سوچ سے رویے جنم لیتے ہیں، رویوں سے معاشرہ بنتا ہے
ہمارا ذہن خیالات بنانے کی مشین ہے جس میں ہر وقت کوئی نہ کوئی خیال بنتا اور ٹوٹتا رہتا ہے۔ ہم کچھ نہ کچھ سوچتے ہی رہتے ہیں، کبھی اچھا کبھی برا، کبھی مثبت اور کبھی منفی۔ مثبت سوچ کا نتیجہ مثبت نکلتا ہے۔
کامیاب زندگی، مثبت سوچوں اور رویوں جب کہ ناکام زندگی منفی سوچوں اور رویوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ سوچ انسانی ذہن پر اس حد تک اثر انداز ہوتی ہے کہ کوئی بھی انسان اپنی قسمت خود بنا سکتا ہے۔ زندگی کا ہر منظر سوچ سے جنم لیتا ہے اور سوچ پر ہی ختم ہوتا ہے۔ ایک منفی سوچ کا حامل شخص منفی عمل کو جنم دیتا ہے جبکہ مثبت سوچ کا حامل شخص تعمیری فعل انجام دیتا ہے۔
ہماری زندگی پر ہماری سوچ اور خیالات مستقل طور پر اثر انداز ہوتے ہیں، شیکسپیئر نے کہا تھا کہ ’’ہم وہ نہیں ہوتے جو کرتے ہیں بلکہ ہم وہ ہوتے ہیں جو سوچتے ہیں۔‘‘ یعنی اگر آپ یہ سوچیں کہ آپ کوئی کام کر سکتے ہیں تو آپ کر سکیں گے اور اگر آپ سوچتے ہیں کہ آپ نہیں کر سکتے تو کچھ بھی کر لیں آپ وہ کام نہیں کر سکیں گے۔ مثبت اور منفی خیالات انسان کے ذہن میں ہر وقت آتے رہتے ہیں، اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ انسانی ذہن پر ہر لمحہ سوچوں کا غلبہ رہتا ہے اور انسان کی زندگی کے بیشتر زاویے اس کی ذہنی سوچ سے جنم لیتے ہیں۔ اسی سوچ و فکر سے انسانی جذبات کی آبیاری ہوتی ہے اور ان جذبات کی بنیاد پر ہی انسان کا ہر عمل ہمارے سامنے آتا ہے۔ سوچ سے خیال، خیال سے نظریہ، نظریہ سے مقصد، مقصد سے تحریک، تحریک سے جستجو اور جستجو سے کامیابی جنم لیتی ہے۔ ہمارے ذہن کے سوچنے کا انداز دو طرح کا ہوتا ہے۔
ایک منفی اور دوسرا مثبت۔ مثبت سوچ ہمیشہ انسان کو کامیابی کی طرف لے جاتی ہے جبکہ منفی سوچ ناکامی اور نامرادی کی طرف دھکیلتی ہے اور زندگی کی چمک دمک کو تاریکی کی سیاہیوں میں بدل دیتی ہے۔ وہ سوچ جو آپ کو یا آپ سے جڑے لوگوں کو خوشی یا فائدہ دے مثبت سوچ ہے، اور وہ سوچ جو آپ کو یا آپ سے جڑے لوگوں کو پریشانی یا نقصان پہنچائے وہ منفی یا غلط سوچ ہے۔
مثبت سوچ یا عمل سے مراد ہر وہ کام ہے جس سے ترقی ہو، بلندی کی جانب پیش قدمی ہو، منزل کا حصول ہو، بہتری ہو، فلاح و بہبود ہو، تعمیر ہو۔ اس کے برعکس منفی عمل سے مراد ہر وہ فعل ہے جس میں حقیقی نقصان ہو، تنزلی ہو، منزل سے دوری ہو۔
مثبت اور منفی عمل ہماری سوچ پر منحصر ہوتا ہے یعنی منفی یا مثبت خیالات کے ذریعے ہی انسان سے مختلف عمل سرزد ہوتے ہیں۔ مثبت سوچ سے انسان کے اندر مثبت رویہ پیدا ہوتا ہے۔ اس کی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ذہن میں خیالات کا پیدا ہونا قدرتی عمل ہے مگر ان خیالات کو عملی جامہ پہنانا تو انسان کے اپنے اختیارمیں ہوتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مثبت سوچ ہی کسی فرد کی شخصیت کو ابھارنے اور سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
یوں سمجھ لیجئے کہ مثبت سوچ کامیابی کی وہ سیڑھی ہے جس پر قدم رکھنے والا انسان کامیابی کی منزل پا لیتا ہے۔ مثبت طرز فکر وعمل کا انجام کامیابی اور منفی کا انجام ناکامی ہے خواہ اس کا تعلق دنیا سے ہو یا آخرت سے ہو۔
اب سوچ کی اس تمہید کے بعد ہم اپنے وطن عزیز میں بسنے والوں کی سوچ اور ذہن کے متعلق ذرا سوچتے ہیں۔ اس خاکسار نے چونکہ اب تک کی زندگی کا 45% حصہ ایک ایسے خطے میں گزارا ہے جہاں 90% سے زیادہ لوگ مثبت سوچتے ہیں۔ اور کسی فوق العقل چیز پر یقین کرنے کی بجائے اپنے اعمال پر یقین رکھتے ہیں اور اپنے افعال کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ ہر وقت مثبت سوچتے ہیں۔ سچ بولتے ہیں اور دوسروں پر اعتبار کرتے ہیں۔ غلطی ہو جائے تو بہت جلد معذرت کر لیتے ہیں۔
قانون سے ماورا کوئی کام نہیں کرتے۔ جس بھی ادارے یا شعبے سے منسلک ہوتے ہیں وہاں سو فیصد ایمانداری سے اپنا کام اپنے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے دیانتداری سے سر انجام دیتے ہیں۔
لہذا میں جب اپنے وطن میں کچھ لوگوں کے رویوں کو دیکھتا ہوں تو میرا ردعمل زیادہ ہوتا ہے اور بعض اوقات مجھے اپنے ردعمل کی قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔ مجھے اکثر یہ بات سننے کو ملتی ہے کہ بھئی آپ کی سوچ بہت اچھی ہے لیکن یاد رکھو اب آپ پاکستان میں ہیں، یہ پاکستان ہے یہاں اچھی سوچ رکھنا نقصان دہ ہے۔ اسی بات کی مجھے تکلیف ہوتی ہے کہ ہم باقی دنیا سے اپنے ہی وطن (جس کا ہمارا دعوی ہے کہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا تاکہ ہم اسلامی قوانین اور اصولوں کو آسانی سے لاگو کر سکیں) برا کیوں سمجھتے ہیں؟ ہم اپنے کرتوتوں، اپنے رویوں اور اپنے اعمال کو اس پاک سر زمین پر کیوں تھوپ دیتے ہیں۔ مجھے سب سے زیادہ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب میں اس طرح کے منفی کلمات ان لوگوں کے منہ سے سنتا ہوں جو بڑے بڑے عہدوں پر برا جمان ہیں۔ جن کے ہاتھ میں ہمارے لوگوں کی تقدیر کی رسی پکڑا دی گئی ہے۔
آپ غور کریں کہ ہمارے سیاستدان عوام سے ووٹ لینے کے لیے کیسے کیسے وعدے وعید کرتے ہیں اور دل میں عوام کے بارے کیسی رائے رکھتے ہیں، عوام بھی جن کو جوق در جوق ووٹ دینے آتے ہیں بعد میں انہی کو مغلظات سے نوازتے ہیں۔ آپ کسی تھانے میں کوئی رپورٹ درج کرانے چلے جائیں تھانے والوں کو یقین ہوتا ہے کہ ہم جھوٹ بول رہے ہیں۔
اور ہمیں بھی یقین ہوتا ہے کہ تھانے والے کبھی بھی درست کام نہیں کریں گے جب تک کہ ان کی جیب گرم نہ کی جائے۔ بلکہ اب تو جیب گرم کر کے بھی کچھ بھروسہ نہیں ہوتا کیونکہ تھانے والے آج کل بولی پر بکتے ہیں۔
کوئی بھی مقدمہ عدالت میں جب جاتا ہے تو عدالت تھانے والوں کے لکھے پر ایک فیصد بھی یقین نہیں رکھتی اور سارا دارومدار ان گواہوں پر کرتی ہے جو 95% جھوٹے ہوتے ہیں۔ یعنی وہ وقوعہ کے وقت وہاں موجود ہی نہ تھے۔ کسی وکیل کے پاس چلے جائیں وہ سب سے پہلے اپنے کلائنٹ کو جھوٹ پر مبنی کہانی بنانا سکھائے گا کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ سچ بول کر انصاف نہیں ملتا۔
ہمارے بازاروں میں کوئی دکاندار سچ نہیں بولتا کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ یہاں سچ کا سودا صرف گھاٹے کا ہے۔ کالم کی طوالت سے بچنے کے لیے انہی چند مثالوں پر اکتفا کرتے ہوئے میں اپنے ہم وطنوں کو دعوت دیتا ہوں کہ آو آج سے سچ بولیں اور سچ کو سچ ثابت کریں چاہے اس کے لیے کتنی بھاری قیمت ہی کیوں نہ ادا کرنا پڑ جائے۔ آو ایک دوسرے پر اعتبار کریں اور اپنا اعتبار قائم کریں۔
آو سچ کا ساتھ دے کر سب کو سچ بولنے پر مجبور کر دیں، آو اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لا کر اپنے معاشرے کو مثبت سمت میں لے جائیں۔ یہ سب ممکن ہے۔ ذرا کر کے تو دیکھیں۔ ہم دوسروں کی بات ان پر چھوڑیں، اپنی ذمہ داریاں پوری کریں خود کو مثبت کریں۔