جرمنی میں اعلیٰ تعلیم،پاکستانی طلبہ کے روشن مستقبل کی نوید!
وقاص چوہدری
جرمنی ایک متحد ملک نہیں بلکہ کئی ریاستوں میں تقسیم ہوا کرتا تھا۔ اس کے فلسفیوں اور مؤرخین کی کوشش تھی کہ جرمن زبان اور تاریخ کے ذریعے قوم میں اتحاد کے جذبات پیدا کیے جائیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے دو منصوبوں پر عمل کیا۔ ایک جرمن زبان کو وسعت دینے کے لئے تحریک چلائی، دوسرا جرمن تاریخ کی تشکیل کیلئے ادارے قائم کئے۔ 1771ء میں گوٹینگن یونیورسٹی میں تاریخ کا شعبہ قائم کیا جس کا بنیادی مقصد جرمن تاریخ کے اہم خدوخال کو ناقدانہ تجزیے کے بعد اکٹھا کرنا تھا، یعنی جو کچھ دستاویزات میں لکھا تھا، اس کا دوسرے مآخذوں سے تجزیہ کر کے پھر اسے قبول کیا گیا، نیز ان کی درستگی کے لئے باقاعدہ حوالہ جات دینے پر بھی زور دیا گیا۔ جن مخطوطات اور کتابوں سے مدد لی گئی، ان کے حوالوں کو بھی شامل کرنا ضروری سمجھا گیا۔
1510ء میں برلن یونیورسٹی میں مشہور مؤرخ لیوپولڈ رانکے کو تاریخ کا پروفیسر مقرر کیا گیا۔ انہوں نے تاریخ نویسی میں جو اصول و ضوابط مقرر کیے، انہیں تاریخی انقلاب کا نام دیا جاتا ہے۔ ان کے عہد میں یورپ کی سلطنتوں میں اپنی خفیہ دستاویزات، عہدنامے اور ڈپلومیسی کی معلومات کو مؤرخین کے لئے دستیاب کیا گیا۔ رانکے کا کہنا تھا کہ صحیح تاریخ ان دستاویزات کی وجہ سے ہی لکھی جا سکتی ہے لیکن مؤرخ کو اپنا کوئی فیصلہ نہیں دینا چاہئے بلکہ تاریخ کو معروضی طور پر لکھنا چاہئے۔دستاویزات کا تنقیدی جائزہ لینے سے جرمنی میں علمِ لسانیات کو فروغ حاصل ہوا۔ اس کی مدد سے دستاویزات میں جو اضافے بعد میں کیے گئے، ان کی بھی نشاندہی کی گئی۔ رانکے کی تحریک کا اثر نہ صرف جرمنی میں ہوا بلکہ یورپ کے دوسرے ممالک بھی اس سے متاثر ہوئے۔اس طرح اس کے شاگردوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا، جنہوں نے جرمن تاریخ کو نہ صرف وسعت دی بلکہ اسے نئے خیالات اور افکار سے بھی نوازا۔ جرمن تاریخ نویسی پر اس کے فلسفیوں نے بھی اثر ڈالا۔ ان میں کانٹ، ہیگل، ہیرڈر اور نطشے شامل ہیں۔ جرمن تاریخ نگاروں اور فلسفیوں نے بائبل کا تنقیدی مطالعہ کیا اور اس نے بہت سے مذہبی عقائد کو توڑا۔اگر ہم کارل مارکس کو بھی یہاں شامل کر لیں تو اس کے نظریے نے بھی تاریخی فکر کو بدلا ہے۔ بنیادی طور پر مارکس نظام پیداوار اور ذرائع پیداوار کے درمیان کشمکش کو تاریخی عمل کا حصہ سمجھتا تھا۔ دوسرا اس کا کہنا ہے کہ دنیا کی تاریخ طبقاتی تاریخ ہے، جو غلام اور آقا، جاگیردار اور مزارعے، سرمایہ دار اور مزدور کے درمیان جاری ہے۔وہ امید کرتا ہے کہ سوشل ازم اس فرق کو ختم کرے گا۔
جرمن تاریخ نویسی پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے بعد تیزی سے تبدیلی ہوئی۔ جرمن مؤرخوں میں یہ بحث شروع ہوئی کہ کیا ہٹلر اور نازی پارٹی جرمن کی تاریخی روایت کا حصہ تھے یا وقتی حالات کے تحت وہ اقتدار میں آئے تھے۔ جدید جرمن مؤرخ یہ کوشش کر رہے ہیں کہ تاریخ کے ذریعے جرمن قوم کو ان جرائم سے چھٹکارا دلائیں جو نازیوں نے کیے تھے۔یہی وجہ ہے کہ جرمنی کا شمار آج ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ جرمن قوم نے اس مقام تک پہنچنے کے لئے بڑی محنت اور جدوجہد کی ہے۔ جرمنی یورپ کے مرکز میں واقع ہے۔ اس کی مستقل روایتی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہ دنیا کی بہترین معیشتوں میں سے ایک ہے،یہاں کے لوگوں کا معیارِ زندگی بہت بلند ہے۔جرمنی ترقی کی ابتدا کے طور پر مشہور ہے، جرمنی نے مختلف شعبوں مثلاً گاڑیوں کی صنعت، انجینئرنگ، ادویات، اور بجلی کی ترقی و ترسیل کے شعبوں میں بہت کام کیا ہے۔ علاوہ ازیں، جرمنی کے پاس تجربہ کار اور ہنرمند افراد بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اس کا ایک مضبوط تعلیمی نظام ہے۔اس کے علاوہ ایک مستحکم سیاسی حکومت اور معاشی ماحول ہے۔یہ تمام عناصر مل کر اسے ایک ترقی یافتہ ملک بناتے ہیں۔
جرمنی کا تعلیمی نظام دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے۔ یہاں کے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں ممتاز پروفیسر اور تحقیقاتی مراکز ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اعلیٰ پائے کے ڈاکٹر، سائنسدان اور مختلف شعبوں کے ماہرین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ جرمنی ایک ایسی تعلیمی قوت ہے جہاں زیادہ سے زیادہ لوگ تعلیم کی بلندیوں تک پہنچنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ یہ ملک تعلیمی سطح پر عالمی درجے پر پہنچنے کے لئے مشہور ہے۔ جرمنی میں تعلیمی نظام بڑا مؤثر ہے۔یہی وجہ ہے کہ طلبہ کو مختلف شعبوں میں تعلیمی پروگرام ملتے ہیں۔ جرمنی میں عموماً تعلیم مفت ہے جس کی وجہ سے زیادہ تر لوگ اس ملک میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے ریاستی مدد حاصل کرنے کی تگ و دو کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جرمنی میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح میں تعلیمی معیار بہت بہتر ہے۔ یہاں تعلیمی اداروں کی سطحیں عالمی معیار کو پورا کرتی ہیں اور تعلیمی پروگراموں میں عموماً تازگی اور تجدید موجود رہتی ہے۔
جرمن حکومت، یہاں کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں سمیت مختلف شعبوں میں دنیا بھر، بالخصوص اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی طالب علموں کے لئے سکالرشپ دیئے جاتے ہیں۔ جن میں ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، علومِ ادب و فنون، طب، اقتصادیات، سوشل سائنسز، سیاست و بین الاقوامی تعلقات سمیت دیگر شعبوں میں تعلیمی سکالرشپ موجود ہیں۔ جرمنی میں 400 سے زیادہ یونیورسٹیاں ہیں، ان میں سے تقریباً 220 یونیورسٹیوں میں جرمنی کے ساتھ ساتھ انگریزی بھی پڑھائی جاتی ہے، بلکہ کچھ پروگرام صرف انگریزی زبان میں پڑھائے جاتے ہیں، خاص طور پر ماسٹر ڈگری کے پروگرام۔ جرمنی کی سکالرشپ دینے والی بہترین یونیورسٹیاں درج ذیل ہیں:
ہمبولٹ یونیورسٹی برلن: یہ یونیورسٹی علومِ انسانیات، علوم ِاجتماعیہ، اور طب میں سکالرشپ کی پیشکش کرتی ہے۔ اس کے علاوہ طلبہ کے لئے روزمرہ کی جدیدیت اور ادب و فنون کے سکالرشپ پروگرام بھی موجود ہیں۔
ہائیڈلبرگ یونیورسٹی: یہ یونیورسٹی انجینئرنگ جیالوجی، سمیت کئی شعبوں،جن میں اردو، فارسی، تاریخ، اور مذہبی مطالعات شامل ہیں، سکالرشپ جاری کئے جاتے ہیں۔
برلن آزاد یونیورسٹی: اس یونیورسٹی میں فنون، مصوریت، ڈیزائننگ، علومِ طب، عالمی تعلقات، ادب و فنون، سیاست، وسائل ابلاغ اور عوامی اداروں کے شعبوں میں سکالرشپ کے وسیع مواقع موجود ہیں۔
گوٹنگن یونیورسٹی: اس یونیورسٹی میں ٹیکنالوجی، انجینئرنگ،طب سمیت ادب و فنون، سوشل سائنسز، سیاست و بین الاقوامی تعلقات، مذہبی مطالعات، اور موسیقی کے شعبوں میں سکالر شپ جاری کئے جاتے ہیں۔
جرمنی کی یونیورسٹیوں میں سکالرشپ کے حصول کیلئے طلبہ کو درج ذیل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ جرمنی کی ان یونیورسٹیوں کی ویب سائٹس وقتاً فوقتاً چیک کی جائیں۔ اس مقصد کے حصول کیلئے طلبہ متعلقہ یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر جائیں اور سکالرشپ پروگرامز کی تفصیلات تلاش کریں۔ آپ کو ویب سائٹ پر طلبہ کیلئے مخصوص سکالرشپوں کی معلومات مل جائیں گی۔
تنخواہ کی تفصیلات دیکھیں: سکالرشپ کی تفصیلات میں تنخواہ، درسی کریڈٹز، اور دیگر مہیا کردہ سہولتوں کی تفصیلات بھی دی جاتی ہیں۔ اس سے طلبہ کو معلوم ہوگا کہ سکالرشپ کے حصول کا طریقہ کار اور شرائط کیا ہیں۔طلبہ ان طریقہ کار کو اپنا کر اور متعلقہ یونیورسٹی کی شرائط پوری کر کے یہ سکالرشپ بآسانی حاصل کر کے اپنے مستقبل کو روشن اور تابناک بنا سکتے ہیں۔
٭٭٭