اے سی سی اے، سی ای آر بی،پی آئی سی جی کے زیر کانفرنس کا انعقاد
لاہور(پ ر)دی ایسوسی ایشن آف چارٹرڈ سرٹیفائیڈ اکاؤنٹنٹس(اے سی سی اے) اِن پاکستان، پاکستان بزنس کونسل کے سینٹر آف ایکسی لینس اِن ریسپانسبل بزنس (سی ای آر بی)اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کارپوریٹ گورننس (پی آئی سی جی)کے زیر اہتمام ایک اعلیٰ سطح کی گول میز کانفرنس منعقد ہوئی جس میں غیر سرکاری تنظیموں اور مختلف کاروباری اداروں کے علاوہ بین الاقوامی سرمایہ کاری کمیونٹی کے نمائندوں نے شرکت کی۔ منتظم اداروں کے ارکان کو درپیش اہم چیلنجوں کا حل تلاش کرنے کی غرض سے منعقد کی گئی اس کانفرنس میں ایک نئے ”پلان آف ایکشن“ پر غور کیا گیا۔اس موقع پر ایک پر جوش مباحثہ منعقد ہو ا جس میں ملک کے پالیسی سازوں کے لیے ایک خط کی تیاری پر غور کیا گیا جس میں ملک میں پلاسٹک اور کچرے میں کمی، کاربن کے اخراج میں کمی، زیادہ مثبت سماجی اثر پیدا کرنے اور کاروباری اداروں پر بطور رہنما اعتماد کرنے کے لیے باضابطہ ”پلان آف ایکشن“ پر غور کیا گیا۔اِس آن لائن کانفرنس کی خاص بات ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل، حماد نقی خان، اے سی سی اے کے ہیڈ آف سسٹین ایبلٹی، جمی گریئر، ایپی فینی (Epiphany) کی شریک بانی اور چیف ایگزیکٹو آفیسر، ثمر حسن، ٹنڈرا فونڈر اے بی کے وائس چیف انویسٹمنٹ آفیسر/پارٹنر، محمد شمعون طارق، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کارپوریٹ گورننس کے صدر اور چیف ایگزیکٹو آفیسر، احسن جمیل، پاکستان بزنسل کونسل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر، احسان ملک، نیسلے پاکستان کے ہیڈ آف کارپوریٹ افیئرز، وقار احمد، لیکسن انویسٹمنٹ لمٹید کے چیف ایگزیکٹو آفیسر، بابر لاکھانی اور انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن کی ایشیا ایس ایس جی ایڈوائزری لیڈ، کیٹ لزارس(جیسے ماحول اور استحکام کے ممتازوکیلوں اوررہنماتھے۔
جنہوں نے اپنی شرکت نے اس کانفرنس کو اور بھی اہم بنا دیا۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کارپوریٹ گورننس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر، احسن جمیل نے کہا:”ہم یہ حقیقت کو نہیں جھٹلا سکتے کہ اس موقع پر ایک ہنگامی ضرورت کا احساس پایا جا تا ہے۔ اب کمپنیاں زیادہ عرصے تک ’fake it till you make it‘کے طریقے پر نہیں چل سکتیں۔ لہٰذا ہمیں کسی نہ کسی طرح کاورپوریٹ گورننس کے معاملے میں ’carrot and stick‘کا انداز فکر اپنانا پڑے گا۔“
انہوں نے مزید کہا:”ہم مجبور ہیں کہ پاکستان کو درپیش موسمی تبدیلی، پانی کی قلت اور کاربن کے اخراج جیسے بڑے رجحانات کااثرقبول کریں۔اگر ہم پاکستان کو زیادہ سرسبز و شاداب، زیادہ شمولیتی اور زیادہ خوشحال بنانا چاہتے ہیں تو موجودہ رہنماؤں کو، جو اِس وقت ملک کی کشتی چلا رہے ہیں، لازماً، ماضی میں کیے گئے کاموں سے بالکل مختلف کام انجام دینا ہوں گے۔“
پاکستان بزنس کونسل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر، احسان ملک نے واضح کیا کہ کس طرح کووڈ19-سے پہلے ایک عمودی لرننگ کرو(steep learning curve) موجود تھا لیکن اِس بحران نے زیادہ آگاہی کی ضرورت کو تیز تر کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا:”ہم ایک ایسے مرحلہ پر ہیں جہاں ہمیں زیادہ تعاون، وضاحت اور تعمیل کی ضرورت ہے۔ بعض کمپنیاں خود اپنی صنعت میں استحکام کے لیے کام کر رہی ہیں لیکن کاروباری اداروں کو زیادہ رہنمائی اور تعلیم کی