بجلی مہنگی: عوام کا ایک اور امتحان
پچھلی حکومتوں کے دور میں عوام سے قربانی مانگی جاتی تھی‘ لیکن اس حکومت کے دور میں لگتا ہے عوام سے قربانی لی جا رہی ہے اور مسلسل لی جا رہی ہے۔ یوں عام آدمی کا امتحان ہے کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آرہا۔ ایک مسئلہ ابھی ختم نہیں ہوتا کہ ایک اور مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ایک حکومتی اقدام کے اثرات ابھی ختم نہیں ہوتے کہ ایک نیا ایسا فیصلہ یا اقدام کر دیا جاتا ہے‘ جس سے عوام مرغِ بسمل کی طرح تڑپنے لگتے ہیں۔ لوگ پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات ابھی ایڈجسٹ کر ہی رہے ہوتے ہیں کہ پتہ چلتا ہے آٹا مہنگا ہو گیا ہے اور ساتھ ہی نان اور روٹی بھی۔ عام بندہ نان اور روٹی کی نئی قیمت کے ساتھ ایڈجسٹ کر ہی رہا ہوتا ہے کہ خبر ملتی ہے گیس مہنگی کر دی گئی ہے اور نان اور روٹی کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا جا رہا ہے، کیونکہ آج کل تنوروں میں یہی ایندھن استعمال ہو رہا ہے۔ یوں عوام کی زندگی آج کل منیر نیازی کے اس شعر کی عملی تصویر بنی نظر آتی ہے:
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
مہنگائی کم کرنے اور معاملات کو ہینڈل کرنے کے سلسلے میں حکومت کی بے بسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے داخلہ و احتساب نے اپریل کے آغاز میں یعنی کم و بیش چار ماہ پہلے ایک پریس کانفرنس میں چینی کی قیمتوں میں اضافے کو ’سٹّے بازوں کی کارستانی‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ سٹّے باز مصنوعی طور پر چینی کی قیمت میں اضافہ کر تے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ایف آئی اے کی جانب سے ان سٹّے بازوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے اور ایسا ریکارڈ بھی برآمد کیا گیا ہے، جس کے ذریعے سٹّے بازوں کی جانب سے مصنوعی طور پر چینی کی قیمتوں میں اضافے کا انکشاف ہوا ہے۔ اس کے بعد ہوا کیا؟ کیا سٹّے باز‘ باز آ گئے؟ کیا حکومت نے ان کو کنٹرول کر لیا؟ سٹّے بازوں کے خلاف جو کارروائی کی گئی تھی، اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ سٹّے بازوں کے بارے میں جو ریکارڈ برآمد ہوا تھا،اس کے تحت پھر کتنی گرفتاریاں کی گئیں اور اس سے کتنا اصلاحِ احوال ممکن ہو سکا؟ عوام کو کتنا ریلیف مل سکا؟ کیا چینی کی قیمت میں کوئی استحکام نظر آتا ہے؟ کیا چینی مافیا کو کوئی لگام ڈالی جا سکی؟ کیا روزمرہ استعمال کی یہ شے عام مارکیٹ میں سرکاری نرخوں پر فروخت ہو رہی ہے؟ ان سوالوں کا اگرکوئی جواب ہوتا تو عوام بھی اس سے آگاہ ہوتے۔ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ حکومت کہاں کھڑی ہے اور عوام کہاں کھڑے ہیں اور کس حال میں۔
ابھی پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ہونے والے بار بار اضافے کے نتیجے میں بڑھنے والی مہنگائی کا رونا ختم نہیں ہوا کہ حکومت کا سبسڈی ریشنلائزیشن پروگرام شروع ہو گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس پروگرام کا مقصد یہ ہے کہ سبسڈی صرف ان کو ملے گی جو اس کے مستحق ہیں۔اللہ کرے کہ ایسا ہو، لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے عوام کو کیا ملے گا کہ بچائی گئی سبسڈی کا فائدہ تو حکومت کو ہو گا، کیونکہ ایسا نہیں ہے کہ حکومت امیروں سے سبسڈی بچا کے غریبوں پر خرچ کرنے والی ہے۔ اور ایک سوال کیا، حکومت کے متعدد دوسرے فیصلوں کی طرح یہ معاملہ بھی سوالوں سے پُر ہے۔ حال ہی میں حکومت نے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) سے کہا کہ وہ اپنے تین مرحلوں پر مشتمل سبسڈی ریشنلائزیشن پلان کے پہلے حصے کو فوری طور پر منظور کرے، جس میں چار نئے ٹیرف سلیب بنانے اور لائف لائن صارفین کی تعریف میں معمولی تبدیلی کرتے ہوئے اسے 100 یونٹ فی مہینہ تک کرنا شامل ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ معاملہ محض ایک بار سبسڈی ایڈجسٹ کرنے تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ اس کی مزید دو قسطیں بھی ہیں، جو شاید آئی ایم ایف کی جانب سے دباؤ بڑھائے جانے کے بعد سامنے لائی جائیں گی۔ اس پر مجھے وفاقی وزیر خزانہ کے وہ دعوے یاد آ رہے ہیں،جو انہوں نے سالِ رواں کا بجٹ پیش کرتے ہوئے کئے تھے۔ جون کے تیسرے ہفتے میں سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا تھا آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ بجلی و گیس ٹیرف میں اضافہ سمیت تمام اہداف فوراً حاصل کئے جائیں جس سے مہنگائی بڑھے گی۔ اس سے پہلے مئی کے اوائل میں وزیر خزانہ نے بجلی کی قیمت میں اضافے کا مطالبہ ناجائز قرار دیتے ہوئے آئی ایم ایف پروگرام پر نظر ثانی کا عندیہ دیا تھا۔ پھر ہوا کیا؟ کیا بجلی مہنگی کرنے کا سلسلہ بند کر دیا گیا؟ پھرایک اور سوال یہ ہے کہ اگر سبسڈی ریشنلائزیشن پروگرام کا اثر صارفین کی جیبوں پر نہیں پڑنے والا تو پھر چیئرمین نیپرا نے یہ کیوں کہا کہ دوسرے فیز میں لوگوں کی چیخیں نکلیں گی؟
دوسری بات یہ کہ حکومت نے لائف لائن صارفین کے لئے بجلی کے یونٹس کی جو حد مقرر کی ہے تو کوئی بتائے کہ آج سو یونٹ میں کیسے گزارہ کیا جا سکتا ہے؟پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ چھ ماہ تک مسلسل ایک ہی رینج میں بل آئیں؟ چنانچہ مقصد اس سارے پروگرام کا یہی لگتا ہے کہ عوام کو بجلی پر جو سبسڈی دی جا رہی ہے وہ بتدریج ختم کر کے، اس طرح بچنے والی رقم آئی ایم ایف کی جھولی میں ڈال دی جائے تاکہ وہاں سے اقتصادی پیکیجز کا سلسلہ چلتا رہے۔ ایک نا ممکن لائف لائن حد مقرر کر کے غریب صارفین کے ساتھ مذاق تو نہ کیا جائے۔ بجلی اگر آئی ایم ایف کے کہنے پر مہنگی ہونی ہے، عالمی اقتصادی اداروں کے کہنے پر معاشی اہداف طے ہونے ہیں تو پھر یہ عوام کے غم میں دبلا ہونے کا دعویٰ تو نہ کیا جائے۔ انہیں جھوٹی امیدیں تو نہ دلائی جائیں۔