وہ بہت زیادہ پریشان اور اُلجھی الجھی دکھائی دے رہی تھی، احساس جرم کا کسی قابل اعتماد شخص کے سامنے اظہار نہ کیا جائے توکئی  زندگیاں بھی تباہ کر سکتا ہے 

وہ بہت زیادہ پریشان اور اُلجھی الجھی دکھائی دے رہی تھی، احساس جرم کا کسی قابل ...
وہ بہت زیادہ پریشان اور اُلجھی الجھی دکھائی دے رہی تھی، احساس جرم کا کسی قابل اعتماد شخص کے سامنے اظہار نہ کیا جائے توکئی  زندگیاں بھی تباہ کر سکتا ہے 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:ڈاکٹر ڈیوڈ جوزف شیوارڈز
ترجمہ:ریاض محمود انجم
 قسط:190
مارگریٹ کو احساس جرم/شرمندگی، کی بھاری قیمت چکانا پڑی تھی:
احساس جرم/شرمندگی میں مبتلا کچھ لوگ، اس احساس کو بہت زیادہ حد تک اپنی ذات پر طاری کر لیتے ہیں، لیکن بعض اوقات ہمیں اس احساس کے لیے بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے، اور بعض دفعہ یہ احساس جرم /شرمندگی، جس کا کسی قابل اعتماد شخص کے سامنے اظہار نہ کیا جائے جو اس کو راز میں رکھ سکے، ان لوگوں کی زندگیاں بھی تباہ کر سکتا ہے، جن کی زندگیاں کسی کی غلط حرکات کے باعث متاثر ہوسکتی ہیں۔ مندرجہ ذیل مثال کے ذریعے مندرجہ بالا انداز فکر کی وضاحت ملاحظہ کیجئے۔
کچھ عرصہ قبل ایک خاتون نے مجھ سے رابطہ قائم کیا اور اپنے ایک ذاتی مسئلے کے حل کے لیے مجھ سے مدد چاہی۔ فون کے ذریعے مجھے معلوم ہوا کہ یہ مسئلہ ازدواجی نوعیت کا ہے میں نے اسے بتایا کہ میں ازدواجی معاملات اور مسائل کے بارے میں مشورے نہیں دیا کرتا لیکن اس نے اصرار کیا کہ وہ ہر حال میں مجھ سے ملاقات کرنا چاہتی ہے۔
مارگریٹ ٹی (Margret T) طے شدہ پروگرام کے مطابق ملاقات کے لیے میرے پاس پہنچ گئی۔ اس کی عمر 35 سال کے قریب معلوم ہوتی تھی، وہ ایک دلکش خاتون تھی لیکن بہت زیادہ پریشان اور اُلجھی الجھی دکھائی دے رہی تھی۔ مختصر سی گفتگو کے بعد میں نے اس سے پوچھا کہ میں اس کی کیونکر مدد کر سکتا ہوں۔
اس نے جواب دیا ”میں ایک کامیاب اور شادمان شادی شدہ زندگی گزار رہی ہوں۔ ہماری 2 بیٹیاں ہیں اور میں ایک جز وقتی ملازمت کرتی ہوں جو میرے لیے نہایت دلچسپی اور لطف کا باعث ہے۔ میرا خاوند ایک وکیل ہے اور کافی زیادہ دولت کما لیتا ہے۔ میں یہ ملازمت صرف اپنی دلچسپی کی خاطر کرتی ہوں۔ ہمارا گھر بھی بہت اچھا ہے اور ہم سیر و تفریح کے لیے اکثر جاتے رہتے ہیں۔“
میں اس کی بات کاٹتے ہوئے کہنے لگا، لیکن ساتھ ہی میں ہنس بھی رہا تھا ”مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے تم ایک خوشحال اور شادمان زندگی بسر کر رہی ہو، مجھے تو بظاہر کوئی مسئلہ دکھائی نہیں دیتا۔“
اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ”بے شک ہم ایک اچھی اور خوشحال زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن میں اپنی اس زندگی سے قدرے اکتا چکی ہوں۔ بعض دفعہ مجھے اپنی ذات سے اس قدر زیادہ نفرت محسوس ہونے لگتی ہے کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں گولیوں بھری بوتل اپنے حلق میں انڈیل لوں اور سب کچھ ختم کر لوں۔“
میں نے کہا ”تمہاری یہ حرکت تو انتہائی نوعیت کی ہے موت کا ایک وقت مقرر ہے اور وہ وقت تم سے پوچھ کر نہیں آئے گا، لیکن تمہیں اپنی ذات سے اس قدر زیادہ نفرت کیوں ہے؟“
اس دوران مارگریٹ قدرے چیخنا چلانا شروع ہوگئی تھی لیکن چپ ہو کر میرے سوال کے جواب میں کہنے لگی”میرا خیال ہے کہ میں اپنی زندگی کے ایک نہایت ہی خوفناک حصے کے متعلق احساس جرم/ شرمندگی میں مبتلا ہوں جس کے متعلق میں نے کبھی کسی کو کچھ نہیں بتایا۔“(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -