عظیم قائد کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو گا

عظیم قائد کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو گا
عظیم قائد کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو گا

  

28نومبر2017ء کو میئر لندن صادق خان نے برطانوی عجائب گھر میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کا کانسی کامجسمہ آویزاں کرنے کا اعلان کیا۔ یہ اعلان پاکستان کے 70ویں یومِ آزادی اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کے 25دسمبر کو یومِ ولادت کی مناسبت سے ان کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے کیا گیا۔ یہاں یہ مجسمہ جنوری کے بعد تک رکھا جائے گا، جس کے بعد اسے قائد کی مادرِ علمی لنکنز ان میں منتقل کر دیا جائے گا۔ قائداعظمؒ کی کامیاب شخصیت کے دو پہلو ہیں۔

ایک بطور کامیاب وکیل کے اور دوسرا ایک عظیم سیاسی رہنما کے۔ ایسے وقت میں جب برصغیر کے مسلمان برطانوی شاہی سلطنت کے دشمن تصور کیے جاتے تھے، محمد علی جناحؒ جیسے کامیاب لوگوں کو اپنے تشخص کی بقاکے لئے خاصی دشوار یوں کا سامنا تھا۔ برطانیہ سے حصولِ تعلیم کے بعد ہندوستان واپسی پر قائداعظمؒ ایک مطلوب ترین وکیل بن گئے۔

ان کے دلائل اور خیالات عوام الناس میں زیر بحث آنے لگے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ ایک غیر معمولی وکیل تھے۔ ایک رہنما کے طور پر ان کی پیشہ ورانہ مہارت اور کامیابیوں کا چرچا ہونے لگا اور انہیں سراہا جانے لگا۔

پاکستان وجود میں آچکا تھا۔ ایک رہنما اب ایک منتظم کی ذمہ داریاں اپنا چکا تھا۔ قائد اعظمؒ صرف پاکستان کی تخلیق ہی کے ذمہ دار نہ تھے،بلکہ انہوں نے اس کی نظریاتی بنیادیں رکھنے میں بھی بہت اہم کردار ادا کیا۔ محمدعلی جناحؒ نے اسلامی اصول و ضوابط پر مبنی پاکستان کو فلاحی اور جمہوری ریاست بنانے پر زور دیا۔

یہ ایک ایسے خواب کی تکمیل تھی، جس کی تعبیر آج تک بر صغیر کی تاریخ میں کسی نے نہیں دیکھی تھی۔ شفافیت ، انصاف، برابری ، مذہبی آزادی، باہمی احترام ، محنت ، استحکام اور نظم و ضبط اس عظیم مملکت کے باسیوں کے لئے زندگی گزارنے کا عظیم لائحہِ عمل تھا جو قائد نے ہمیں مہیا کیا ۔

آج کا دن ہر پاکستانی کے لئے اپنے نظریات کا جائزہ لینے کا ایک بہترین موقع ہے جس کے ذریعے پاکستان کو ایک جدید اسلامی ریاست بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان آج بہت سے چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔

ایسا بھی نہیں کہ پاکستان آج پہلی بار اس قسم کے حالات کا سامنا کر رہا ہے ، اسے ابتداء سے ہی مکار دشمنوں کا سامنا رہا ہے۔ پاکستان ہر دن ایک نئی آزمائش کا سامنا کر رہا ہے۔

دشمن ہمسایوں، اداروں کے تصادم ، کرپشن، سیاسی عدم استحکام ، فرقہ ورانہ تقسیم اور بڑھتے ہوئے عدم برداشت کے رویوں کے باعث پیدا ہونے والا تشدد اور اس کے نتیجے میں ہونے والی معاشی بد حالی وہ مسائل ہیں،جن سے پاکستان نبرد آزما ہے۔

نواز شریف کی نا اہلی کے بعد سیاسی عدم استحکام کے دیے جانے والے تاثر نے پاکستان کے ایک کامیاب جمہوریت بننے کے خواب کو ایک بار پھر شدید دھچکا پہنچایا ہے، لیکن اس کے باوجود امید ختم نہیں ہوئی۔

اب شفاف سیاسی ماحول کی پرورش کی امید کی جا سکتی ہے۔ کرپشن کے خلاف اداروں کا مثبت کردار اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آئندہ کسی طرح بھی کرپشن کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ حکومتیں ایمانداری کے بنیادی وصف کے بغیر نہیں چلائی جا سکتیں ۔

پاکستان جومالی ذخائر کی تیزی سے ہوتی کمی کے باعث آئی ایم ایف کی معاونت پر انحصار کرنے پر مجبور ہے ،برآمدات میں کمی اور ایندھن کی بڑھتی قیمتوں کے باعث شدید معاشی تناؤ کے خطرات سے دوچار ہے، لیکن دوسری طرف سی پیک جیسے اہم منصوبہ کے آغاز سے غیر ملکی سرمایہ کاری کے بڑھتے امکانات سے اُمید کے در وا ہوئے ہیں۔

چین کے ساتھ 62بلین ڈالرز کے معاہدے آئندہ کسی طرح کے بھی معاشی خدشات سے محفوظ رکھنے میں معاون ثابت ہوں گے۔ اگر حکومتِ پاکستان اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہتر حکمتِ عملی اپنا لے تو گزشتہ تمام برائیوں کا ازالہ کیا جاسکتا ہے۔

چین نے گوادر میں ترقیاتی کام شروع کر ا کے ڈیرے ڈال لئے ہیں۔ ہاورڈ یونیورسٹی کے ایک معاشی ماہر نے اسی تناظر میں اسے ’’گیم آف پورٹس‘‘ سے تشبیہہ دی ہے۔

ایران نے بھی اپنی گہری سمندری بندرگاہ کا افتتاح کر دیا ہے، لیکن اس کا گوادر بندرگاہ سے کسی طرح بھی موازنہ نہیں کیا جاسکتا،کیونکہ چین کی تمام برآمدات اور تیل کی نقل و حمل کا سارا دارو مدار گوادر بندرگاہ پر ہو گا۔

بڑے عالمی تجارتی اداروں مثلاً ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO)اور ورلڈ کسٹمز آرگنائزیشن (WCO) نے اپنی رپورٹس میں گوادر بندرگاہ کو جبلِ علی پورٹ کی نسبت خاصا اہم قرار دیا ہے، اس کی بنیادی وجہ دُنیا کی سب سے بڑی آبادی چین اور پاکستان کا اس بندرگاہ پر انحصار ہے۔ یہ بندرگاہ دونوں ممالک میں اشیاء اور خدمات کی مانگ کے باعث ملازمتوں کے فروغ کا موّجب بنے گی۔

یہی وجہ ہے کہ جرمنی ، فرانس اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک نے بھی سی پیک میں گہری دلچسپی ظاہر کر کے فعال شراکت داری کا عندیہ دیا ہے۔ دوسری طرف شفافیت کی بڑھتی ضرورت اور کرپشن کے خلاف پی ٹی آئی سمیت نئی سیاسی قوتوں کے پختہ عزم نے بدلتے منظر نامہ کی عکاسی کی ہے۔ کسی دانا ء نے کہا تھا ’’کبھی کبھی امید آپ سب ہوتے ہیں‘‘ ۔

اس مثبت پہلو سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ قائد کا پاکستان کے لئے دیکھا ہوا خواب شرمندۂ تعبیر ہونے کو ہے۔ اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے اپنی تمام تر مثبت توانائیوں کو یکجا کر کے اس خواب کو حقیقت آشنا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں جیسا کہ ہمارے عظیم قائد نے ہمارے بارے میں سوچا تھا۔

مزید :

رائے -کالم -