طاہرانِ گُم آشیاں
شیریں مزاری کے ارشادات عمران حکومت میں اختلافِ رائے کا ایک نامناسب اظہار ہیں۔ موصوفہ کو اگر ہمارے ہنر مند وزیر خارجہ کے طرزِ تخاطب اور اندازِ فکر سے ایسا ہی اختلاف ہے، وہ اسے وطن عزیز کے مفادات کے برعکس سمجھتی ہیں تو انہیں یہ رائے پارٹی کے کسی اجلاس یا کابینہ کی کسی نشست میں پیش کرنا چاہئے تھی اور اگر معاملہ بہت ہی بنیادی نوعیت کا تھا تو خود وزیراعظم سے وقت لے کر ان کے گوش گذار کرتیں۔ تاہم موصوفہ نے اس کے لئے عوامی منظر کو ہی ترجیح دی۔اپنی جماعت کے وزیر خارجہ کے خلاف اُن کی گفتگو پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف کے دورہئ سعودی عرب سے چند روز قبل ہی سامنے آئی۔اب اس صورتِ حال کی مختلف تاویلیں جاری ہیں اور جاری رہیں گی۔اِس دوران آرمی چیف کا دورہ سعودی عرب کامیابی سے انجام پذیر ہو چکا۔ موصوفہ نے جس ویژن کی بات کی ہے اس کے بارے میں عوم مکمل طور پر لاعلم ہیں،کیونکہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے وزیراعظم نے عوام کو اپنے وژن سے آگاہ نہیں کیا۔
البتہ شیریں مزاری اس سے خوب واقف ہیں اور حالات کیِ ستم ظریفی یہ ہے کہ خود وزیراعظم کے منتخب کردہ وزیر خارجہ بھی اس وژن سے آگاہ نہیں ہیں۔یہ بات شاید وزارتِ خارجہ کے افسران کے علم میں بھی نہ ہو گی کہ انہوں نے وہ کون سی غلطیاں کر دی ہیں جن کے حوالے سے ایک وفاقی وزیر کو دفتر خارجہ کے خلاف بات کرنا پڑی، نہ صرف بات ہی کی بلکہ وزارتِ خارجہ کو وزیراعظم کے وژن کو مسخ کرنے کا ذمہ دار بھی قرار دیا۔ موصوفہ وزیر انسانی حقوق ہیں اور گذشتہ دو برس کے دوران ان کی وزارت نے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں اُن کے بارے میں قوم کو ابھی تک کچھ نہیں بتایا۔پاکستان کے دیہی علاقوں میں خاص طور پر جنوبی پنجاب اور سندھ کے جاگیردارانہ حاکمیت کے علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عام ہیں۔پنجاب پولیس کے علاوہ تحقیقاتی ادارے بھی اِس حوالے سے خاصے خبروں میں رہتے ہیں،جبری گمشدگیوں کا معاملہ اپنی جگہ ایک سیاسی مسئلہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے،لیکن موصوفہ اس حوالے سے کوئی اہم بات کرنے سے ہمیشہ قاصر رہی ہیں۔
خارجہ تعلقات کے حوالے سے بحث اُس وقت شروع ہوئی جب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سعودی عرب کے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے رویئے پر بات کی،جو یقینا جذباتی تو تھی،لیکن معروضی حقائق کے منافی نہ تھی۔ اِس وقت عالم اسلام میں تیزی کے ساتھ نئی گروہ بندیاں سر اٹھا رہی ہیں۔ ایک طرف اسرائیل نواز عرب حکومتیں ہیں اور دوسری طرف ایران اور ترکی، جو اسرائیل مخالف رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے عہد ِ اقتدار کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ کسی حکومت نے اسرائیل کے بارے میں ایک واضح موقف اختیار کرنے سے گریز کیا ہے۔ پاکستان اگر دو ریاستی پالیسی کی حمایت کرتاہے تو دراصل یہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف پہلا قدم ہے۔ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان غیر اعلانیہ تعلقات تو جنرل ضیا الحق کے دورِ اقتدار میں افغانستان کے اندر مجاہدین کے لئے اسلحہ کی سپلائی کے دوران قائم تھے۔ جب عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے روس کے سٹنگر میزائل بھاری تعداد میں قبضے میں لئے تھے اور پھر یہی میزائل افغانستان کے اندر روس کے خلاف استعمال ہوئے۔ پاکستان کے لئے سوچنے کی بات یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر عرب حمایت کے کمزور ہونے کے بعد عرب ممالک او بھارت کے درمیان فوجی اور تجارتی تعلقات بڑھ رہے ہیں۔ترکی اور شام کے تعلقات میں تناؤ ہے، لیکن ترکی روس کے ساتھ تعلقات قائم رکھتا ہے، جس سے علاقے میں امریکہ کے اثرو نفوذ میں اضافہ ممکن نہیں۔
مشرقِ وسطیٰ اور خلیج کے ممالک کے حوالے سے چین نے اپنی پالیسی واضح کر دی ہے۔ ایران کے ساتھ ایک خطیر رقم کا معاہدہ، چاہ بہار بندرگاہ سے بھارت کے معاہدہ کا خاتمہ اور چین کی آمد۔ اسرائیل مخالف اتحاد کو مزید مضبوط کرے گی۔ اس طرح چین، روس، ایران، شام اور ترکی کے مابین تیل کے ان ذخیروں پر امریکی گرفت کمزور پڑ سکتی ہے۔ خود امریکہ بھی ااب اپنی معاشی حالت کے پیش ِ نظر دُنیا میں کم سے کم عسکری کردار ادا کرنے کی طرف مائل ہے۔ شام سے اس نے اپنی فوجیں نکال لی ہیں، افغانستان سے نکلنے کے لئے تیار ہے۔ امریکی سرمایہ دار کے دماغ میں یہ بات آ چکی ہے کہ اب دُنیا میں جنگوں کے ذریعے معاشی مفادات حاصل کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ اب عسکری اتحادوں کی بجائے معاشی اتحاد بنانا زیادہ فائدہ مند ہو گا۔یہی سبب ہے کہ اب امریکہ ”ناٹو“ جیسے دفاعی معاہدوں پر بھی سرمایہ ضائع کرنے سے اجتناب کر رہا ہے،لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے، معاشی اتحاد کو بھی طاقت کی پشت پناہی کی ضرورت ہے۔
اِس لئے اسے سمندری طاقت میں اضافہ کرنا پڑ رہا ہے۔ سعودی عرب،امریکہ، بھارت اور خلیجی ممالک شاید ایسے ہی کسی عسکری تعاون کی طرف بڑھ رہے ہیں،لیکن مقامِ افسوس یہ ہے کہ اس سارے منظر نامے میں پاکستان کے عوام کے لئے کسی واضح معاشی منصوبہ بندی کا سراغ نہیں ملتا۔ جوں جوں سنہرے خواب بیچنے کا کاروبار شروع ہوا ہے، ملک میں مہنگائی، بیروزگاری، بیماری اور سیاسی خلفشار بڑھتا جا رہا ہے۔صنعت کا پہیہ جام ہے، زرعی پیداوار میں بڑے بڑے سکینڈل سامنے آ رہے ہیں۔چینی اور آٹا جیسی وافر ملکی پیداوار بھی درآمد کی طرف بڑھ گئی ہے، جس سے عوام کی روز بروز کم ہوتی ہوئی قوتِ خرید میں مزید کمی واقع ہو چکی ہے۔ بیان کردہ علاقائی منظر ناموں میں حکمران تو نظر آ رہے ہیں۔ عوام دکھائی نہیں دیتے۔وہ ایسے طائروں کی طرح بھٹک رہے ہیں،جو اپنا آشیاں گم کر چکے ہوں۔غالب نے کہا تھا:
ع نوائے طاہرانِ آشیاں گُم کردہ آتی ہے