ریگستان میں گلستان...!!!
وطن عزیز کی کسی دانش گاہ میں مدت بعد حاضری کا شرف ملا...قابل صد احترام اساتذہ کرام کی صحبت میں بیٹھ کر دل و دماغ معطر ہو گئے... اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے وائس چانسلر جناب پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کا شکریہ کہ انہوں نے اپنے ہاں مدعو کیا اور عزت دی...لاہور کی میڈیا انڈسٹری میں کئی برس بتانے والے برادرم ڈاکٹر جناب جام سجاد حسین نے اس دو روزہ "مجلس" کا "خاکہ" بنایا جبکہ ڈائریکٹر میڈیا اینڈ کمیونیکیشن جناب شہزاد خالد اور پروٹوکول آفیسر جناب فیضان شیخ نے اس "خاکے" میں رنگ بھر کر اسے یادگار بنا دیا...
اپنے صحافی دوست جناب محمد عبداللہ کی "امارت "میں خاکسار کے علاوہ سنئیر کالم نگار برادرم جناب خالد منہاس،فواد اعظم،ثقلین،اظہار الحق واحد،شفیق بھٹی اور عادل کے ساتھ داتا کی نگری سے نواب آف بہاول پور کی ریاست کے لیے رخت سفر باندھا...ملتان کے شاہ شمس تبریز انٹرچینج سے ندیم شاہین اور جاوید کریم کو لیا اور سہ پہر سوا چار بجے اسلامیہ یونیورسٹی کے عباسیہ کیمپس پہنچ گئے..."ہلکی پھلکی ریفریشمنٹ" کے بعد نور محل چل دیے...واپسی پر لذیذ کھانے کا لطف اٹھایا...ڈنر کے بعد جامعہ کے پہلے سربراہ مولانا گھوٹوی سے منسوب ہال میں "صوفی نائٹ" سجی...بہاول پور کے نامور گلوکار استاد شرافت خاں اور نادیہ گل نے سماں باندھ دیا...بیگانی شادی میں "عبداللہ دیوانہ" تو سنا تھا لیکن اپنے لیے سجی اتنی خوب صورت محفل میں "اپنے عبداللہ صاحب" کو پہلی مرتبہ" دیوانہ" ہوتے دیکھا...اگلے روز سنٹرل لائبریری بہاولپور اور شہر کا وزٹ تھا...بہاول پور شہر دیکھ کر پتہ چلا کہ اصلی نواب اور" نوابی شوق والے نوابوں" میں کتنا فرق ہوتا ہے...تاریخی اسلامیہ یونیورسٹی،صادق ایجرٹن کالج،وکٹوریہ ہسپتال،سنٹرل لائبریری،نور محل اور بہت کچھ ایک عوامی حکمران کی گواہی دے رہا تھا ...جدھر نظر اٹھی نواب صاحب کا ترقی پسند چہرہ نظر آیا...
بلا شبہ نواب سر صادق محمد خاں عباسی کی پاکستان اور بہاول پور کے لیے خدمات ناقابل فراموش ہیں...وہ "قائد اعظم سکول آف تھاٹ" سے تعلق رکھنے والے لیڈر تھے.. .انہوں نے وطن عزیز اور اپنے شہر کے لیے سب کچھ وقف کر دیا...جام سجاد نے بتایا کہ یہاں لوگ نواب صاحب سے اتنی عقیدت رکھتے ہیں کہ کوئی ان کے سامنے نواب صاحب کیخلاف ایک لفظ نہیں بول سکتا...وہی بات جو اشفاق احمد نے کہی تھی کہ ہم میں زندہ وہی رہے گا جو دلوں میں زندہ رہے گا اور دلوں میں وہی زندہ رہتے ہیں جو خیر بانٹتے ہیں..۔
اسلامیہ یونیورسٹی کا بغداد الجدید کیمپس دیکھ کر تو حیرتوں کا جہان کھل جاتا ہے کہ ریگستان میں گلزار کیسے مہکا....جنگل میں منگل کیسے ہوا؟؟؟خیال آیا کہ شاید یہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ اور جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ ایسے جلیل القدر اولیائے کرام کے شہر بغداد سے نسبت کی برکت ہے کہ کسی زمانے میں بغداد بھی علم و دانش کا مرکز ہوا کرتا تھا...دھیمے اور میٹھے لہجے والے ڈائریکٹر میڈیا شہزاد خالد نے کیمپس ٹور کے دوران گاڑی میں کھڑے ہو کر ایک "گائیڈ" کی طرح یونیورسٹی بارے آگاہی دی...انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی کا بغداد الجدید کیمپس ساڑھے بارہ سو ایکڑ پر محیط ہے...فیکلٹی آف لا کے علاوہ پوری یونیورسٹی ہی اس کیمپس می آباد ہے...رحیم یار خان اور بہاول نگر کیمپس بھی خوب پھل پھول رہے ہیں...وائس چانسلر اطہر محبوب" جدید یونیورسٹی" کے معمار ہیں...ان کے دور میں یونیورسٹی کی رینکنگ بڑھی...صرف ایک سال میں طلبا کی تعداد 13ہزار سے 50ہزار سے زائد ہو گئی جن میں 40فیصد لڑکیاں ہیں...14فیکلٹیز اور129ڈیپارٹمنٹس میں 12سو اساتذہ ہیں جن میں 600کے قریب پی ایچ ڈی ہیں... ہونہار طلبا کو برٹش کونسل اور یو ایس ایڈ سمیت 800سکالرشپ مل رہے ہیں...یونیورسٹی بسیں60کلومیٹر تک پک اینڈ ڈراپ دے رہی ہیں...
انہوں نے بتایا کہ کسی بھی یونیورسٹی میں پہلا نرسنگ کالج جناب اطہر محبوب کا "برین چائلڈ "ہے جو کورونا بحران کے دوران ان کے دماغ سے پھوٹا...کالج کے پہلے بیج میں 75سٹوڈنٹس بی ایس نرسنگ کر رہے ہیں... اسلامیہ یونیورسٹی کا سکول سسٹم بھی پنجاب کی کسی سرکاری یونیورسٹی کا پہلا خوب صورت "سکول ورژن" ہے .۔.یہ فرنچائز سسٹم ہوگا جو "کمرشل ازم "کے مہنگے بازار میں قدرے سستا تعلیمی نیٹ ورک ہوگا...سٹیٹ آف دی آرٹ کالج آف بزنس ایڈمنسٹریشن،کالج آف فائن آرٹس کی ہاکڑہ آرٹ گیلری، ڈائریکٹوریٹ آف انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی اور ڈییارٹمنٹ آف میجمنٹ سائنسز بھی قابل دید اور قابل تعریف ہیں..شہزاد خالد نے بتایا کہ سات ایکڑ پر محیط "سولر سسٹم" بھی کسی یونیورسٹی کا پہلا منفرد منصوبہ ہے جس سے اڑھائی میگا واٹ بجلی پیدا ہورہی ہے اور اس سے جامعہ کو سالانہ 12کروڑ کی بچت ہو رہی ہے...ڈائریکٹر کیرئیر کونسلنگ جناب شاہد درانی، میجمنٹ سائنسز کی محترمہ ڈاکٹر ثمر فہد اور محترمہ ڈاکٹر کلثوم اختر،پرنسپل نرسنگ کالج پروفیسر ڈاکٹر فرحان مختار، پروفیسر ڈاکٹر انا رانا اور پروفیسر ڈاکٹر عدیلہ قیوم، ڈائریکٹر آئی ٹی ڈاکٹر رضوان مجید،اسلامیہ سکول سسٹم کے ڈائریکٹر عبدالصمد اور محترمہ خزانہ دار نے اپنے شعبوں میں خوش آمدید کہا اور بریفنگ دی...
تعارفی نشست میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے عالی دماغ وائس چانسلر جناب پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب نے صرف اڑھائی سال میں اس تعلیمی انقلاب کی کہانی سنائی تو سب انگشت بدنداں رہ گئے...صحافتی وفد کا وائس چانسلر صاحب سے" مشترکہ سوال "تھا کہ اتنے مختصر عرصے اتنا بڑی تبدیلی کیسے ممکن ہوئی؟کہنے لگے جب یہ خوف اندر سے نکال دیا کہ کام کیا تو لوگ اعتراض کرینگے تو پھر منزل آسان ہوگئی۔..یہ کرینگے تو وہ ہو جائے گا وہ کرینگے تو یہ ہو جائیگا...یہی کنفیوژن ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے... میں نے اپنے اختیارات کے اندر سب کچھ کیا اور شاندار نتیجہ مل گیا...اطہر محبوب صاحب کا خاندانی" پس منظر "ان کے روشن "پیش منظر "کا غماز ہے...ان کا" شجرہ" بھی" قائد اعظم سکول آف تھاٹ "والے لوگوں سے ملتا ہے... جناب اطہر محبوب کے نانا سید محمد رضوان اللہ قائد اعظم کے معتمد خاص اور تحریک پاکستان کے سرگرم رہنما تھے. ..قائد اعظم سے ان کا تاریخی مکالمہ بھی ہمیشہ زندہ رہے گا .۔.انہوں نے بانی پاکستان سے کہا کہ اگر بنگال اور پنجاب تقسیم ہوئے تو مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد ہندوستان رہ جائے گی...ان کی نمائندگی کون کرے گا؟ قائداعظم نے کہا کہ آپ ہندوستان رہ جائیں اور اُن مسلمانوں کی نمائندگی کریں...وہ قائد کے حکم پر بھارت ہی ٹھہر گئے اور پھر گاندھی کے قتل پر ہجرت کے لیے مجبور ہوئے...پاکستان آنے پر انہیں آسٹریلیا میں ہائی کمشنر اور مشرقی پاکستان کے گورنر کی پیشکش کی گئی مگر انہوں نے یہ عہدے لینے سے انکار کر دیا...
میں نے عزت مآب وائس چانسلر سے بڑے ادب سے عرض کی سر! بقول وزیر اعظم عمران خان گھبرائیں مت... آپ اور آپ کی اننرجیٹک ٹیم سے مل کر اچھا لگا...جو کام کرے گا اس پر الزامات بھی لگیں گے اور تنقید بھی ہوگی...آپ" ادھر ادھر" دیکھے بغیر" سیدھے رخ" آگے بڑھتے جائیں...ہمارے معاشرے میں تنقید کا انداز ساس سے ملتا جلتا ہے...جو کوئی بہو میں خامی کچھ نہ ملے تو کہہ دیتی ہے کہ آٹا گوندھتے کیوں ہلتی ہے...مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ اطہر محبوب صاحب ملک بھر کی جامعات کے سربراہوں کے لیے رول ماڈل ہیں کہ انہوں نے پنجاب کے صوبائی دارالحکومت سے سوا چار سو کلومیٹر دور صحرا میں گلستان سجادیا اور شمع جلادی...بھلا خوشبو اور روشنی کو پھیلنے سے کون روک سکتا ہے...؟؟؟
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔