تخلیقِ پاکستان ۔۔۔قائداعظمؒ کا عدیم المثال کارنامہ

تخلیقِ پاکستان ۔۔۔قائداعظمؒ کا عدیم المثال کارنامہ

  

آزاد ملتِ اسلامیہ کے خلاف انگریزوں ‘ ہندو ؤں اور قوم پرست مسلمانوں کامتحدہ محاذتھا اور قائداعظمؒ کو ان تینوں سے بیک وقت نپٹنا تھا۔ یہ ان کی فراست ‘ سیاسی بصیرت اور ہمت تھی کہ انہوں نے بے جگری کے ساتھ ان تمام طاقتوں کامقابلہ کیا اور منزلِ مقصود پر پہنچ کر ہی دم لیا۔

1937ء کے انتخابات کے بعد کانگریس پارٹی کی بنائی ہوئی وزارتیں قائم ہوئیں تو مسلمانوں نے دیکھ لیا کہ جن صوبوں میں کانگریس کی حکومت تھی وہاں اقلیتوں کا کیا حشر ہوا۔ اس وقت سے مسلمانوں پر یہ حقیقت واضح ہونا شروع ہوئی کہ مسلمان ہندو ؤں کے ساتھ رہ کر اپنا انفرادی تشخص کھو بیٹھیں گے اس لیے ناگزیر ہے کہ مسلمانوں کی ایک علیحدہ مملکت ہو جہاں وہ اپنے مذہب ‘ نصب العین ‘ تہذیب اور قدارِ عالیہ کی حفاظت کرسکیں اور ان کے مطابق اپنی زندگی استوار کر یں۔

تاریخ عالم شاذو نادر ہی کوئی ایسی مثال پیش کر سکتی ہے کہ ایک فردِ واحد کی جدو جہد اور بے نظیر قیادت نے ایک پوری قوم کی تقدیر بدل ڈالی ہو۔ جن نا مساعد حالات سے اس برصغیر میں رہنے والے دس کروڑ مسلمانوں کو بیسویں صدی کے نصف اول میں سابقہ تھا ان کو دیکھتے ہوئے کون کہہ سکتا تھا کہ یہ قوم اس دنیا میں کوئی باعزت مقام حاصل کر نا تو کجا اپنی ہستی بھی برقرار رکھ سکے گی۔ ایک طرف انگریز تھے جو جدید ترین علوم و فنون سے واقفیت کے باعث صنعت و حرفت کے میدان میں دوسری قوموں سے آگے تھے‘ جو اپنی قوت کے بل پر ایشیا ‘ افریقہ اور آسٹریلیا کے براعظموں میں بڑے بڑے علاقوں پر قابض تھے او رمسلمانوں سے ہندوستان کی حکومت چھین لینے کے بعد ان کو اپنا حریف سمجھتے اور ہر طرح سے بے دست و پا بنا کر رکھنے میں اپنی عافیت سمجھتے تھے۔ دوسری طرف ہندو قوم کے باشندے تھے جو بڑی اکثریت میں ہونے کے باوجود کئی صدیوں سے مسلمانوں کے محکوم تھے اور جو انگریزوں کی آمد کو اپنی نجات کا باعث سمجھتے تھے اور ان کی سرپرستی میں ملکی معیشت کے تمام شعبوں خصوصاً زراعت ‘ تجارت ‘ صنعت وحرفت اور سرکاری ملازمتوں پر پوری طرح حاوی ہو چکے تھے ۔ ہندو جان توڑ کوشش کر رہے تھے کہ مسلمانوں کو کسی شعبے میں کوئی حصہ ملنے نہ پائے۔ وہ تو مسلمانوں کی سخت جانی تھی جو ان کو اس دوہری سازش میں نیست و نابود ہونے سے بچا لے گئی‘ ورنہ مخالفین نے اپنی طرف سے کوئی کسر اُٹھانہیں رکھی تھی۔

ایک تیسری قوت جو مسلم امہ ہند کے خلاف کام کر رہی تھی وہ خود ان کا اپنا اندرونی انتشار تھا ۔ جیسا کہ ہر قوم کے دورِ انحطاط میں ہوا کرتا ہے‘ْ مسلمانوں کی مختلف جماعتیں اس بے چارگی کے عالم میں بھی ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار تھیں اور اس طرح گویا مسلم قومیت کی جڑ کا ٹنے میں مصروف تھیں۔ مسلمانوں کا ایک بااثر گروہ مختلف وجوہات کی بنا پراربابِ حکومت کے دربار میں رسوخ حاصل کر چکا تھا اور اپنے ذاتی مفاد کی خاطر حکمرانوں کے اشاروں پرچل رہاتھا۔ ایک دوسری جماعت وطنیت اور مشترکہ قومیت کے نام پر ہندوؤں کا ساتھ دے رہی تھی اور ان کے ہاتھوں میں کھیل کر پوری امت کے مفاد کے خلاف عمل پیرا تھی۔ غرض اتنی مختلف اور اس قدر بڑی طاقتیں تھیں جو ایک شکست خوردہ اور مفلوک الحال ملت کے خلاف نبر د آزما تھیں اور اس کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا تہیہ کر چکی تھیں۔ اس حالت کا اندازہ کچھ وہی لوگ پوری طرح لگا سکتے ہیں جن کی پیدائش جنگِ بلقان کے زمانے میں ہوئی‘ جن کا لڑکپن پہلی جنگِ عظیم کے بعد ترکی اور دوسرے اسلامی ممالک کی مغربی طاقتوں کے خلاف کشمکش اور بر صغیر میں فرقہ وارانہ فسادات کی پھیلتی ہوئی آگ کے درمیان گزرااورجنہیں جوان ہو کر دوسری جنگِ عظیم کی ہولناکی اور تقسیمِ ہندکے بعد کی خونریزی اور تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ جب ہماری عمر کے لوگوں نے ہوش سنبھالا تو پورے بر صغیر میں تحریکِ خلافت زوروں پر تھی اور اس وقت اس تحریک اور اس کے رہنماؤں کے مقابلے میں کانگریس کی تنظیم اور اس کے لیڈروں کی کوئی حیثیت نہ تھی۔

ملک میں ہر طرف مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی کی شہرت پھیلی ہوئی تھی اوران کا نام زباںِ زدِ خاص و عام تھا۔ اسی زمانے میں سناگیا کہ مسٹر جنا حؒ مسلمانوں اور ہندو ؤں میں سیاسی اتحاد قائم کر نے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے بعد جب ترکِ موالات کی تحریک شروع ہوئی تو علی برادران اور دوسرے مسلم رہنمااس کی قیادت کر رہے تھے اورحقیقت یہ ہے کہ ابتدا میں مسلمانوں کی تائید کی وجہ سے ہی یہ تحریک بڑی حد تک کامیاب ہو ئی اور آندھی کی طرح سارے ملک میں پھیل گئی۔ 1922ء میں جب سربرآوردہ ہندوؤں کو اندیشہ ہوا کہ اس تحریک کی کامیابی کے تحت مسلمانوں کو زیادہ فائدہ ہو گا تو انہوں نے اس تحریک کو سرے سے ملتوی کرنا ہی مناسب سمجھا۔ اس کے بعد ہندو مسلم اختلافات اور بھی شدید ہو گئے اور آئے دن فرقے وارانہ فسادات ہونے لگے۔ اس وقت مولانا محمد علی اور ان کے رفقا ء نے یہ محسوس کیا کہ ہندو لیڈر مخلصانہ طور پر مسلمانوں کا ساتھ نہیں دے رہے بلکہ مسلمانوں کی مدد سے انگریزوں کو نکالنے کے بعد پورے ملک پر بلا شرکت غیرے قابض ہوجانا چاہتے ہیں۔ ان حالات میں مولانا اوردوسرے مسلم رہنماؤں کے لیے کانگریس سے دور ہونے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ پہلی راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے لیے جب مولانا محمد علی لندن تشریف لائے تھے تو راقم الحروف کو بھی ان کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا تھا اور انہی کی زبانی اس صورتِ حال سے آگاہی ہوئی تھی۔ یہ پسِ منظر تھا جس میں قائداعظمؒ کو راؤنڈٹیبل کانفرنس کے بعدملتِ اسلامیہ ہند کی قیادت سنبھالنے پر مجبور کیاگیا۔ اسلامی تاریخ میں یہ منظر بھی دیکھا گیا ہے کہ اجتماعی زندگی کے کسی بڑے نازک مرحلے پر مشیتِ ایزدی ایک ایسے نجات دہندہ کو سامنے لاتی ہے جس کا عام طور پر وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ ایسے ہی موقع کے لیے کہا گیا ہے ۔

عمردے از غیب بروں آید و کارے بہ کندکون کہہ سکتا تھا کہ انگلستان کے تعلیم یافتہ ‘ انگریزی طرزِ معاشرت سے بڑی حدتک متاثر اور لندن مستقل طور سے اقامت گزین مسٹر جناحؒ اپنی آسائش اور اطمینان کے ساتھ بسرہونے والی زندگی کو ترک کر کے شدید ترین سیاسی کشمکش میں کود پڑنے اور انگریزی حکومت اور برہمنی عصبیت دونوں سے ٹکر لینے پر آمادہ ہو جائیں گے۔اور پھر جب انہوں نے عنانِ قیادت سنبھالی تو دنیا نے دیکھا کہ کس طرح ایک قلیل مدت میں ایک منتشر اور سرگرداں قوم ایک مرکز پر منظم ہو گئی اور پھر دنیا کی سب سے بڑی آزاد ‘ خود مختاراسلامی ریاست وجود میں آئی۔ جیسا کہ میں نے ابتدا میں عرض کیا ہے ‘ تاریخ میں ایسی کوئی مثال مشکل ہی سے ملے گی ۔ غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ مسلمانوں کی متحدہ مملکت کا قیام در حقیقت آزادئ ہند سے بھی بڑا کارنامہ ہے۔اس لیے کہ ہندوستان کوآزاد کرانے کے لیے ساری قوتیں ایک ساتھ کام کر رہی تھیں لیکن ملتِ اسلامیہ کے خلاف انگریزوں ‘ ہندو ؤں اور قوم پرست مسلمانوں کامتحدہ محاذتھا اور قائداعظمؒ کو ان تینوں سے بیک وقت نپٹنا تھا۔ یہ ان کی فراست ‘ سیاسی بصیرت اور ہمت تھی کہ انہوں نے بے جگری کے ساتھ ان تمام طاقتوں کامقابلہ کیا اور منزلِ مقصود پر پہنچ کر ہی دم لیا۔

جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ قائداعظمؒ کا کردار اور ان کی دیانتداری اس قدر مسلمہ تھی کہ ان کا بڑے سے بڑا مخالف بھی اس کا معترف تھا۔ وہ خود بھی ان صفات کے حامل تھے اور دوسرے لوگوں کو بھی جن سے ان کا سابقہ پڑتا تھا ان صفات سے متصف دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ انگریزوں کو ایک معتصب مزاج قوم سمجھتے تھے اور انگریزی عدل و انصاف اورغیر جانبداری ، اعلیٰ عہدیداروں کا طرزِ عمل اور ہندوؤں کی موافقت میں صریح جانبداری کو دیکھا تو انہیں ایسا صدمہ پہنچا اوروہ ایسے دل شکستہ ہوئے کہ پھر اس صدمے سے جانبر نہ ہو سکے۔ مسلمانوں میں جو فرقہ بندی ہے قائداعظمؒ اس سے قطعاً متاثر نہ تھے اور خود کو کسی قسم کی جانبداری میں ملوث کر نے سے انتہائی پرہیز کرتے تھے۔ اس واقعے کی اطلاع شاید کم لوگوں کو ہو کہ آزاد ی سے پانچ چھ سال قبل مسلمانوں کے دوفرقوں میں ایک معاملے پر شدید اختلاف رونماہوااور بات انگریزی عدالت تک جا پہنچی ۔ چونکہ معاملہ فوجداری نوعیت کا تھا اورجو صاحب اس میں ماخوذ تھے وہ ایک فرقے کے پیشوا تھے اس لیے اس فرقے کے لوگوں نے انہیں وکیل مقررکر نا چاہا یہاں تک کہ ایک امیر کبیر نے بڑی خطیر رقم جو کئی لاکھ روپوں پر مشتمل تھی بطور فیس پیش کی لیکن قائداعظمؒ نے اس مقدمے میں کسی فریق کی جانب سے پیروی کرنا پسند نہیں کیا اور صاف طو ر پر انکار کر دیا۔

مزید :

ایڈیشن 1 -