قائداعظمؒ کی طلباء سے محبت

قائداعظمؒ کی طلباء سے محبت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مَیں نے تحریک پاکستان میں ایک طالب علم کی حیثیت سے حصہ لیا ۔1937ء میں ایم۔اے ۔ او کالج میں فرسٹ ائیر کا طالب علم تھا ، جب ہندوستان میں نیشنلزم کا جادوسر چڑھ کر بول رہا تھا اور کانگریس جو نیشنلزم کی علمبردار تھی ، نوجوانوں کے ذہنوں پر چھائی ہوئی تھی۔ پنڈت نہرو نے نیشنلزم کے کے اثرات سے ہی فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ نعرہ بلند کیاتھا ، کہ ہندوستان میں صرف دو قومیں آباد ہیں، ایک انگریز ، دوسری ہندو، قائداعظمؒ نے اس کا بر وقت جواب دیا،اورکہا، نہیں، ہندوستان میں ایک تیسری قوم بھی ہے ، جو مسلم لیگ کے تحت منظم ہو رہی ہے۔ یہ جواب مسلم لیگ طلبہ کے دِل کی آواز بن گیا۔ اس جواب نے نہ صرف انہیں قائداعظمؒ کو اپنا لیڈر ماننے پر مجبور کیا، بلکہ ان کے اندر یہ احساس بھی بیدار ہوا، کہ مسلمان قوم کو بیدار کیا جائے ، اس غرض سے اسلامیہ کالج لاہور کے چیدہ چیدہ طلباء (جن میں سے جسٹس انوار الحق ، مولانا عبدالستار خاں نیازی ، حمید نظامی مرحوم ، ڈاکٹر عبدالسلام خورشید، م۔ش، ظہور عالم کے نام مجھے یاد ہیں)کی طرف سے اخبارات میں ایک اعلان شائع ہوا ،جس میں پنجاب کے مسلمان طالب علموں کو منظم کرنے کی ضرورت پر زوردیا گیا۔اس اعلان میں اپیل کی گئی تھی کی طلبہ اس مقصد کے لئے حمید نظامی (مرحوم)یا ڈاکٹر عبدالسلام خورشید سے رابطہ قائم کریں۔اس زمانے میں ’’ انقلاب‘‘،’’ زمیندار،’’ احسان‘‘ وغیرہ ہماری سپورٹ کر رہے تھے۔
اکتوبر1937ء میں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور کے سٹاف روم میں بعد از دوپہر پنجاب کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے طلباء کا پہلا باقاعدہ اجلاس ہوا ۔ ایم اے او کالج امرتسر کی طرف سے میں شریک ہوا ۔ ڈاکٹر تاثیر مرحوم اس زمانے میں ہمارے پرنسپل اور فیض احمد فیض ہمارے لیکچرار تھے۔ اگرچہ کالج کے دوسرے اساتذہ بھی تحریک پاکستان کے مخالف تھے لیکن یہ حضرات مخالفت میں بہت فعال تھے، پورے کالج میں صرف دو اساتذہ ایسے تھے جو کھل کر تحریک پاکستان کی تائید کرتے تھے۔ ایک جناب سید کرامت حسین جعفری (پرنسپل ایم ۔اے۔ او کالج لاہور) اور دوسرے جناب ڈی کے مقبل مرحوم جو فارسی کے لیکچرار تھے۔ یہ دونوں حضرات پاکستان کو اپنی آرزوؤں کا مرکز سمجھنے والے مسلمان طلباء کا بہت بڑا سہارا تھے۔ اکتوبر 1937ء میں منعقد ہو نے والے مذکورہ اجلاس کی صدارت م۔ش نے کی ۔ (جسٹس) انوار الحق جن کا ذکر اوپر آچکا ہے ۔ لاہور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پہلے صدرمنتخب ہوئے، وہ شاید پہلے مسلمان طالب علم تھے، جنہوں نے اکنامکس میں فرسٹ کلاس فرسٹ ایم اے کیا اور ریکارڈقائم کیا۔ ایک سال بعد ہی انہوں نے مقابلے کا امتحا ن دیااور آئی سی ایس منتخب ہو گئے۔
فیڈریشن کے قیام کے بعد حمید نظامی مرحوم اور دوسرے اراکان نے پنجاب کا دورہ شروع کیا۔۔۔ اور تین سال کے مختصرعرصے میں سٹوڈنٹس فیڈریشن طلباء کی فعال ترین جماعت اور مسلم لیگ کی دست و بازو بن گئی۔ 1940ء میں قراردادپاکستان منظور ہوئی اور 1941ء میں فیڈریشن نے ’’سپیشل پاکستان سیشن‘‘منعقدکرنے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے قائداعظمؒ سے رابطہ قائم کیا۔ مسلم لیگی قیادت کا خیال تھا کہ قائد اعظمؒ ان بچوں کی دعوت پر یہاں کہاں آئیں گے۔۔۔لیکن قائداعظمؒ نے دوسرے تیسرے خط ہی میں یہ لکھ دیا تھا کہ میں ضرور آؤں گا اور طالب علموں کا مہمان ہوں گا۔ کئی مسلم لیگی لیڈر ہم سے ملے کہ قائداعظمؒ کو ان کے ہاں ٹھہرایا جائے۔ نواب ممدوٹ مرحوم اور راجہ غضنفر علی مرحوم نے انہیں لکھا کہ ہمارے ہاں ٹھہریں، لیکن قائداعظمؒ نے جواب دیا۔’’میرا پراگرام طالب علموں کی مرضی پر منحصر ہے، وہ جہاں ٹھہرائیں گے ، وہیں ٹھہروں گا‘‘۔یک مجلس استقبالیہ قائم کی گئی ، جس کا میں بھی ایک رکن تھا ، دیگر ارکان میں خواجہ اشرف(آسٹریلیا بلڈنگ والے)،ظہور عالم شہید، سید محمد اصغر چیف ٹریفک آفیسر ریلوے (موصوف نے عربی میں فرسٹ کلاس ۔فرسٹ ایم ۔اے کیا اور ریکارڈقائم کیاتھا)،سکواڈرن لیڈر ایم۔ ایس ملک ،مسٹر یزدانی ملک، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کموڈر، سید نظیر ہاشمی شامل تھے۔
ایم۔اے میر مرحوم اور خواجہ اشرف صاحب نے چندہ اکھٹا کرنے میں بے حد سرگرمی دکھائی ۔ ریواز ہوسٹل کے طالب علموں نے فیصلہ کیا تھا کہ جتنے طالب علم باہر سے آئیں گے، وہ ہمارے مہمان ہوں گے اور ان کے تمام اخراجات ہمارے ذمے ہوں گے۔ مہمانوں کی کثرت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ یو پی تک کہ طلبہ شریک ہوئے۔قائداعظمؒ تشریف لائے، ریلوے سٹیشن میں اس قدر ہجوم تھا کہ انہیں ڈبے سے نکالنا مشکل ہو رہا تھا، خواجہ اشرف صاحب انہیں لینے کے لئے آگے بڑھے اور جھک کر ہاتھوں کو بوسہ دیا۔ قائداعظمؒ کا چہرہ یک لخت متغیر ہو گیا، انہوں نے نہایت شفقت سے کہا:
Do not do that, do not bow before me,Bow only before God
(ایسا مت کیجئے ، میرے سامنے مت جھکیے ،
صرف خدا کے سامنے جھکیے)
سیشن نہایت کامیاب رہا ، قائد اعظمؒ نے یکم مارچ 1941ء کو اسلامیہ کالج کے طلبہ سے خطاب کیا، اپنی اسی تقریر میں انہوں نے یہ تاریخی جملے کہے تھے۔
Gentle men today is Ist March, March: March on, March on.
ہم نے انہیں فلیٹیز میں ٹھہرایا۔ انہوں نے چار پانچ دن قیام کیا۔اس دوران ہمیں قائداعظمؒ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔مَیں ان کی مسحور کن شخصیت سے بے حد متاثر ہوا، وہ بڑے راست باز تھے۔ کسی با ت کو چھپا کر نہیں رکھتے تھے، اپنے مقصد کو صاف صاف بیان کرتے تھے ، خلو ص اور اپنے مقصد سے لگن کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔ مَیں جب گاندھی کے ان الفاظ پر غور کرتا ہوں کہ ایک غیر مسلم نے جو ان کا بد ترین مخالف بھی تھا، ہمارے قائد کے بارے میں کتنی صحیح رائے قائم کی تھی:
Quaid-e-Azam is unpurchaseable Muslim should be proud of such leader
’’قائداعظمؒ کو خریدا نہیں جا سکتا ، مسلمانوں کو اپنے لیڈرپر فخر کرنا چاہئے‘‘
جانے سے پہلے قائداعظمؒ نے ہمیں بلایا کہ آپ آ جائیں ، ہم فلیٹیز پہنچے اور سب سے پہلے منیجر کے پاس گئے تاکہ بل ادا کر سکیں، لیکن منیجرنے یہ کہہ کہ حیرت میں ڈال دیا :’’قائداعظمؒ نے بل ادا کر دیا ہے‘‘۔
ہم ان کی خدمت میں پہنچے اور ڈرتے ڈرتے عرض کیا کہ آپ نے یہ کیا کیا؟
انہوں نے جو، جواب دیا وہ مجھے ابھی کل کی طرح یاد ہے:’’مَیں ایسا سیاست دان نہیں ہوں جو اپنی جیب سے خرچ نہ کر کے مسلمان قوم کی مدد کرے‘‘۔
قائداعظمؒ سے کئی بار ملاقات ہوئی ، ان کا موقف بالکل واضح تھا کہ قومیت کی ہر تعریف کی روسے مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں ، لہٰذا انہیں ایک علیحدہ وطن کی ضرورت ہے ۔ مجھ جیسا شخص ان سے بحث مباحثے کی جرأت نہیں کر سکتا : وہ بڑے سے بڑے شخص کو چند ساعت میں لاجواب کر دیتے۔ 42ء سے لے کر 47ء تک کا زمانہ بہت نازک تھا ، پنجاب میں یونینسٹ پارٹی کی حکومت تھی ۔ مسلم طلبہ نے قائداعظمؒ کے پیغام کو قریہ قریہ پہنچا دیا ، جو کام مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے کیا ، وہ کوئی بڑی سے بڑی جماعت بھی نہیں کر سکتی تھی۔ اگر فیڈریشن لوگوں کو منظم نہ کرتی ، تو پنجاب میں جہاں یونینسٹ پارٹی کی حکومت تھی ،46ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو 95فیصدنشستیں نہ ملتیں۔
قائداعظمؒ کے تمام طلبہ پر بالعموم اور پنجاب کے طلبہ پر بالخصوص اعتماد کا یہ عالم تھا کہ پنجاب کی سیاست میں جب بھی کوئی اہم موڑآتا ۔ تو فوراً فیڈریشن کے سرکردہ ارکان کو دہلی طلب کرتے اور ان سے مشورہ کرتے اور سیاست دان کی رائے پر ہمیشہ ان طلبہ کی رائے کو ترجیح دیتے۔ ڈاکٹر ضیاء الاسلام اور حمید نظامی( مرحوم) اس سلسلے میں قابل ذکر ہیں۔
میں سمجھتا ہوں اگر آپ میں بھی وہی لگن ، ایثار اور خلوص پیدا ہو جائے جو سب سے پہلے ہمارے قائد کی ذات میں بدرجہ اتم موجود تھا اور جسے انہوں نے ہم نوجوانوں میں منتقل کر دیا تھا ، تو سب کام سنور سکتے ہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ وہ جذبہ پاکستان بنتے ہی سرد کیوں پر گیا،جس نے اسلامیان ہند کو ایک پرچم تلے لا کھڑا کیا تھا؟مجھے اس کے سوا کوئی جواب نہیں سوچتا کہ قائداعظمؒ کے نزدیک پاکستان بذات خود مقصد نہ تھا ، بلکہ کچھ اور مقاصدکے حصول کا ذریعہ تھا۔ قائداعظمؒ کی زندگی نے وفا نہ کی اور ان کی جانشین قیادت، مقاصد کے تعین میں ناکامی کے بعد قوم کوکوئی لا ئحہ عمل نہ دے سکی، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ولولہ سرد پڑ گیا۔
آج کے نوجوان کو شاید خبر نہ ہو کہ پاکستان کن حالات میں بنا تھا ، لیکن مَیں پوچھتا ہوں کہ وہ ایک لاکھ مائیں ، بہنیں اور بیٹیاں کس کی تھیں ؟جنھیں لاکھوں فرزندان توحید اور اس مقدس سرزمین تک پہنچنے کے لئے خون کے دریا عبور کرتے ہوئے ہندو اور سکھ غنڈوں کی درندگی کی نظر کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔نئی نسل کو پاکستان کی قدرو قیمت کا احساس دلانے کے لئے ان تلخ حقائق اور اس سارے پس منظر کو بتانے کی ضرورت ہے ۔نئی نسل کوجگاؤ کہ یہی وقت کا اہم ترین تقا ضا ہے۔

مزید :

ایڈیشن 1 -