بھی عوامی حکومتیں اِسی لئے ختم کی گئیں کہ وہ اسلامی تھیں اور آج یہ کوشش یہاں پر بھی ہے ۔ماضی کی حکومتوں میں صرف مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی جو اسلامی نظریے پر یقین رکھتی ہے۔ اِسی نظریاتی تصادم کو آگے بڑھانے کے لئے ڈاکٹرطاہر القادری پاکستان آئے ہیں ۔مجھ سے ایک فوجی آفیسر نے سوال کیا کہ طاہر القادری تو ایک معتبر دینی شخصیت ہیں‘ ان سے ایسی بات کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟مَیں نے کہا کہ ”مصر میں اخوان کی حکومت گرانے میں کٹر اسلامی ممالک بھی شامل رہے ہیں تو ڈاکٹر طاہر القادری سے کیا بعید“۔

مزید :

کالم -