محمد نصیر الحق ہاشمی

محمد نصیر الحق ہاشمی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کشمیر کی جدوجہد ِآزادی کے ہیرو اور معروف حریت رہنما سید علی گیلانی مرحوم آج ہم میں نہیں لیکن ان کے یہ الفاظ آج بھی ہمارے کانوں میں رس گھول رہے ہیں کہ " ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے۔" جن نامساعد حالات میں سید علی گیلانی مرحوم (اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور انہیں کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین ثم آمین) نے یہ الفاظ کہے تھے۔ ان کے ان تاریخی الفاظ نے جدوجہدِ آزادی کی تحریک میں ایک ایسی روح پھونک دی تھی کہ جس نے بھارتی حکمرانوں کے نیندیں حرام کر دی تھیں اور بھارت سید علی گیلانی مرحوم سے اس قدر خوفزدہ ہو گیا تھا کہ ان کی وفات کے بعد ان کے جسد خاکی نے بھارتی حکمرانوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں، تبھی تو بھارتی سورماو_¿ں نے انہیں آناً فاناً دفن کر دیا ، لیکن بھارت کشمیریوں پر بدترین ریاستی دہشت گردی اور ہر قسم کے جائز و ناجائز ہتھیار استعمال کرنے اور نہتے کشمیریوں پر بدترین مظالم ڈھانے کے باوجود بھی کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کو رتی بھر بھی کم نہ سکا۔ یہی وجہ ہے گزشتہ سال آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم سردار تنویر الیاس خان نے 19 جولائی کو راولاکوٹ میں" ہم ہیںپاکستان " کا نعرہ مستانہ بلند کیا تو اس وقت بھی کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد ان نامساعد حالات میں اکٹھی ہو گئی جب سردار تنویر الیاس خان حکومتی جبر کا شکار تھے، ایسے مشکل حالات میں تو اپنے سگے بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ صحیح ہو گا کہ انسان کا اپنا سایہ بھی اس کا ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

دھوپ نکلی تو میرے جسم سے سایہ نکلا

کڑے وقت میں اپنا بھی پرایا نکلا

کشمیر کی آزادی کی تحریک میں 19 جولائی میں خصوصی اہمیت کی حامل ہے ۔ہر سال اس دن کو دنیا بھر میں کشمیریوں سمیت تمام پاکستانی”یومِ الحاقِ پاکستان “کے طور پر مناتے ہیں۔ آج سے 77برس قبل19 جولائی1947ءکو معروف کشمیری رہنما خواجہ غلام الدین وانی اور عبدالرحیم وانی نے قراردادِ الحاقِ پاکستان پیش کی اور آل جموں و کشمیر کانفرنس کا ہنگامی اجلاس سردار محمد ابرہیم کی رہائشگاہ پر چوہدری حمیداللہ خان کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں مذہبی، ثقافتی اور جغرافیائی بنیادوں کی بناءپر قرار دادِ الحاقِ پاکستان پیش کی گئی۔یہ قرارداد 59 کشمیری رہنماو_¿ں نے آل جموں و کشمیر کانفرنس کے ہنگامی اجلاس میں متفقہ طور پر منظور کی۔ قراردادِ الحاقِ پاکستان کی منظوری پونچھ بغاوت اور بعد ازاں آزاد کشمیر کی آزادی کا باعث بنی۔گزشتہ77 برسوں سے کشمیری بھارتی سامراج کے غیر قانونی قبضے کے خلاف آزادی کے لئے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔ 77 سال سے کشمیریوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے۔اب تک 5 لاکھ سے زائد کشمیری تحریک ِآزادی کی راہ میں شہید ہو چکے ہیں۔

1990ءمیں ہنڈواڑہ، تینج پورہ، ذکورہ، 1993ء میں سوپور ، لال چوک اور بیجی بہارہ جبکہ 1994ء میں کپواڑہ میں قتلِ عام کے واقعات بھارتی ظلم و جبر کا کھلا ثبوت ہیں۔2012ءمیں بانڈی پورہ، بارہ مولہ اور کوٹورا کے اضلاع کے 55 گاو_¿ں میں 2700 سے زائد اجتماعی قبریں بھی دریافت ہوئیں۔ مقبوضہ کشمیر آج دنیا بھر میں 10 لاکھ سے زائد فوجی اور پیرا ملٹری فورسز کی تعیناتی کی باعث سب سے بڑی فوجی چھاو_¿نی اور سب سے بڑی اوپن ائیر جیل کے نام سے جانا جاتا ہے۔

بھارت نے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی ہے۔ اقوامِ متحدہ, ایمنسٹی انٹرنیشنل،ہیومن رائٹس واچ اور عالمی میڈیا متعدد بار کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین صورتِ حال پر آواز اٹھا چکا ہے۔اقوامِ متحدہ کی قراردادیں ”کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق دیتی ہیں“۔پاکستان کا یہ اصولی موقف ہے کہ ”مسئلہ کشمیر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے“۔کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ الحاق ہونے تک اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ بھارت نے گزشتہ77برسوں سے کشمیری عوام کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر رکھا ہے۔ 

اسی پسِ منظر میں 19 جولائی 2023ءکو سردار تنویر الیاس خان نے سید علی گیلانی مرحوم کے نعرے سے ایک قدم آگے بڑھا کر یہ نعرہ بلند کیا " ہم ہیں پاکستان " اور صرف ایک سال کے قلیل عرصے میں اس نعرے نے ایک قافلے کی صورت اختیار کر لی۔اس سال بھی 19 جولائی کو راولاکوٹ میں سردار تنویر الیاس خان نے " ہم ہیں پاکستان " کی تقریب کو اس کے شایانِ شان منانے کا اہتمام کر رکھا تھا کہ محرم الحرام کے احترام میں اسے ملک کی 77 ویں سالگرہ تک مو_¿خر کر دیا اور شاید یہ اچھا ہی ہو گیا کہ اس اثنا میں اس کے مزید کامیاب انعقاد کا موقع مل گیا اور وہی آزاد کشمیر جو دو تین ماہ پہلے تک بدترین احتجاجی مظاہروں کا مرکز بنا ہوا تھا ،جہاں بجلی اور آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف مظاہرے پرتشدد رُخ اختیار کر چکے تھے، جس کے باعث یہاں پولیس اور مظاہرین کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی جبکہ ایک پولیس اہلکار ہلاک بھی ہوا اور آزاد کشمیر کے طول و عرض کے کئی شہروں سے احتجاجی قافلے دارالحکومت مظفرآباد کی جانب بڑھ رہے تھے جس کی وجہ سے مظفرآباد سمیت کشمیر کے متعدد شہروں میں انٹرنیٹ سروس جزوی طور پر معطل کی گئی تھی۔ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نے وفاقی حکومت سے ایف سی اور پنجاب کانسٹیبلری کے 1200 اہلکار طلب کیے تھے جن کا مقصد بظاہر انسٹالیشنز، ہائیڈل پراجیکٹس اور اسمبلی کی حفاظت کرنا تھا۔اس طرح کی گھمبیر صورتِ حال میں کوئی بھی سیاسی جماعت جلسہ تو ایک طرف ، کوئی چھوٹی موٹی تقریب کے انعقاد کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی لیکن اللہ رب العالمین کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یومِ آزادی کے پرمسرت موقع پر جب راولاکوٹ کے تاریخی صابر شہید سٹیڈیم میں اس جلسے کا اہتمام کیا گیا تو اس جلسہ گاہ میں مبصرین کے طور پر پاکستان کے دل اور زندہ دلوں کے شہر " لاہور " سے پاکستان کے صف ِاوّل کے صحافیوں کی ایک معقول تعداد جناب مظہر برلاس کی سربراہی اور جناب ناصر اقبال خان کی نگرانی میں قابلِ احترام بزرگ دانشور منیر احمد بلوچ ، شوکت ورک، نعیم مصطفی ، محمد نصیر الحق ہاشمی، شفقت حسین ، روہیل اکبر ، شعیب احمد ،محمود شیرازی ، ابرار خان اور لقمان شیخ کی ہمراہی میں راولاکوٹ کے لئے روانہ ہوا تو کشمیر کی حد شروع ہوتے ہی بڑی بڑی فلیکس جگہ جگہ دکھائی دیں جن پر صرف ایک ہی نعرہ " ہم ہیں پاکستان " درج تھا۔ ہر چند سکینڈ بعد جب ان فلیکسوں پر نظر پڑتی تو جسم کے روئےں روئےں میں سرشاری کی ایک ایسی کیفیت طاری ہو جاتی کہ جسے بیان کرنے کے لئے اگر دنیا بھر کی زبانوں کی ڈکشنریوں میں سے اس کیفیت کو بیان کرنے والے الفاظ کو یکجا کر لیا جائے تو بھی شاید اس کیفیت کا اظہار ممکن نہ ہو۔ صحافیوں کا یہ کارواں اتفاق سے عین اس وقت راولاکوٹ پہنچا جب ٹھیک رات کے بارہ بجے 14 اگست کے شروع ہوتے ہی "صابر سٹیڈیم" بے مثال آتش بازی کی روشنیوں سے منور ہو رہا تھا اور پہاڑوں پر دور دور تک ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے آسمان سے ستارے لپک لپک کر یومِ آزادی_¿ پاکستان کے گیت گنگنا رہے ہیں اور بیک آواز بقولِ سردار تنویر الیاس خان یہ نعرہ مستانہ بلند کر رہے ہیں کہ" ہم ہیں پاکستان "۔صابر سٹیڈیم میں " ہم ہیں پاکستان " جلسہ 14 اگست کو سہ پہر کو ہونا تھا لیکن راولاکوٹ کی تاریخی اہمیت کے حامل اس " صابر شہید سٹیڈیم " میں رات بھر جلسے کی تیاریاں زور شور سے جاری تھیں اور صبح سے ہی آزاد کشمیر کے طول و عرض سے لوگوں کے بڑے بڑے قافلے صابر سٹیڈیم پہنچنا شروع ہو گئے تھے، بتانے والے بتاتے ہیں کہ یہ ایک دیدنی منظر تھا جو راولاکوٹ کی تاریخی فضاو_¿ں نے اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ 

سردار تنویر الیاس خان نے شہر لاہور کے صحافیوں کے لئے راولاکوٹ کے تفریحی مقام بنجوسہ لیک کی چوٹی پر واقع" روشنی ہائٹس" میں طعام و قیام کا بہترین انتظام کیا ہوا تھا ۔ ویسے تو کشمیر حقیقی معنوں میں ہے ہی جنت نظیر، لیکن بنجوسہ کی خوبصورتی بھی اپنی مثال آپ ہے۔ اس شدید گرمی کے موسم میں سردی سے بھرپور چند دن اس تفریحی مقام پر گزار کر اللہ رب العالمین کی حمد و ثناءکا موقع ملا اور دل باغ باغ ہو گیا۔جونہی صحافیوں کا یہ قافلہ

 " روشنی ہائٹس" پہنچا تو وہاں پہلے ہی سے مظہر برلاس صاحب ان کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ بارہ گھنٹے کا سفر منزل پر پہنچ کر لگا کہ جیسے پلک جپکتے میں پورا ہو گیا۔رات چونکہ زیادہ ہو چکی تھی اس لئے کھانا کھایا اور اگلے روز صابر شہید سٹیڈیم راولاکوٹ میں ملاقات کا کہہ کر مظہر برلاس صاحب روانہ ہو گئے۔ اس پرفضا ماحول کو دیکھ کر ہی سفر کی تھکاوٹ دور ہو چکی تھی۔

 رات کو سوئے تو علی الصبح ہی آنکھ کھل گئی۔رفتہ رفتہ سب ہی بیدار ہو چکے تھے۔ سب سے پہلے گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا، پھر تیاری کی ، ناشتہ کر کے بنجوسہ جھیل پر پہنچے، تفریح کی، ہنسی مذاق ہوا ، تصاویر بنوائیں اور پھر صابر شہید سٹیڈیم راولاکوٹ کی طرف روانہ ہو گئے۔ یہ کوئی ڈیڑھ گھنٹے کا سفر تھا۔ سٹیڈیم کے اردگرد لوگوں کا جمِ غفیر تھا۔ گاڑیوں میں، موٹر سائیکلوں پر ، بسوں اور کوچز میں آزاد کشمیر کے طول و عرض سے لوگ جلسہ گاہ کی طرف بڑی تعداد میں جوق در جوق بڑھ رہے تھے، پارکنگ کا کافی دور انتظام تھا۔ لوگ گاڑیوں سے اتر کر پیدل سٹیڈیم کی طرف رواں دواں تھے ، ہم بھی جیسے تیسے سٹیڈیم پہنچے، سٹیج کافی بڑا تھا، ہمیں سٹیج پر ہی نمایاں جگہ بٹھایا گیا۔ جونہی ہم سٹیج پر پہنچے تو سردار تنویر الیاس خان بھی ایک بہت بڑے جلوس کے ہمراہ سٹیڈیم پہنچے، جنہیں دیکھ لوگوں نے " ہم ہیں پاکستان " کے دیوانہ وار نعرے لگانے شروع کر دیئے جس سے پنڈال میں بھونچال آگیا۔ لوگوں کے جوش و خروش سے اندازہ ہو رہا تھا کہ جیسے وہ پاکستان کے لئے بہت جذباتی ہیں۔ ان کے اس جوش و جذبے کو دیکھ کر ایک لمحے کو پاکستان کے حالات نظروں میں گھومنے لگے کہ کس طرح آج ملک کے بعض دانشور اور صاحب ِبصیرت افراد نوجوانوں کو ملک سے بدظن کرنے کے لئے گزشتہ کچھ عرصے سے کھل کر نوجوانوں کے ذہنوں کو پراگندہ کر رہے ہیں ۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمارے نوجوان بھی ان کے اس جھانسے میں آ کر اپنے ہی مستقبل کو داو_¿ پر لگانے کو تیار ہیں۔ہمارے بعض عاقبت نااندیش سیاستدان اور دانشور شاید مکتی باہنی کی چالوں کو بھی بھول چکے ہیں کہ کس طرح ایک خطرناک سازش کے تحت پاکستان کو 1971ءمیں دولخت کیا گیا اور آج پاکستان میں افواجِ پاکستان کو کمزور کرنے کی جو سازش ہو رہی ہے وہ اگر تلہ سازش سے زیادہ گھناو_¿نی ہے ۔ ہمارے بعض سیاستدان اور دانشور شاید نادانستگی میں یہ بھول چکے ہیں کہ افواج کی اصل طاقت اس کی عوام ہوتی ہے اور جب عوام کو اپنی افواج سے متنفر کر دیا جائے تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہوتا ہے۔

پاکستان کا تو خیر ویسے بھی روزِ اوّل سے صحیح معنوں میں اللہ ہی حافظ ہے۔آج ہمارے بعض دانشور اپنے ملک کا اپنے سے پانچ گنا بڑے ملک بھارت سے موازنہ کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ 14 اگست 1947ءکو صحیح معنوں میں آزاد تو پاکستان ہوا تھا، بھارت تو پہلے ہی سے موجود تھا۔ پاکستان کو اس کے حصے کے اثاثے تک نہیں دیئے گئے اور پھر اس نوزائیدہ مملکت میں بھارت سے نقل مکانی کر کے بے سروسامانی کی حالت میں اپنا گھر بار، دولت جائیداد سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر صرف چند کپڑوں اور گنتی کے کچھ سامان کے ہمراہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کی آباد کاری جس کا ان نامساعد حالات میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، انہیں بھی سنبھالا، ان کی دیکھ بھال بھی کی اور ایک بے آسرا ملک کو اپنے پاو_¿ں پر کھڑا بھی کیا اور آج جب ہم اس ملک میں ایک خوشحال زندگی بسر کر رہے ہیں، ایسے میں اگر کچھ سرد گرم برداشت کرنا پڑ رہا ہے تو اسے خوش دلی سے قبول کرنا چاہیے اور پاکستان کے ساتھ اس سے زیادہ مخلص ہونا چاہیے جتنا سردار تنویر الیاس خان ہیں۔

صابر سٹیڈیم راولاکوٹ میں قومی پرچموں کی بہار آئی ہوئی تھی۔ آزاد کشمیر کے جھنڈوں کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں قومی پرچم لہرا رہے تھے۔ جلسہ گاہ میں بھی لوگوں نے بڑی تعداد میں قومی پرچم تھامے ہوئے تھے جنہیں دیکھ کر عجیب قسم کی مسرت و سرشاری محسوس ہو رہی تھی۔سٹیڈیم لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اطراف کی سڑکوں ، گلیوں اور کوچوں میں بھی لوگ بڑی تعداد میں موجود تھے جبکہ قرب و جوار کی بلڈنگوں، عمارتوں اور گھروں کی چھتوں پر بھی بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے۔ خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد جلسہ گاہ میں موجود تھی۔بچوں، بوڑھوں سمیت نوجوانوں کی بھی ایک بڑی تعدادجلسہ گاہ میں خود کو پاکستانی تسلیم کروانے کے لئے پرجوش نعرے لگا رہی تھی۔ اس جلسے کی انفرادیت اور کامیابی کو اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو زیادہ کامیاب دکھائی دے گا کہ یہ کوئی سیاسی جلسہ نہیں تھا اور نہ ہی اس میں حکومتی مشینری کا عمل دخل تھا۔ یہ ایک فرد واحد سردار تنویر الیاس خان اور ان کے چند دوستوں، ساتھیوں کی شب و روز محنت اور قابلیت کا منہ بولتا ثبوت تھا یا سردار تنویر الیاس خان کی آزاد کشمیر کے عوام سے وہ محبت تھی جو انہوں نے اپنے یک سالہ دورِ اقتدار میں اپنے ان لوگوں پر نچھاور کی تھی۔ تبھی آزاد کشمیر کی سڑکیں، چوک اور وہ چوراہے جہاں دو تین ماہ قبل دھرنے دیئے جا رہے تھے ، وہیں آزاد کشمیر کے عوام پاکستان سے محبت اور الفت کی آج ایک الگ ہی داستان رقم کر رہے تھے جس کا سہرا صرف اور صرف سردار تنویر الیاس خان کے سر ہے۔

سردار تنویر الیاس خان سٹیج پر پہنچے تو عوام نے ان کا پرتباک استقبال کیا۔اس عظیم الشان جلسے کی کارروائی تلاوتِ قرآنِ پاک اور نعت ِرسولِ مقبول سے ہوئی جس کے بعد قومی ترانہ پڑھا گیا تو سٹیڈیم،اطراف کی سڑکوں اور چھتوں پر موجود افراد نے بیک زبان مکمل احترام کے ساتھ باادب کھڑے ہو کر قومی ترانہ پڑھا۔ شہیدوں، غازیوں اور مجاہدوں کی سرزمین راولاکوٹ میں 14 اگست کو ہونے والے اس عظیم الشان جلسے کے اثرات بھارتی مقبوضہ کشمیر سے لیکر پوری دنیا پر پڑیں گے۔اس موقع پر سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پونچھ کا یہ خطہ غازیوں، مجاہدوں، غیرت مندوں اور شہداءکے وارثوں کا ہے۔ شہداءکی دھرتی راولاکوٹ میں ہونے والے آج کے اس عظیم الشان، فقید المثال ، تاریخ ساز جلسے سے جو تاریخ رقم ہوئی ، آزاد کشمیر کی 77 سالہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ کسی نے آج تک ایسا جلسہ دیکھا ہو گا اور نہ کیا ہو گا۔ ہمارا نعرہ ”ہم ہیں پاکستان “ کل بھی تھا اور آج بھی ہے۔ ہم ہیں پاکستان اور رہیں گے اور جو آزاد ہوگا وہ بھی پاکستان کا حصہ ہو گا۔ہم نے گا، گی ، گے سے اپنے آپ کو آگے بڑھایا ہے۔

آزاد کشمیر کے عوام نے اس تاریخی جلسے ”ہم ہیں پاکستان“ میں بھرپور شرکت کر کے یہ ثابت کر دیا کہ19 جولائی 2023ءکو یومِ قراردادِ الحاقِ پاکستان کے موقع پر ہم نے صابر شہید سٹیڈیم راولاکوٹ کے عظیم الشان اجتماع میں ایک نئے سلوگن ”ہم ہیں پاکستان“ کی تاریخی قرارداد پیش کی۔ 19 جولائی 1947ءکو غازی_¿ ملت سردار محمد ابراہیم خان رحمة اللہ علیہ کی سربراہی میں ان کے گھر قرار داد منظور کی گئی تھی کہ کشمیر پاکستان کا حصہ بنے گا، 19 جولائی 2023ءکو ہم نے راولاکوٹ کے مقام پر یہ کہا تھا کہ جو کشمیر کا حصہ آزاد ہو کر آزاد کشمیر کہلایا، یہ ریاست ہے اور یہ ریاست پاکستان میں 26 کروڑ جو ہماری عوام ہے ان کے دلوں میں بستی ہے اور یہ پاکستان ہے۔اور ہم نے یہ کہا کہ گے، گا ، گی سے بڑھ کے ”ہم ہیں پاکستان“ پر ہم یقین رکھتے ہیں اور اسی کو مانتے ہیں جو آزاد ہوا وہ پاکستان ہے اور جو آزاد ہوگا وہ بنے گا پاکستان کا حصہ، جو ٹیریٹری آزاد ہو چکی ہے وہ پاکستان کا حصہ اور پاکستان کی ریاست ہے، ہم اسی کو مانتے ہیں اسی کو جانتے ہیں اور اسی کو ہی سمجھتے ہیں۔

سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ کشمیری سبز ہلالی پرچم میں دفن ہوتے ہیں، یہی ہمارا محور و مرکز ہے۔ سردار تنویر الیاس نے کہا کہ بھارت کو کشمیر سے نکلنا ہوگا۔77 برس سے کشمیری پاکستان کا حصہ بننے کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں۔ جب تک ایک بھی پاکستانی زندہ ہے کشمیر پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔ سردار تنویر الیاس کا مزید کہنا تھا کہ آج بنگلادیش کی عوام کو بھی احساس ہو گیا ہے، آج بنگلہ دیشی بھی سبز ہلالی پرچم لے کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں۔کشمیریوں کی منزل صرف اور صرف پاکستان ہے۔سابق وزیراعظم نے مزید کہا کہ آپ نے پاکستان سے جڑے رہنا ہے۔ آج ایل او سی کے اس پار جو کشمیری قربانی دے رہے ہیں، ایل او سی کے اس پار جو ہماری ماں بہن بیٹی ہمارے بزرگ اور نوجوان جو قربانی دے رہے ہیں، ان کو بھی یہ یقین دلانا ہے کہ ہم سوئے نہیں جاگ رہے ہیں، جب تک ایک بھی کشمیری ایک بھی پاکستانی زندہ ہے وہ کشمیر کی آزادی تک چین سے نہیں بیٹھے گا۔ ہم اس وقت تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے جب تک کشمیر آزاد نہیں ہو جاتا، پاکستان اور آزاد کشمیر کے عوام بھارت کے قبضے سے آزادی کی جدوجہد میں اپنے مقبوضہ کشمیرکے عوام کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں۔

سردار تنویر الیاس نے مزید کہا کہ محرم کا مہینہ شہدائے کربلا کی شہادتِ عظمیٰ کی وہ داستان لیے ہوئے ہے، جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔بنیادی طور پر محرم الحرام اور عاشورہ ایک ایسا دن ہے کہ جب آلِ رسول نے اسلام کی غیرت اور حمیت کے لیے قربانی دی۔ ہم نے محرم الحرام کے احترام میں 19 جولائی کو ہونے والے اس جلسے کو مو_¿خر کر کے 14 اگست کو کرانے کا جو فیصلہ کیا تھا، آج اس جلسہ گاہ میں آزاد کشمیر کے عوام نے بھرپور شرکت کر کے ہمارے اس فیصلے پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔ اس عظیم الشان جلسے میں مشیر حکومت آزاد کشمیر سردار احمد صغیر ، سابق معاونِ خصوصی سردار امتیاز شاہین ، سابق معاونِ خصوصی برائے ہیلتھ ڈاکٹر سردار محمود، سابق پولیٹیکل ایڈوائزر سردار افتخار رشید ، ڈسٹرکٹ کونسلر مرزا وحید بیگ ، سردار افتخار ، سابق پولیٹیکل سیکرٹری سردار شبریز صابر ، میڈیا کوارڈینیٹر راجہ قمر الزمان ، سابق سٹاف آفیسر صدام نسیم ، فوکل پرسن برائے سوشل میڈیا سید ارشد گردیزی ، ترجمان استحکامِ پاکستان پارٹی سردار مشعل یونس ، سابق پی آر او سردار عمران یاسین ، سید صداقت سبزواری ، سردار وسیم رشید ، سردار عاصم حمید، سردار ارشاد بیگ ، سید انعام گیلانی سمیت دیگر رہنماﺅں نے بڑے بڑے جلوسوں کی قیادت میں جلسہ گاہ میں شرکت کی۔ 

جلسے کے اختتام پر سردار تنویر الیاس مظہر برلاس صاحب کے پاس آئے اور انہیں کہا کہ وہ لاہور سے آنے والے صحافیوں کو ان کے غریب خانے پر لے آئیں، وہاں رات کا کھانا ہم اکٹھے کھائیں گے۔ 35، 40 منٹ کا سفر کر کے جب ہم ایک اونچے پہاڑ پر پہنچے تو وہاں سردار تنویر الیاس کا غریب خانہ ایک پرشکوہ محل کی صورت میں تا حد ِنگاہ پھیلا ہوا تھا جس کے وسیع ڈرائنگ روم میں ہمیں بٹھایا گیا، اور خوش ذائقہ مشروب سے تواضع کی گئی۔ سردار تنویر الیاس بھی فوراً ہی تشریف لے آئے اور فرداً فرداً ہر صحافی سے ملے ، ان کا حال احوال پوچھا اور پھر موسم کی رنگینی سے لطف اندوز ہونے کے لئے ڈیوڑھی میں لگی کرسیوں پر بٹھایا گیا اور سردار تنویر الیاس خان سے تلخ و شیریں سوالات کا سلسلہ شروع ہوا۔ بعض سوالات تو اتنے سخت تھے کہ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی غصے میں آ جائے لیکن آفرین ہے سردار تنویر الیاس کی قابلیت، بصیرت ، حکمت اور دوراندیشی پر کہ ایسے خندہ پیشانی سے سوالات کے جوابات دیئے کہ طبیعت باغ باغ ہو گئی۔تلخ ترین سوالات کے ایسے مسکراتے ہوئے جواب دیئے کہ سبھی ان کی خداداد صلاحیتوں کے معترف ہو گئے۔ 

سردار تنویر الیاس نے مختلف سوالات کے جواب میں بتایا کہ وہ ایک سال سے کم عرصہ وزیر اعظم آزاد کشمیر رہے ، اس دوران انہوں نے بلامبالغہ آزاد کشمیر حکومت اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے جو بھی خدمت ہو سکی ، وہ اپنی بساط سے بڑھ کر کی۔ جس کی ایک چھوٹی سی جھلک آپ کو راولاکوٹ کے جلسے میں دکھائی دی۔آج آزاد کشمیر کے غیور عوام نے راولاکوٹ کے جلسے کو تاریخ ساز بنا کر ان کی سیاسی زندگی میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ میں نے اپنے دور میں 32 سال بعد آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کروائے اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں کروائے جب میری پارٹی کی اپنی قیادت بھی اس کے حق میں نہیں تھی اور ان میں کامیابی بھی حاصل کی۔ ہم نے اپنے دور میں مدرسے کے استاد محترم جو ہمارے بچوں کو قرآن مجید پڑھاتے ، انہیں دین کی تعلیم دیتے ہیں، انہیں پہلے سکیل سے ترقی دے کر پرائمری کے استاد کے سکیل کو پہلے سے ساتواں کیا، مڈل کے استاد کا 11واں ، ہائی کے استاد کا 16واں اور اس طرح انہیں مزید ترقی دے کر آزاد کشمیر میں چیف قاری کا عہدہ متعارف کروایا اور اسے 21 واں سکیل دیا۔ جب ہم یہ فیصلہ کر رہے تھے تو مجھے کہا گیا کہ ان کے ٹیسٹ لے کر پھر انہیں ترقیاں دی جائیں۔میں نے جواب دیا جس نے ہمیں بچپن میں قرآن و سنت کی تعلیم دی ، انہیں تو اللہ تعالیٰ نے عزت دی ہوئی ہے ، ہم میں سے ہے کوئی اس قابل کہ ان کا ٹیسٹ لے سکے ، لہٰذا انہیں بلا تفریق پروموشن دی گئی۔ 

ہم نے 1989ء میں مقبوضہ کشمیر سے جو آٹھ دس ہزار قافلے آزاد کشمیر میں ہجرت کر کے آئے تھے ، آزاد کشمیر حکومت میں ان کی ملازمت کا کوٹہ بڑھایا۔ یہاں کے ہسپتالوں کی پسماندگی کو دور کیا۔میں ایک ہسپتال کے دورے پر گیا تو وہاں ایک بچی نے مجھے کہا کہ کیا ہمارے لئے ہسپتال میں لگانے کے لئے ایک کینولہ بھی نہیں ہے،ہم مریض کو ہسپتال لانے کے بعد کینولہ خریدنے کے لئے دربدر ہوتے ہیں اور اتنے میں بعض مریض اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ میرا کلیجہ اس کی یہ بات سن کر چھلنی ہو گیا۔ میں نے اگلے ہی روز ہسپتالوں میں فوری طور پر مفت علاج کی سہولت فراہم کی۔اسی طرح میں ایک اور ہسپتال میں گیا تو وہاں بیڈ پرایک مریض پیشاب میں تر بتر پڑا تھا، اور ڈاکٹر بھی اسی حالت میں اس کا علاج کر رہا ہے، میں تڑپ کر رہ گیا۔ میں نے اس نوجوان سے کہا تم اس بیڈ سے مطمئن ہو، اس نے بادلِ نخواستہ جواب دیا جی سردار صاحب میں مطمئن ہوں، اس کے اس خلافِ توقع جواب نے میرے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا؛ بہرحال ہم نے ہسپتالوں میں مفت ادویات اور علاج کا انتظام کیا۔ آزاد کشمیر کی سڑکوں اور تفریحی مقامات کی حالت کو بہتر کیا، یہاں کی مساجد کو مفت بجلی دی ۔آزاد کشمیر میں دو قسم کے لوگوں کی اکثریت ہے ، ایک تو وہ جو بیرونِ ملک ہیں اور بہت امیر ہیں اور ایک ان کے مقابلے میں بہت غریب ہیں اور غریب بھی اتنے کہ انہیں دو وقت تو کیا ایک وقت کی روٹی بھی شاید مشکل سے دستیاب ہو، ہم نے انہیں بجلی اور آٹے پر سبسٹدی دی، سکولوں کی حالت کو بہتر کیا۔ 

ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ایک دن میں اپنے اسی غریب خانے ( جو کسی محل سے کم نہیں) میں بیٹھا لوگوں کے مسائل سن رہا تھا کہ میں نے دیکھا ایک بچی اپنے کسی عزیز کے ساتھ آئی ہوئی ہے اور رش زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ میرے قریب نہیں آ پا رہی ، میں نے اسے قریب بلایا، اس سے مسئلہ پوچھا تو وہ بولی کہ اس نے میٹرک میں بورڈ کے امتحان میں ٹاپ کیا ہے ۔ میں نے اسے اپنی جیب سے تین لاکھ روپے انعام دیا ۔ وہ جانے لگی تو اس کے ساتھ آیا ہوا شخص اسے ڈانتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ جس مقصد کے آئی ہو، وہ تو تم نے بات نہیں کی ۔ میرے کان میں اس کی بات پڑی تو میں نے اسے واپس بلایا اور پیار سے پوچھا بیٹا کیا بات کرنی ہے ؟ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، بمشکل اس کے منہ سے الفاظ نکلے کہ تین چار ماہ ہو گئے، میرے والد فوت ہو چکے ہیں، ہماری کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہیں، رشتے دار اب ہمارا ساتھ نہیں دے رہے۔میں نے اس سے پوچھا تمہارے گھر کا مہینے کا خرچ کتنا ہے؟ اس نے کہا تیس ہزار، میں نے فوری طور حکم دیا آج سے اس کے گھر کے تمام اخراجات میں اپنی جیب سے ادا کروں گا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ غریب انسان کو اپنا حق لینے کے لئے اس کی زبان بھی اس کا ساتھ نہیں دیتی۔ سردار الیاس صاحب کی گفتگو ایک درد مند انسان کی گفتگو محسوس ہو رہی تھی۔ان کے متعلق معلوم ہوا کہ وہ حقیقت میں ایک دردِ دل رکھنے والے ، محبت کرنے والے، ملنسار اور شفیق طبیعت کے مالک انسان ہیں،انہوں نے اور بھی بہت سے سوالات کے جوابات دیئے۔ ڈیڑھ دو گھنٹے مختلف سوالات کا سلسلہ جاری رہا۔

ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ فوج تو پہلے بھی ہماری تھی اور آج بھی ہماری ہے۔ افواجِ پاکستان ملک و قوم کے لئے جو خدمات انجام دے رہی ہے،سیاستدانوں کو اس کی قدر کرنی چاہیے۔ بہرحال سوال و جواب کے بعد پر تکلف عشائیے سے لطف اندوز ہوئے، جس کے ذائقے سے ہی بھرپور اپنائیت ظاہر ہو رہی تھی۔ عشائیے کے بعد سردار تنویر الیاس نے اپنے وسیع و عریض محل کے دروازے پر فرداً فرداً تمام ساتھیوں کو پرتباک انداز میں گلے ملتے ہوئے انہیں رخصت کیا۔رات کوئی بارہ بجے ان کے دولت کدہ سے رخصت ہو کر دوبارہ" روشنی ہائٹس" پہنچے۔اگلے روز صبح سویرے اٹھے تو بنجوسہ کا موسم ایک الگ ہی دلکشی دکھا رہاتھا، دھند چھائی ہوئی تھی، بادل کسی وقت بھی برسنے کو تیار تھے ، راولاکوٹ کے پرفضا ماحول میں خوبصورت لمحات گزرے ۔ جونہی کوچ میں بیٹھے پہلے رفتہ رفتہ اور شدید بارش شروع ہوگئی جس سے سردی کی شدت بھی بڑھ گئی۔

آزاد کشمیر سے واپسی تو ہو گئی لیکن محترم سردار تنویر الیاس کی میزبانی ، محبت بھری گفتگو اور پرخلوص اپنائیت نے لاہور کے صحافیوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیا، یقینا یہ طویل عرصے تک اس میں گرفتار رہیں گے۔واپسی کا سفر محترم منیر بلوچ صاحب کی تجربوں بھری داستانوں، شوکت ورک صاحب کی سنجیدہ و متین گفتگو، ناصر اقبال خان صاحب کی بصیرت بھری گفتگو، شفقت حسین صاحب کی پھلجھڑی نما باتوں، نعیم مصطفی صاحب کے شگوفوں، روہیل اکبر کے برجستہ جوابوں، شعیب احمد،محمود شیرازی اور لقمان شیخ کے نغمگی گانوں اور ابرار افضل خان کی سکوت بھری رفاقت اور راقم الحروف کا اپنے ان ساتھیوں سے حاصل ہونے والے تجربات سمیٹنے میں بخیر و خوبی رات سوا بارہ بجے کے قریب خوشگوار یادوں کے ساتھ لاہور پہنچ کر اختتام پذیر ہوا۔ آزاد کشمیر کے پر فضا ماحول میں گزرے ان خوبصورت لمحوں کا اہتمام کرنے پر محترم مظہر برلاس اور ناصر اقبال صاحب کی بے پایہ محبتوں کا بے حد شکریہ۔اللہ تعالیٰ سب کو اپنے خصوصی حفظ و امان میں رکھے۔ آمین ثم آمین ۔

     ٭٭٭

مارا معاملہ کوتاہی والا ہے تو سمجھو بہت بڑی محرومی ہم اپنے سر لے رہے ہیں، جس کا اندازہ ہمیں روزِ قیامت میں ہوگا۔   ٭٭٭

مزید :

ایڈیشن 1 -