نماز اپنی اپنی
عمران خان کی ہفتے والی خوشخبری پر بات بعد میں کریں گے پہلے جمعہ شریف کے دن کا واقعہ آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں”راوی“ بتاتا ہے کہ جمعہ کے روز ڈاکٹر طاہر القاری نے اپنے قاصد کی زبانی عمران خان کے نام یہ پیغام بھیجا کہ اگر آپ پسند کریں تو جمعہ کی نماز اکٹھی پڑھ لی جائے، کیونکہ جمعہ کی نماز اکٹھی پڑھنے سے نواز شریف کوایک سخت پیغام بھیجا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القاری کا قاصد جب عمران خان کے پاس پہنچا تو عمران خان کسی گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے، جو بظاہر یہی ہو سکتی تھی اب ”پہلے“ نیا پاکستان“ بنایا جائے یا خاندان والوں کے دباﺅ کے آگے سر جھکاتے ہوئے شادی کی جائے۔ ڈاکٹر طاہر القاری کے قاصد پر نظر پڑھتے ہی انہوں نے اپنے سیکرٹری کو حکم دیا کہ اعلان کر دو پی پی پی کے ورکروں کے بعد عوامی تحریک کے ورکر بھی ہمارے ساتھ مل گئے ہیں، قریب تھا کہ سیکرٹری اعلان کر دیتا، ڈاکٹر طاہر القاری کے قاصد نے بآواز بلند کہا: اعلان کرنے سے پہلے میری بات تو سنو، عمران خان نے جب اُس سے پوچھا کہ بتاﺅ کیا بات ہے تو اس نے کہا: اعلیٰ حضرت کی خواہش ہے کہ ہم نماز جمعہ اکٹھی پڑھیں۔ عمران خان نے قاصد سے کہا تم انتظار کرو، اس کے لئے مجھے مشاورتی اجلاس بلانا پڑے گا، سو دستیاب رہنماﺅں کا اجلاس بلایا گیا، تمام ممبران نے عمران خان کے چہرے سے اندازہ لگا لیا کہ وہ نماز جمعہ کی اکٹھی ادائیگی کے لئے تیار ہیں، سو انہوں نے بھی ”ہاں“ کر دی اور اپنی اپنی منرل واٹر کی بوتلوں کے ذریعے وضو کرنا شروع کر دیا۔
ادھر عمران خان، سیف اللہ نیازی کو رومال اور ٹوپی کا بندوبست کرنے کا حکم دیتے ہوئے خود وضو کے لئے کنٹینر کے اندر جانا چاہتے تھے کہ ”بٹ ساﺅنڈ“ والے، جو عمران خان کے ساتھ خاصے بے تکلف بھی ہیں نے پوچھا: کپتان کہاں کے ارادے ہیں؟ عمران خان نے مسکراتے ہوئے بٹ ساﺅنڈ والے سے کہا، گانے ہی چلاتے رہتے ہو، کبھی نماز بھی پڑھ لیا کرو، بٹ نے پوچھا: ابھی تو خاصا وقت ہے اور پھر ہم نے کون سا کہیں اور جانا ہے، آپ کی امامت میں ہی اٹھیں گے۔ بٹ کی بات پر عمران مسکرائے اور کہا:کم بخت نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے ہم نے ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ بٹ نے کہا: خان اعظم، سمجھنے کی کوشش کرو، ہمارے 15،16کارکن ہیں، اگر ان سب کو ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے میں لے گئے اور ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی تقریر کے ذریعے انہیں قابو کر لیا.... تو پھر انہیں واپس کون لائے گا.... بٹ ساﺅنڈ والے کی بات نے عمران خان کے چودہ طبق روشن کر دیئے اور انہوں نے ڈاکٹر طاہر القادری کے قاصد کو جواب دیا کہ جا کے اعلیٰ حضرت سے کہنا، کہ بھائی ”نماز اپنی اپنی“۔
اُدھر ڈاکٹر طاہر القادری کو پوری امید تھی کہ اگر عمران خان اپنے ننانوے لاکھ ننانوے ہزار کارکنوں کے ساتھ آ گیا تو ایک کروڑ نمازیوں کا ہدف مکمل ہو جائے گا، سو انہوں نے اپنے خطاب کو طویل کرنا شروع کر دیا۔ ان کے مریدین نے بار بار گھڑیوں کی طرف دیکھا کہ اللہ خیر کرے، اب تو نماز عصر کا وقت ہونے والا ہے اور اعلیٰحضرت کی تقریر ہی ختم نہیں ہو رہی، مگر وہ یہ سوچ کر خاموش ہو گئے، کہ پیرو مرشد کی مرضی ہے وہ نماز جمعہ ظہر کے وقت پڑھائیں یا عصر کے وقت، اِسی کش مکش کے دوران ڈاکٹر طاہر القادری کا قاصد پنڈال میں داخل ہو گیا، قریب تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری عمران خان کی آمد کا اعلان کر دیتے، قریب کھڑے رحیق عباسی نے کہا اعلیٰ حضرت اعلان کرنے سے پہلے قاصد کے مُنہ کی طرف دیکھو، کیا خیر کی خبر لانے والے قاصد کا مُنہ ایسا ہوتا ہے۔
بلا شبہ عمران خان کے نہ آنے کے باوجود ڈاکٹر طاہر القادری کے نماز جمعہ کے اجتماع میں بھی لوگوں کی کمی نہیں تھی۔ ایک بار تو مجھے ایسے لگا کہ انڈین اداکار امیتابھ بچن بھی موجود ہیں، پھر مَیں نے سوچا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے بارے میں آج تک نہیں سنا کہ انہوں نے کسی غیر مسلم کو کلمہ پڑھایا ہو، البتہ اپنے ”حلقہ ¿ قادریہ“ میں لوگوں کو شامل کرنے کے لئے ہاتھ پاﺅں ضرور مارتے ہیں۔ سو مَیں نے عینک لگا کہ دیکھا تو یہ تو ہمارے سابق گوزنر ملک غلام مصطفی کھر اپنی فرنچ ”کٹ“ داڑھی کے ساتھ پورے انہماک کے ساتھ مولانا کی تقریر سُن رہے تھے۔ قدرت کی بے نیازیوں پر غور کیا تو خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ بھی انسان سے کیسے کیسے امتحان لیتا ہے۔ کہاں وہ دن کہ موصوف شیر پنجاب کہلاتے تھے، کہاں یہ عالم کہ اب ڈاکٹر طاہر القادری کے باڈی گارڈ بنے ہوئے ہیں کارکنوں کے سینکڑوں دھکے کھانے کے بعد سٹیج پر کرسی تک پہنچتے ہیں اور ہزاروںدھکے کھانے کے بعد سٹیج سے نیچے اُترتے ہیں انہیں کوئی سمجھانے والا نہیں ہے کہ اس عمر میں انسان اپنے گھر کے اندر اجنبی بن کر رہ جاتا ہے تو پھر اجنبی لوگوں کے درمیان اپنی عزت کمانے کے لئے ہاتھ پاﺅں مارنے کی کوشش کیسے کامیاب ہو سکتی ہے۔
بہر حال شیر پنجاب کی داستان یہیں ختم کرتے ہیں اور واپس عمران خان کے ہفتے کی رات کی بات کرتے ہیں، عمران خان کی سیاست اگر کسی ”قاعدے، ضابطے، اخلاق، اصول کے تابع ہوئی تو پھر ان سے مطالبہ کیا جا سکتا تھا کہ خود ان کے اعلان کے مطابق ہفتے کی رات امپائر نے انگلی نہیں اٹھائی تو پھر اب اصولی سیاست کا تقاضا ہے کہ آپ کنٹینر سے نیچے اتر آئیں اپنے کارکنوں کو واپس اپنے گھروں کو جانے کی اجازت دیں اور اس سلسلے میں نوازشریف سے مطالبہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ عمران خان کو وزیراعظم کے پورے پروٹوکول کے ساتھ اسلام آباد سے جہاں وہ جانا چاہتے ہیں روانہ کریں تاکہ وزیراعظم کے منصب یا استعفیٰ کے ساتھ نہ سہی کم از کم وزیراعظم کے پروٹوکول کے ساتھ تو واپس جائیں مگر قوم کو یقین ہے کہ عمران خان فی الحال اسلام آباد سے جانے والے نہیں ہیں۔
اپنی انا کے قیدی ہیں، وہ کسی آئین و قانون کے پابند نہیں ہیں انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ پاکستان کی تمام پارلیمانی جماعتیں ان کے مطالبہ کو غیر آئینی سمجھتے ہوئے ان کا ساتھ دینے پر آمادہ نہیں ہیں اور ادھر حکومت ان کے جائز مطالبات کو نہ صرف تسلیم کرنے پر آمادہ ہے، بلکہ ان پر فوری عمل کرنے کا بھی وعدہ کر رہی ہے تو پھر سیاست میں کچھ دو اور کچھ لو کے اصول کے تحت آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ عمران خان کو اپنی ذات کے دائرے سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے، وہ خود کو ایسے دائرے میں نہ گھسیٹیں کہ انہیں باہر نکلنے کا راستہ بھی نہ مل سکے، وہ اس وقت سیاسی تنہائی کا شکار ہیں مگر حکومت انہیں اس دائرے سے نکلنے کا راستہ دے رہی ہے تو انہیں دائرے میں سے نکل جانا چاہئے، وہ اگر سمجھتے ہیں کہ نوازشریف کے مستعفی ہونے تک وہ واپس نہیں جائیں گے تو پھر نوازشریف کے مستعفی ہونے کا ابھی تک کوئی طریقہ دستیاب نہیں ہے، ان کا دھرنا اب کسی سیاسی اجتماع سے زیادہ ”سرکس“ یا میوزیکل شو کی طرح نظر آتا ہے وہ نہ صرف اپنا سیاسی نقصان کر رہے ہیں، بلکہ اسلام آباد کے شہریوں کا بھی نقصان کر رہے ہیں ان کے جنونیوں کا ”جنون“ اور عوامی تحریک کے انقلابیوں کا ’انقلاب‘ اسلام آباد کی آب و ہوا کو زہر آلود کر چکا ہے۔ اسلام آباد کے شہری محسوس کرتے ہیں کہ اسلام آباد کے درخت، گرین پارک، خوبصورت پھول، سڑکیں اور عمارتیں اپنی خوبصورتی سے محروم ہو چکی ہیں۔ ایک زہر آلود بدبو ان کے ناک کے ذریعے ان کے جسموں میں داخل ہو رہی ہے اور اگر اس کا سد باب نہ کیا گیا، تو پھر اسلام آباد والے وبائی امراض کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں کیا انسانی حقوق کی تنظیمیں، سوشل ورکر، اور میڈیا اسلام آباد کے شہریوں کے حق میں اپنی آواز اُٹھانا پسند کرے گا؟