نیا افغانستان اور عالمی برادری کا کردار
آج طالبان کو افغانستان میں مکمل کنڑول مل چکا ہے۔ وہاں اب سکیورٹی فورسز اور پولیس کے بجائے طالبان چلتے پھرتے دکھائی دے رہے ہیں۔سڑکوں پر دکھائی دینے والے طالبان کی عمریں 20سے 30سال کے درمیان معلوم ہوتی ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ طالبان کی نئی نسل ہے۔ وہ تصویریں کھینچواتے، اپنے اسلحے کی نمائش کرتے اور دھمکی آمیز انداز اختیار کیے بغیر اپنی موجودگی ہر جگہ ظاہر کرنے سے بخوبی واقف ہیں۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اب اپنی اگلی نسل افغانستان میں نہیں جھونک سکتا۔ افغانستان میں فوجی حل کے ذریعے مستقبل میں مضبوطی اور استحکام نہیں آ سکتا۔ اس لئے ہم نے اس طویل جنگ سے چھٹکارا حاصل کرلیا۔ دو دہائیوں تک لڑی جانے والی جنگ میں بھاری جانی نقصان ہوا۔اس کے ساتھ ساتھ اس جنگ میں اربوں ڈالرز بھی خرچ کئے گئے، لیکن طالبان کا بغیر لڑے افغانستان فتح کرنا قابل ِ تحسین ہے۔
جنوبی ایشیا کا منظر ایک بار پھر تبدیل ہوگیا ہے۔ اس بدلتی ہوئی صورت حال میں چین، روس اور پاکستان کا مرکزی کردار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ طالبان بھی نئے انداز میں نظر آ رہے ہیں۔ طالبان نے پورے افغانستان میں عام معافی کا اعلان کرکے اچھا اقدام کیا ہے۔ اس سے امریکہ اور مغربی ممالک کا یہ پروپیگنڈا دم توڑ گیا ہے کہ طالبان امن کے دشمن ہیں۔
امریکہ کے سابق صدر جارج ڈبلیو بش کا افغان جنگ شروع کرنے کا فیصلہ سرے سے ہی غلط تھا۔ اس طویل اور پرتشدد جنگ نے امریکہ کی خود اعتمادی کو بری طرح مجروح کیا،جو بائیڈن سے پہلے باراک اوبامہ نے کئی بار افغانستان سے واپسی کا اعلان کیا، اب امریکہ جنگ ہار چکا ہے اور صدر جوبائیڈن نے عملی طور پر اعلان کر دیاتوامریکہ کا اسے کسی بھی طور پر فتح قرار دینا مشکل امر ہے۔
افغانستان میں فلاحی کاموں کی آڑ میں بھارت نے جو ڈرامہ رچا رکھا تھا، اسے منہ کی کھانی پڑی ہے۔ امریکہ کے بعد بھارت کو بھی شکست ہوئی۔ بھارت نے افغان سرزمین پر پاکستان کے خلاف جو سازشیں رچا رکھی تھیں، سب کی سب ناکام ہوئیں۔بھارت کو بھی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے اربوں ڈالر ڈوب گئے۔افغانستان میں امریکہ کی دو دہائیوں تک موجودگی کے باعث بھارت سمیت کئی ممالک اور گروہوں نے افغان سرزمین کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ امریکہ کے جانے کے بعد یہ تمام عناصر افغانستان میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔ بھارت افغانستان سے اپنا بوریا بستر سمیٹ کر بھاگ نکلا ہے۔افغانستان میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات بھارت کے لئے بہت سے چیلنجوں سے بھرپور نظر آتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ طالبان کی حکمرانی کو باقاعدہ اور سرکاری سطح پر تسلیم کرے گا یا نہیں۔ جبکہ مغربی دنیا کو طالبان کی کامیابی ناگوار گزر رہی ہے، لیکن طالبان نے ثابت کردیا ہے اگر ایمان پختہ ہو تو اللہ تعالیٰ خود فتح نصیب کرتا ہے۔پاکستان نے بھی افغانستان کے حوالے سے اچھا کردار ادا کیا۔ دوحہ قطر مذاکرات میں پاکستان کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اس میں روس اور چین کا کردار بھی بے مثال ہے۔ امریکہ نے افغانستان میں سیاسی تصفیے کے لئے پاکستان اور چین سے مدد مانگی ہے۔بیس سال کی طویل جنگ میں ناکامی کے بعد امریکہ اور نیٹو ملکوں کی افواج کی تقریباً مکمل واپسی عمل میں آ چکی ہے۔ اور اب ملک کے مستقبل کے نظام کے لئے افغان گروپوں کے درمیان بات چیت کا عمل شروع ہو رہا ہے۔
طالبان ماضی کے مقابلے میں اس بار محتاط اور ذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔انہوں نے قتل و غارت، خونریزی سے گریز اور نئی حکومت میں تمام جماعتوں کو شامل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ افغان اقدار اور شریعت کا تحفظ کرتے ہوئے مکمل مذہبی آزادی، آزاد میڈیا اور خواتین کے حقوق کی یقین دہانی کروائی ہے اور کہا ہے کہ افغان سرزمین دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں کی جائے گی۔ افغان طالبان کے رہنما خلیل الرحمان حقانی نے افغانستان میں جامع حکومت کے قیام کے سلسلہ میں عالمی تشویش کو بھی دور کیا اور کہا کہ امارت اسلامی افغانستان تمام سیاسی گروپوں اور مقامی برادریوں کی نمائندہ حکومت ہو گی۔افغان شہری ملک سے نہ جائیں اور جو لوگ پہلے ہی جا چکے ہیں وہ واپس آئیں، افغانستان میں کسی پر کوئی جبر نہیں ہوگا، اب افغانستان میں کوئی خون خرابہ نہیں ہو گا۔ہم دنیا کے سامنے اسلامی امارت افغانستان کی عملی صورت پیش کریں گے اور سب سے پہلے ہم اپنے آپ پر شرعی قوانین نافذ کریں گے اور پھران قوانین کا عوام پر نفاذ کریں گے۔
کابل پر طالبان کے قبضہ کے بعد دنیا کو تشویش ہوئی کہ افغانوں میں نئی حکومت میں اقتدار کے حصہ کے لئے لڑائی شروع ہو جائے گی۔خلیل الرحمان حقانی نے یقین دلایا کہ دنیا کو اس حوالہ سے زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہئے۔ جب ہم کابل آئے تو ہم نے سابق افغان صدر حامد کرزئی اور افغانستان کے سابق چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے ساتھ ملاقات کی۔یہ دونوں خوفزدہ تھے اور ملک چھوڑنا چاہتے تھے، مگر ہم نے یقین دلایا کہ ان کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں ہوگی۔ خوف و ہراس اور افراتفری امارات اسلامی افغانستان کا بیانیہ نہیں۔ خلیل الرحمان حقانی نے سابق صدر اشرف غنی، ان کے مشیروں اور افغان مسلح افواج کے سربراہوں کو عام معافی دینے کا اعلان بھی کیا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان کس طرز پر حکومت بناتے ہیں اور کون سے قوانین لاگو کر کے شہریوں کو احساس تحفظ دیتے ہیں۔ ان سب کا عالمی برداری کو شدت سے انتظار ہے۔