اب کیا ہوگا؟
جیسی آپ کو توقع ہے ویسا ہوگا،لیکن جیسی آپ کی خواہش ہے ویسا نہیں ہوگا !....کیونکہ توقع اور خواہش میں فرق ہوتا ہے!یوں بھی پہلے لوگ پوچھتے تھے کہ اب کیا ہوگا؟ اور اب ایک دوسرے سے پوچھتے نظر آتے ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے“!.... بغیر تیاری کے پرچہ ایسے ہی حل ہوتا ہے، چاہے ہاتھ میں پارکر کا پین ہی کیوں نہ ہو .... ؟؟ کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن.... کجھ مینوں مرن دا شوق سی“ والی صورت حال ہے، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھر ی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ عمران کھسیانی بلی کھمبا نوچے والی کیفیت میں مبتلا ہیں، حالانکہ یہ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا والا معاملہ ہے!
حقیقت یہ ہے کہ عمران خان لوگوں میں مقبول ضرور ہیں، لیکن لوگوں کو قبول نہیں،چاہے وہ پاکستان کی چھت پر چڑھ کر ہی واویلا کیوں نہ کرلیں!کتنے افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں تبدیلی کے خواہاں پاک فوج کے سپہ سالار سے توقع باندھے ہوئے ہیں کہ وہ انتخابی دھاندلیوں کو ثابت کرنے کے لئے ماورائے آئین مطالبات کی توثیق کریں گے، شاید اسی لئے یہ تاثر عام تھا کہ عمران خان کا کام صرف آزادی مارچ کو اسلام آباد تک لے جانا ہے، باقی کا کام خودبخود ہو جائے گا!
عین ممکن تھا کہ ایسا ہی ہوتا، لیکن گوجرانوالہ آزادی مارچ کا قبرستان ثابت ہوا اور ہمارے محترم علامہ فاروق عالم انصاری کا سر شرم سے جھک گیا کہ اہلِ گوجرانوالہ نے عمران خان کو مایوس کردیا۔ ویسے گوجرانوالہ عجیب شہر ہے ، نواز شریف کا لانگ مارچ بھی یہی ختم ہوا تھا، عمران خان کا لانگ مارچ بھی یہیں ختم ہوگیا، اسے بغیر وجہ کے ایشیا کا گندا ترین شہر نہیں کہا جاتا!
آصف علی زرداری کی سیاست پنجاب میں نواز شریف کے توڑ کی تلاش پر مشتمل ہے، ان کی خواہش ہے کہ پنجاب کے لیڈر کو کسی پنجابی سے ہی گرالیا جائے اور بلاول بھٹو کو یہ کشٹ نہ کاٹنا پڑے اور اگر ایسا کرنا بھی پڑے تو میدان ٹوئٹر کی سکرین پر ہی سجے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے ،عمران خان کا اپنے مداحین پر کم اور نواز شریف کے مخالفین پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے!
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
ناامیدی اس کی دیکھا چاہئے
دیکھا جائے تو عمران خان 15اگست سے اسلام آباد کے ڈی چوک کو تحریر اسکوائر بنانے میں جتے ہوئے ہیں۔ وہ یہ کوشش اس وقت کر رہے ہیں جب خود تحریر اسکوائر ڈی چوک بن چکا ہے، ویسے یہ حیرت کی بات ہے کہ تحریر اسکوائر میں لوگ ایک آمر کے خلاف اکٹھے ہوئے تھے، جبکہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں ایک ایسے سیاستدان کے خلاف لشکر کشی کی جارہی ہے جو بدنام ہی آمروں کو للکارنے پر ہوا ہے اور اقتدار کے ایوانوں سے دھتکارا گیا ہے!
ویسے گزشتہ رات سے پی ٹی آئی کے اکابرین بشمول اسد عمر اور میاں محمود الرشید ٹی وی ٹاک شوز میں نظر آنا شروع ہو گئے ہیں، جس کا ایک مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت کا دھرنے پر انحصار وہ نہیں رہا ،جو 15اگست کو تھا۔ ادھر ٹی وی چینل بھی دھرنے سے نکل کر کام کی چیزیں دکھانے لگے ہیں، اس صورت حال میں عمران خان کا ڈوبنا اتنا غیر متوقع نہیں رہا، جتنا اس کا ابھرنا ہے!
اس کے باوجود یہ سوال اہم ہے کہ اب کیا ہو گا؟ کیا یہ ممکن ہے کہ عمران خان خود گانا شروع کر دےں اور جاوید ہاشمی ناچ پیش کریں، کیونکہ اب اس روز کے جشن میں ایک ہی طرح کے معاملات دیکھ دیکھ کر اکتاہٹ ہونا شروع ہو گئی ہے، بات کچھ آگے بڑھنی چاہئے، اس اہم سنجیدہ قومی دھرنے میں مزید سنجیدگی کا مظاہرہ ہونا چاہئے !
اے تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل
زنہار گر تمہیں ہوسِ ناﺅ نوش ہے
دیکھو مجھے جو دیدئہ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوشِ” حقیقت“ نیوش ہے