سیاست میں فراست کی ضرورت

سیاست میں فراست کی ضرورت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پارلیمنٹ اور سیاست کے سمتِ سفر کی درستگی کے لئے لازم آیا کہ سیاست دان اب فراست بلکہ سخاوت کا یارارکھتے ہوں۔ہمارے ہاں مدت مدید سے سیاست ایک کربناک تشنج اور پارلیمنٹ ایک اذیت ناک تشتت میں مبتلا رہی۔سبب یہی کہ کچھ سیاست دانوں کے دیدہ کم اندیش کی درماندگیاں ڈیرے ڈالے رہیں۔پارلیمان کی بالا دستی سیاست دانوں پر عائد ایک فریضہ ہے جسے انجام دینا چاہئے ،ایک بوجھ ہے ایسا جسے اٹھانا چاہئے ۔کانٹوں پرچلے بغیر یہ بوجھ اٹھا یا نہیں جا سکتااور گھپ اندھیری رات کا سینہ چیرے بغیر یہ فرض ادا ہو نہیں سکتا۔کبھی کبھی ایسا بھی ہوتاہے کچھ لوگ پھولوں کی سیج پر لوٹتے ہیں پر سرور نہیں پاتے۔کہیں کہیں ایسا بھی ہوا کہ بعض مضطرب نفوس کانٹوں پر دوڑتے ہیں اور اس کی چبھن میں راحت کی لذت پانے لگتے ہیں۔


مولانا مودودی نے سر سید کو ایک ایسے انجینئرسے تعبیرکیا تھاجن کی ایجاد کر دہ موٹرکار آگے چلنے کی بجائے پیچھے کی طرف دوڑتی ہو۔میثا ق جمہوریت کے تخلیق کاروں اور ذمہ داروں کو کس سے تشبیہ دیجئے؟یہ تو خیر نہیں ہوا کہ میثاق جمہوریت کی گاڑی گردش محوری کے لایعنی سفر میں مبتلا ہو۔گاہ گاہ البتہ جتنا دھکا اسے لگایا گیا،یہ کمبخت آگے جانے کی بجائے اس سے زیادہ طاقت کے ساتھ پیچھے پلٹ آئی۔پہلے ذوالفقار علی بھٹو اور پھر نواز شریف نے اپنے تئیں حتی المقدور سعی بلیغ کی کہ سیاست کامست خرام قافلہ اپنی درست راہوں پر چل نکلے۔عملی دشواریاں ،سامریوں اور ساحروں کا غیظ و غضب ،انحراف کی روایت اور قدامت اورمنفی پروپیگنڈادونوں کے راستے میں دیوار چین بنا کھڑا رہا۔بشری لغزشوں نجی التباسوں اورسیاسی حکمت عملی میں تسامحات اور مفادات سے بھی انکار ممکن نہیں۔پھر اس سے بڑھ کر فارق العقل بیانات ،اساطیری تاویلات، رنجشیں اور رقابتیں بھی صحت مند سیاست کا راستہ روکے بیٹھی رہیں۔


ایک ایسے پُر آشوب عہد میں جہاں سیاسی کھیل میں گالی اور گولی ملتی ہو۔۔۔جہاں چہار سو سیاست کے خلاف الزام و دشنام کی آندھیاں چلتی ہوں۔۔۔نفرت وغضب کی چڑھی ہوئی کمانیں مینہ جائے یا آندھی آئے دن رات کسی رہتی ہوں۔۔۔وہاں پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ کے لئے بھی کسی نئی سیاسی صبح کا ڈول ڈالناسہل کہاں۔پھر دل مچل اور دماغ مشتعل ہو ہی جاتا ہے کہ اگررابطہ مسلسل اور مستقل نہ ہو توچار سال بعد بھائی بھی فون نہیں اٹھا تا۔نواز شریف اور آصف زرداری دونوں انقلاب کے دعوے دار نہیں،تدریجی ارتقا کے پرستارٹھہرے ۔پھر تو دونوں کو فکری صلابت ،ملوکانہ فراست اور جہانگیری سخاوت ایسے اوصاف سے آشنا ہونا چاہئے۔ہیں بھائی ہیں۔۔۔مگر مولانا فضل الرحمان کی مانند کہ معاملہ نجی ہو توسودے بازی میں یکتا و تنہا۔مسئلہ ملکی مفاد یا طویل المیعاد وقار کاآن پڑے توپھر مزاج برہم،موسم گرم،راتیں ویران اور راستے کیچڑاور پتھر سے اٹے ہوئے۔باالفاظ دیگر کہ حضور نہ آنا چاہیں توبہانے پھر ہزار۔دیوانے تجھ پر نثارکہ جمہوری دوشیزہ تونے بھی عجب قسمت پائی۔تیرے مدعی،راعی اور والی تجھ سے غضب کا پیار رکھتے ہیں۔۔۔تجھ پر مرتے ہیں اورتجھے ہی مار رکھتے ہیں۔
پاکستانی سیاست پر اول روز سے ہی نا آسودگی کا سایہ گہرا رہا۔سوچا چاہئے کہ یہاں نئی زمیں یا کوئی نیا آسماں کیوں بن نہ سکا۔گو نواز شریف نے اپنے تجربے ،مشاہدے اور نظریے سے جِلا پا کر سیاست میں درست طرز کاادراک کیا ہے۔۔۔آصف زرداری کے زخم مگراس سے کب ،کیوں اور کیسے بھرتے ہیں؟عباس شریف کے انتقال پر جب زرداری صاحب تعزیت کے لئے جاتی امرا آیا چاہتے تھے،تب میاں صاحب نے ملنے سے کیوں انکار کیا تھا؟تسلیم و تائید زرداری حکومت کو میاں صاحب نے غیر مشروط حمایت عنایت کی۔میمو گیٹ اور گیلانی کی رخصتی پر انہوں نے مگرمتداول اور مروج سیاست کیوں کی؟مفاہمت کی سیاست کے نقیب کو بھی مت بھولناچاہئے کہ کل 62,63پر سیاست مسلم لیگ نے کی تھی تو آج پی پی خود کرنے چلی ہے۔پھر دونوں میں امتیاز کیا ہے؟دونوں میں کون ہے جو سر اٹھا اور سینہ پھیلا کر اپنی برتری کااظہارکرے؟ کون ہے جو فراست یا سخاوت کا ثبوت پیش کرے؟کوئی اٹھے اور چیخ کر کہے اللہ کے بندو سورج سو ا نیزے پر نکل آیا اور تم ابھی پڑے سوتے ہو۔اٹھو!آنکھیں کھول کر فلک دیکھو ،فضا دیکھو۔بے نظیر بھٹو کو این آر او سائن کئے،کتنے ماہ وسال بیت گئے لیکن میاں صاحب کے زخم ابھی تازہ ہیں۔ماضی کا ماتم کرنے کی بجائے حال سے مستقبل کا راستہ تراش کر میاں صاحب اب فراست کی شہادت دیجئے۔آپ کی عالی مقامی یہی تقاضا کرے ہے اور بس ۔

نواز شریف اکثر کہا کئے کہ وزارت عظمیٰ پھولوں کی سیج نہیں۔جی ہاں کانٹوں کا بستر ہے اور راستہ بھی کانٹوں سے اٹا ہوا۔کانٹے تو پھر کانٹے ہیں کبھی دامن سے الجھیں گے اور کبھی پاؤں میں چبھیں گے۔مقصد اور منزل کی خلش جو قلب میں پیوست ہے اس کی بھی کس کو خبر!سیاسی زندگی تو بغیر کسی مقصد کے بسر ہوتی بھی نہیں۔ یہ ایسا اٹکاؤ رہا کہ اس کے ساتھ کوئی اور لگاؤ ہوسکتا نہیں۔سیاسی زندگانی تو کوئی بندھن مانگتی یا بہانہ چاہتی ہے۔ایک پھیکی اور پھسپھسی حیاتی آخر کس کام کی؟ایک خنک اور ناآشنائے شورش مقصد سے اب نواز شریف کی پیاس بجھ سکتی نہیں۔’’انہونی‘‘ نااہلی کے بعد تو انہیں کوئی مقصد یا منزل چاہئے جو اضطراب کی آگ سے دہک رہی ہو۔انہیں اب ایک ایسا ہدف چاہئے جو ان کے ا ندر شورش و تلاطم کا تہلکہ مچا ڈالے ۔اب ایسے بلائے جاں مقصد کے لئے انہیں دیوانہ وار کانٹوں پر دوڑناپڑے گا۔ایک ایسا مقصد یا ہدف جو نزدیک بھی دکھائی دے اور نگاہوں سے دور بھی ہوتا رہے۔نزدیک اتنا اور ایسا کہ چاہیں توہاتھ بڑھا کر پکڑ لیں۔۔۔دور اتنا کہ اس کی گردِ راہ کا سراغ بھی پا نہ سکیں۔

مزید :

کالم -