قائد اعظم کا وارث

قائد اعظم کا وارث
قائد اعظم کا وارث

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہماری تاریخ میں مسلم لیگوں کی کبھی کمی نہیں رہی، الف بے جیم اور دال سے لے کر چھوٹی بڑی یے تک حروف تہجی کا شائد ہی کوئی حرف بچا ہو جب کبھی نہ کبھی اس نام کی مسلم لیگ ملک میں نہ رہی ہو ۔ اسی طرح کچھ سیاست دان نما کھلاڑی بھی بابائے قوم کی تصویر کے ساتھ اپنی تصویر جوڑکر اپنے آپ کو قائد اعظمؒ کا وارث کہلانے کے شوقین ہیں۔ سیاست دان تو ایک طرف رہے، ہمارے فوجی حکمران تک بات بے بات اپنا موازنہ قائد اعظمؒ سے کرنے کے مضحکہ خیز مرض میں مبتلا تھے ، جنرل ضیاء الحق کی جیب میں توقائد اعظمؒ کی ایک نام نہاد ڈائری ہر وقت موجود ہوتی تھی جس کا وہ مارشل لاء کے نت نئے ڈریکولائی احکامات جاری کرتے وقت سہارا لیا کرتے تھے،لیکن اصل حقیقت تو یہ ہے کہ اپنی پارٹی کا نام پاکستان مسلم لیگ رکھ لینے ، قائد اعظمؒ کی نام نہاد جعلی ڈائری رکھنے یا اپنے ساتھ قائد اعظم کی تصویر لگا لینے سے کوئی قائد اعظم کا وارث نہیں بن جاتا۔ قائد اعظم کا وارث وہی ہے جس نے ایک بار نہیں، بلکہ بار بار ثابت کیا ہے کہ صرف اپنے عمل، کردار اور قائدانہ صلاحیتوں سے ہی وہ بانیؒ پاکستان کے حقیقی وارث ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح عظمتِ کردار ، اصول پرستی اور قیادت کے عظیم ترین پیکر تھے، ظاہر ہے کوئی ان کی برابری کر بھی نہیں سکتا ۔


پاکستان تو شروع ہی سے ایسے لیڈروں کے چنگل میں پھنس گیا تھا جنہوں نے اپنی ذات کے لئے ملکی مفادات قربان کر دئیے۔ پاکستان میں ایسے بہت سے خود غرض سیاسی اور فوجی حکمران آئے جنہوں نے اپنے اقتدار کے لئے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادی،لیکن میاں محمد نواز شریف ایک ایسے حکمران ہیں جنہوں نے دو بار اپنا اقتدار آدھی آدھی مدت میں ختم کروانا تو قبول کر لیا، لیکن اصولوں پر کوئی سودے بازی نہیں کی، کیونکہ جب بھی کوئی ایسا موقع آیا تو انہوں نے ملکی یا غیر ملکی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے جھکنے کی بجائے اصولی موقف اختیار کیا اور اقتدار قربان کر دیا، لیکن بابائے قوم کی روح کو شرمندہ ہونے سے بچالیا۔ پاکستانی قوم اب اس قدر بالغ نظر ہو چکی ہے کہ اسے بھلے برے کی پہچان ہوتی جا رہی ہے۔ وہ زمانہ گذر گیا جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے ،اس لئے مجھے یقین ہے کہ پاکستان میں اب وہ منحوس دن پھر کبھی نہیں آئے گا جب کوئی طالع آزما ٹینکوں پر بیٹھ کر ایوان اقتدار میں آنے کا سوچے گا اور چور دروازے سے اقتدار حاصل کرنے کے عادی سیاست دان اس کے گرد جھمگھٹا لگائے بیٹھے ہوں گے۔ انصاف کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں اس تبدیلی کا پودا میاں نواز شریف نے لگایا تھا، انہوں نے ہی اس کی آبیاری اور حفاظت کی اور آج اس تناور درخت کی چھاؤں میں اپنے تیسرے اقتدار کی مدت مکمل کرنے جا رہے ہیں۔

میں 1954 میں پیدا ہوا تھا، اس وقت ملک کو قائم ہوئے صرف سات برس ہوئے تھے۔ جب ہوش سنبھالی تو اس وقت ملک ایوب خان اقتدار پر قابض تھے ،ان کے خلاف ہونے والی واحد مزاحمت کسی اور کی نہیں بلکہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی تھی۔ وہ دیکھنے میں انتہائی نحیف و نزار تھیں، لیکن ان کی اصل طاقت ان کا کردار تھا ،جس نے آمر وقت کو چیلنج کیا اور وہ اس وقت تک مردانہ وار مقابلہ کرتی رہیں جب تک ان کی جان نہیں لے لی گئی۔ قائد اعظم کے اصولوں کی علمبردار اور وارث جب اس دنیا سے چلی گئی تو طالع آزماؤں کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل گیا ۔ ایوب خان اور یحی ٰ خان نے سوا تیرہ سال تک حکومت کی اور ملک کے دو ٹکڑے کر کے ہی جان چھوڑی۔ اس کے بعد پاکستان میں عوامی حکومت قائم ہوئی اور ایک متفقہ آئین بھی بن گیا ،لیکن صرف چار سال بعد ہی ایک اور جرنیل نے ملک پر قبضہ کر لیا اور بعد میں آئین کے اندر مارشل لاء کے زور پر آٹھویں ترمیم شامل کردی جس کے بعد اسٹیبلشمنٹ کا جب جی چاہتا منتخب حکومت کو گھر بھیج دیا جاتا۔ اس مارشل لائی ترمیم کا کلہاڑا چار بار چلا جس میں محمد خان جونیجو، بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی منتخب حکومتیں بار بار گھر بھیجی گئیں۔ زیادہ قابلِ افسوس بات یہ تھی کہ فوجی حکمران نے اس کا استعمال صرف ایک بار کیا ،جبکہ تین بار یہ کلہاڑا سویلین صدر نے چلایا۔


پاکستان کی تاریخ میں سٹیٹس کو میاں نواز شریف نے پہلی بار 1993 میں کامیابی سے چیلنج کیا۔ ان سے پہلے ہمارے حکمران سر جھکائے اسٹیبلشمنٹ سے سر قلم کرواتے اور قبر میں جا لیٹتے یا بیرون ملک گمنامی کی زندگی گذارتے تھے۔جب گھسی پٹی انگریز اسٹیبلشمنٹ کی آخری یادگار غلام اسحاق خان نے بھاری عوامی مینڈیٹ کو طاقت کے زعم میں برطرف کیا تو میاں نواز شریف نے ان کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور سپریم کورٹ سے اپنی حکومت بحال کرواکر اسٹیبلشمنٹ کو ایک زوردار تھپڑ رسید کیا۔ بہر حال اسٹیبلشمنٹ نے زخم چاٹتے ہوئے اپنی کارروائی جاری رکھی اور منتخب حکومت کو دوبارہ برطرف کیا ،لیکن یہ برطرفی اس شان سے ہوئی کہ میاں نواز شریف کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے ہرکارے غلام اسحاق خان کو بھی گھر جانا پڑا۔ یہ وہ فیصلہ کن گھڑی تھی، جب پاکستانی عوام کو پہلی بار پتا چلا کہ عوامی طاقت سے ’’سٹیٹس کو‘‘ توڑا جا سکتا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کو شکست بھی دی جا سکتی ہے۔ میاں نواز شریف سے انسپائر ہو کر دوسری اہم سیاسی لیڈر بے نظیر بھٹو نے بھی برطرفیوں اور جلاوطنی سی خائف ہوئے بغیر مزاحمتی سیاست اختیار کی اور ایک دن ملک کے دو سب سے بڑے سیاست دانوں نے پاکستان کے آخری مارشل لاء کے دوران لندن میں میثاقِ جمہوریت پر نہ صرف دستخط کئے، بلکہ دل کی گہرائیوں سے اس پر عمل بھی کیا۔


بے نظیر بھٹو آمریت کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو گئیں، ان کے بعد میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے میثاق جمہوریت پر عمل جاری رکھا اور ایک دوسرے کی حکومتوں کو گرانے سے گریز کرکے آج ملک کو اس مقام پر لے آئے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس کھیل کھیلنے کے لئے اب کچھ باقی نہیں بچا،اسی لئے مجھے یقین ہے کہ چور دروازہ مارکہ سیاست دان آہستہ آہستہ اب منظر سے ہٹتے جائیں گے ، دھرنوں اور الزامات کی سیاست کا ملک سے خاتمہ ہو جائے گا اور ماضی میں وہ ادارے جو اسٹیبلشمنٹ کے سامنے اپنی آنکھیں بند کر لیتے تھے، اب اپنا آئینی کردار ادا کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔


میاں محمد نواز شریف نے پاکستان کو اس محفوظ مقام پر ایک طویل سیاسی جدوجہد کے بعد پہنچایا ہے۔ 1993 میں اپنی حکومت کی ناجائز برطرفی کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ میں جنگ جیتی، دوبارہ برطرفی اس صورت میں قبول کی کہ اسٹیبلشمنٹ کے ہرکارے کو بھی گھر بھیجا۔ 1999 میں مارشل لاء کے جبر کا مقابلہ قید وبند اور جلاوطنی کی صعوبتوں سے کیا اور اس کے بعد جمہوری جدوجہد سے نہ صرف اپنا اقتدار واپس لیا ،بلکہ اب وہ’’سٹیٹس کو ‘‘کے جن کو ہمیشہ کے لئے ایک ایسی بوتل میں بند کرنے کے قریب آچکے ہیں ،جہاں سے کوئی جج، بیوروکریٹ یا جرنیل اسے باہر نہیں نکال سکے گا۔


ان کی جدوجہد اور قربانیوں کا صلہ انہیں عوام نے بار بار منتخب کرکے دیا ہے جس کا مظاہرہ عام انتخابات، اس کے بعد ہونے والے بیشتر ضمنی انتخابات اور لوکل باڈیز کے انتخابات میں ہو چکا ہے۔ جب میاں نواز شریف لندن میں جلا وطنی کے دن گذار رہے تھے تو انہیں وہاں ملتا رہا تھا اور ہر گذرتے سال کے ساتھ ان کے چہرے کا عزم مضبوط ہونے کا چشم دید گواہ ہوں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب انہیں ان کی جلاوطنی کے دوران ملنے لندن جاتا تھا تو ہر جاننے والا مجھے ملنے سے روکا کرتا تھا کہ اب کون سا انہوں نے کبھی پاکستان کی سیاست میں واپس آنا ہے ،لیکن میاں نواز شریف کے چہرہ مجھے کچھ اور ہی بتاتا تھا اور میں بھی سب کے منع کرنے کے باوجود انہیں جلاوطنی کے دوران ملنے لندن جاتا رہا ،کیونکہ مجھے ان کے چہرے پر صاف نظر آتا تھا کہ وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک قائد اعظم کے پاکستان کا مسخ شدہ چہرہ ٹھیک نہیں کردیتے ۔ میں ان کی جلاوطنی میں بھی یہی اصرار کرتا تھا کہ قائد اعظم کے وارث میاں نواز شریف ہیں اورالف بے جیم دال سے قطع نظر ان کی مسلم لیگ ہی قائد کی مسلم لیگ ہے۔ آج بھی ہمیشہ کی طرح جب متحدہ مسلم لیگ ٹائپ سیاسی لطیفے سنتا ہوں تو بے اختیار مسکرا دیتا ہوں کہ پاکستانی عوام کو ان کی منزل مل چکی ہے اور اب وہ کسی شعبدہ باز یا ڈگڈگی بجانے والے کے ہاتھوں مزید بے وقوف بننے کے لئے تیار نہیں اور یہی ہے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی اصل اور حقیقی وراثت۔

مزید :

کالم -