ڈاکٹرائن کی شکست
تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ لوگ تاریخ سے کچھ نہیں سیکھتے۔طاقتور ہمیشہ طاقت سے دوسروں کو مطیع بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔عقل پر جب طاقت غالب آ جائے تو وحشت کا روپ دھار لیتی ہے انسان کو مگر طاقت کے غلط استعمال سے منع کیا گیا ہے۔عقل طاقت کو کنٹرول کرے تو انصاف جنم لیتا ہے اور امن قائم ہوتا ہے۔بش ڈاکٹرائن کیا تھا؟اس ڈاکٹرائن کو آج ہم آسانی سے بیان کر سکتے ہیں ”طاقت اندھی ہوتی ہے اور …… اندھی کھائی میں لے جاتی ہے“۔
دو دہائی پہلے امریکہ نے جب اس ڈاکٹرائن پر عمل شروع کیا تو طاقت کے نشے میں یہ سوچا بھی نہ تھا کہ وہ خود کشی کے سفر پر نکل پڑا ہے اور افغانستان ایک اور سپر پاور کی قبر کھود رہا ہے۔ ٹوئن ٹاور پر فضائی حملہ ایک ڈراؤنا خواب بن کر آیا۔ساری دنیا امریکہ کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔تما م اسلامی ممالک نے خوفزدہ ہوکر چپ کا روزہ رکھ لیا۔سب کے سب بے بس تھے اور آج خود امریکہ بے بسی کی تصویر بنا کھڑا ہے۔دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی،تمام وسائل اور دفاعی ساز وسامان کے انبار اور شکست کن کے ہاتھوں ہوئی جو گدھوں اور موٹر سائیکلوں پر لڑ رہے تھے۔
طاقت کا اظہار وقتی طور پر بڑی خوشی دیتا ہے لیکن اگر ظلم ڈھایا جائے تو بہت بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔طاقت اگر امن کے لئے استعمال ہو تو وہ معاشرے،قومیں اور راہنما ہیرو بن جاتے ہیں جس کے اثرات نسلوں تک منتقل ہوتے ہیں۔ نظریات تب تک اہمیت حاصل نہیں کرتے جب تک ان پر مکمل عمل نہ کیا جائے۔سپر پاور امریکہ سے یہی غلطی ہوئی۔مشہور سکالر کرس ہیجس نے بڑا عمدہ تجزیہ کیا ہے وہ لکھتا ہے ”امریکہ کو القاعدہ سے مسٗلہ تھا،افغانوں سے امریکہ کے وجود کو کوئی خطرہ نہیں تھا نہ ہی سیاسی ومعاشی طور پر اتنے اہم تھے کہ امریکہ کی سپر پاور کی حیثیت کو کوئی چیلنچ در پیش ہو سکتا تھا۔مٹھی بھر لوگوں کو ڈرون حملوں سے تباہ کیا جا سکتا تھا۔ افغانستان پر پابندیاں لگائی جا سکتی تھیں لیکن امریکہ نے براہ راست حملہ کر کے ان لوگوں کو پہلے سے کئی گنا مضبوط کر دیا اور آج وہ لوگ اقتدار میں آ رہے ہیں،امریکہ کے پاس اور کوئی راستہ نہیں۔وہ بے بسی کی تصویر بن کر یہ سارا منظر دیکھ رہا ہے۔
امریکی سپر پاور نے دو دہائیوں میں ایک ٹریلین ڈالرز افغانستان کے پہاڑوں پر ضائع کر دئیے۔ ساڑھے تین لاکھ افغان فوج جس کی تیاری کے لئے امریکی ماہر فوجی جرنیلوں نے دن رات ایک کر دئیے وہ ساٹھ ہزار طالبان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔کیا عجیب بات ہے جن طالبان کو امریکہ نیٹو اتحادی افواج کے ساتھ مل کر شکست نہ دے سکا ان کو شکست دینے کی اس نے افغانی فوجیوں سے امید لگالی ۔
امریکی ڈاکٹرائن نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر انسانی جانوں کابے دردی سے ضیاع کیا۔ عراق، افغانستان، پاکستان،شام اور یمن سمیت دنیا کے مختلف خطوں میں آٹھ لاکھ لوگ جان سے گئے، 37 ملین لوگ بے گھر ہوئے۔ امریکہ نے جو ڈالر جنگ کی بھٹی میں جھونک دئیے یہی ان پسماندہ ممالک کے عوام کی صحت و تعلیم پر خرچ کرتا تو آج دنیا پہلے سے زیادہ محفوظ، مہذب اور خوشحال دکھائی دیتی۔
مشہور معاشی ماہر مک کوئے لکھتا ہے ”ڈالر کا نقصان دنیا کی ریزرو کرنسی کے طور پر ہو گا۔امریکی ریاست معاشی نقصان کا بوجھ نہیں اٹھا پائے گی یہ نقصان امریکہ کو ایک مفلوج اور طویل ڈپریشن میں ڈال دے گا یہ عالمی سطح پر امریکہ کی فوجی طاقت کو سکڑنے پر مجبور کر دے گا۔ بگڑتی معیشت سلطنت کا چہرہ بدصورت کردے گی۔ تاریک معاشی منظر نامہ تباہی و ناامیدی کے ساتھ بڑے پیمانے پر لاقانونیت کو جنم دے گا جس سے امریکی عوام میں ڈپریشن پھیلے گا اور امریکہ تباہی کی طرف چل پڑے گا۔یہ تو کسی نے سوچا ہی نہ ہوگا کہ ہماری موت شائد ہمارے تصور سے کہیں زیادہ تیزی سے آئے گی۔جب آمدنی سکڑ جائے یا گر جائے تو پھر بڑی سلطنتیں اپنا دبدبہ کھو کر ٹوٹ جاتی ہیں۔“
طالبان کو اب سنبھلنا ہوگا۔ طالبان کا عام معافی کا اعلان قابل ستائش ہے۔ طالبان کو ایران، چین، پاکستان اور روس کے ساتھ ایک اچھے ہمسائے کے طور پر مضبوط تعلقات استوار کرنے چاہئیں اگر اس کی سرزمین سے کسی دوسرے ملک میں تخریب کاری ہوتی ہے تو دنیا پھر اس کے خلاف ہو جائے گی اور اس کی اپنی سلامتی کو بھی شدید خطرہ رہے گا۔بدامنی سے خود افغانستان کے لئے مزید تباہی ہو گی جس کا وہ متحمل نہیں ہو سکتا۔