درود پاک مداوا ہے غم زدوں کے لئے
لڑکی دروازے پر کھڑی سب معاملہ دیکھ رہی تھی اور دل میں سوچ رہی تھی کہ اتنی مشہور و معروف خوبصورت ہستی کتنی بے چینی کے ساتھ کنویں کے اِردگرد چکر لگا رہی ہے اور بڑے ہی اِضطراب کے ساتھ کنویں کے اندر جھا نک رہی ہے۔ بے تابی اور بے چینی میں چکر لگانے والے شخص کا نام محمد بن سلیمان الجزولی ؒتھا۔ الجزولیؒ انہیں اس لیے کہا جاتا تھا کہ افریقہ کے ایک قبیلے جزولہ کے امیر لوگوں میں شمار کیے جاتے تھے، مراکش میں پیدا ہوئے اور حضرت امام حسین ؓ کی اولاد سے تھے۔ امام محمد الجزولی ؒبربراور پورے افریقہ میں مشہور تھے۔آپؒ نے چودہ سال کے لیے گوشہ نشینی اختیار کی اور زیادہ وقت تلاوتِ قرآن، ذکرواذکار، نمازوں کی پاپندی، موت کو یاد کرنے اور نفس کے محاسبے میں گزارتے تھے۔ موت کو اس قدر یادکرتے کہ زمانہ طالب علمی میں اپنے کمرے میں کسی کو داخل نہ ہونے دیتے۔ لوگوں نے اس بارے میں بدگمانی کی اور آپؒ کے والد سے اس بارے میں شکایت کی، جب آپ ؒ کے والد کمرے میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ہر دیوار پر الموت، الموت لکھا ہوا تھا۔ انھوں نے پوری زندگی محاسبہ نفس، ذکرواذکار اور علوم کے سیکھنے میں گزاری اور وقت کے ساتھ ساتھ آپؒ کے مریدین میں بھی دن بدن اضافہ ہوتا چلا گیا۔ آج بھی ان کا مزارِ اقدس مراکش میں موجود ہے۔ ایک بار آپ ؒ اپنے مریدین کے ساتھ شہر فاس کے ایک گاؤں میں سے گزر رہے تھے اور نماز ظہر کا وقت اخیر تھا مگر کہیں بھی پانی نظر نہیں آ رہا تھا۔ آپؒ نے ایک کنواں دیکھا اور نہایت ہی پریشانی کی حالت میں اُس کنویں کے اِردگرد چکر لگانے لگے پانی کافی نیچے تھا۔
جب پاس ہی ایک مکان سے لڑکی نے دیکھا جس کی عمر تقریباََ آٹھ یا نوسال تھی۔ وہ لڑکی آپؒ کے پاس آئی اور پوچھا اے شیخ! تمہاری پریشانی کا سبب کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ظہر کا وقت تنگ ہوچکا ہے اور پانی دستیاب نہیں۔ لڑکی نے بڑی حیرت سے کہا آپؒ اتنی مشہورومعروف ہستی ہیں اور ایک معمولی سا کام بھی نہیں کر سکے۔ یہ کہہ کر لڑکی نے کچھ پڑھ کر کنویں میں تھوک دیا اور تھوکتے ہی کنواں جوش مارنے لگا اور پانی باہر بہنا شروع ہوگیا۔ آپؒ کے ساتھ مل کر سب لوگوں نے نماز پڑھی اور اُس کے فوراََ بعد لڑکی کے گھر کی طرف چل دیے۔ دروازے پر دستک دی اور وہی لڑکی باہر آئی تو امام محمد الجزولیؒ نے کہا تمہیں خدا کی قسم!جس نے تمہیں پیدا کیا اور سیدھا راستہ دکھایا، میں تم کو خدا اور حضرت محمدﷺ کا واسطہ دیتا ہوں مجھے بتاؤ کہ تمہیں یہ مقام و مرتبہ کیسے ملا؟ لڑکی نے جواب دیا کہ اگر آپ اتنا بڑا واسطہ اور قسم نہ دیتے تو میں ہرگز نہ بتاتی۔ دراصل مجھے یہ مرتبہ ومقام درود پاک پڑھنے سے حاصل ہوا ہے۔درود پاک ہی میرا وظیفہ زندگی ہے۔آپؒ نے لڑکی کا بتایا ہو ا دردرود زندگی بھر پڑھنے کو اپنا معمول بنا لیا اور ارادہ کیا کہ میں بھی مختلف درودوں کو جمع کر کے ایک کتاب شائع کروں گا جس میں لڑکی کا بتایا ہو ا درود پاک بھی شامل ہو گا۔ یہ سارا واقعہ آپؒ کی اُسی کتاب”دلائل الخیرات“ کے آغاز میں ہی درج ہے جو پوری دنیا میں بڑے ہی شوق و ذوق کے ساتھ پڑھی جاتی ہے۔ درود پاک مومنوں کے قلوب کے لیے روشنی ہے، صحرا کی سخت دھوپ میں گھنی چھاؤں اورگرمیوں کے مو سم کی سخت دھوپ میں ایک پیاسے کے لیے ٹھنڈے پانی کی مانند ہے۔
سنن نسائی کی حدیث نمبر 1296 اور نمبر 1284 کے مطابق ”ایک دن اللہ کے محبوبﷺ تشریف لائے جب کہ آپﷺ کے چہرہ انور سے انوار و تجلیات کی بارش ہو رہی تھی۔ صحابہ کرام ؓ نے عر ض کیا: یا رسول اللہ ؐ آپ کا چہرہ اقدس خوشی سے تمتمارہا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس ایک فرشتہ آیا اور اُس نے کہا: ”اے محمدﷺ! تحقیق آپﷺ کا رب فرماتا ہے ”کیا آپﷺ کو یہ بات پسند نہیں کہ جو شخص بھی آپ ﷺ پر درودپڑھے گا، میں اُس پر دس دفعہ رحمت کروں گا؟ اور جو بھی آپﷺ پر سلام کہے گا، میں اس پر دس بار سلام نازل کروں گا“۔ ڈاکٹرعلامہ محمد اقبالؒ سے کسی شخص نے پوچھا کہ حضرت! آپؒ کو علامہ کیوں کہا جاتا ہے؟آپ کو حکیم الامت کا خطاب کیسے ملا؟ آپؒ کے کلام میں دل و دماغ اور روح کو روشن کرنے کی تا ثیر کیسے پیدا ہو ئی؟ علامہ محمد اقبالؒ نے جواب دیا کہ یہ سب کچھ مجھے بارگاہِ رسالت ﷺ سے عطا ہواہے۔ مجھے اللہ پا ک نے آپﷺ پر ایک کروڑ مرتبہ درود پاک پیش کرنے کی تو فیق عنایت فر مائی، تب کہیں جا کر مجھے یہ مرتبہ و مقام ملا۔ امام شافعیؒ فرمایا کرتے تھے کہ "میں اس بات کو محبوب رکھتا ہوں کہ انسان ہر حال میں درود پاک کی کثرت کرے"۔
اسی طرح شیخ عبدالقادر جیلانی ؒکا قول گرامی ہے کہ"تم درودپاک اور مساجدکو اپنے اوپر لازم کرلو"۔ عشق رسولﷺ کی پہلی سیڑھی ہی کثرت سے درود کو وظیفہ زندگی بنانا ہے۔ ہر ولی، قطب،غوث اور ابدال کا ہمیشہ یہی وظیفہ رہا ہے، حضرت امام غزالیؒ ہوں یا امام جلال الدین السیوطی ؒ، پھر شیخ محمد چشتی ہوں یا حضرت شاہ ولی اللہؒ کے والد ماجد حضرت شاہ عبدالرحیمؒ، جس کا بھی نام اسلامی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا دیکھیں گے تو پتہ چلے گا کہ درود پاک کی کثرت ہی اُن کی زندگی کی کامیابی کا راز تھا۔آج ہم پستی اور زوال کا شکار کیوں ہیں؟آخر ہم بحیثیت مسلم اس مقدس اور عظیم عبادت سے کیوں محروم ہیں؟جس عبادت کی وجہ سے ملت اسلامیہ کو مقام و مرتبہ اور بلندیاں عطا ہوئیں، آئیے ہم درود پاک کو وظیفہ زندگی بنائیں۔۔!