محترمہ کی شہادت اور بلاول کا تذکرہ، اچھی ماں بھی تھیں!

تحریک انصاف کے چیئرمین، سابق وزیراعظم عمران خان شاید دنیا کے واحد لیڈر ہیں جو ہر روز اور دن میں کئی بار بولتے ہیں،جلسوں سے خطاب اور میڈیا سے بات چیت معمول ہے، میرے خیال میں اِس حوالے سے اُن کا عالمی ریکارڈ بن چکا ہوا ہے۔گزشتہ ہفتے کے دوران اُن کا نشانہ بلاول تھے۔وہ بلاول کے بارے میں پہلے بھی بہت کچھ کہتے رہے تاہم اِس بار اُنہوں نے دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے اور بلاول کو ایک طرف تو افغانستان نہ جانے کا طعنہ دیا اور دوسری طرف یہ کہا کہ وزیر خارجہ اب تک بیرونی دوروں پر پونے دو ارب روپے خرچ کر چکے ہیں، جہاں تک بلاول کے افغانستان نہ جانے کا تعلق ہے تو یہ بات اُنہوں نے اِس لئے کہہ دی کہ وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر نے ایک روزہ دورہ کیا تھا۔بلاول تب نیو یارک میں تھے یوں بھی ایک حد تک یہ اِس لئے بھی درست ہے کہ بلاول شاید احتیاط کریں کہ اُن کے طالبان کے حوالے سے جماعتی تحفظات ہیں۔وہ اور اُن کی جماعت دہشت گردی کے حوالے سے بات کرتی ہے، مجھے تو اِس حوالے سے بلاول کی والدہ یاد آ گئیں جن کو پندرہ سال قبل27 دسمبر2007ء کو لیاقت باغ راولپنڈی کے باہر شہید کر دیا گیا تھا اور اُن کی اِس شہادت کا الزام کالعدم تحریک طالبان پر بھی لگا اور اِس تنظیم کے بعض لوگوں کے خلاف مقدمہ بھی چلا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا دن (منگل ہے) ہے،اُس روز میرا کالم نہیں ہوتا اِس لئے میں اِس ہفتے کے اختتامی کالم کا ہی فائدہ اٹھا رہا ہوں اور اُن کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
میں اِن دِنوں برطانیہ برمنگھم میں ہوں۔ایک روز بھتیجی کی طرف نارتھمپٹن جاتے اور پھر آتے آکسفورڈ سے گذر ہوا۔ 27دسمبر قریب آ رہی ہے، اِس بار جیالوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا اور کئی روز سے دنیا کی پہلی مسلمان خاتون وزیراعظم کو خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں اور اب تو یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ یوم شہادت پر گڑھی خدا بخش(لاڑکانہ) میں بڑا اجتماع ہو گا۔مجھے یہاں ہوتے ہوئے محترمہ کی آپ بیتی ”دُختر مشرق“ کے اقتباسات یاد آ رہے ہیں۔ بی بی نے آکسفورڈ اور لندن کی جھیل اور پارک کے حوالے سے بھی اپنی یاد داشتوں کو تازہ کیا ہے، وہ خود بھی آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھیں اور اُن کے صاحبزادے بلاول بھی اِسی یونیورسٹی کے گریجوایٹ ہیں اور یہ بھی اتفاق ہے کہ عمران خان نے بھی اِسی تعلیمی درسگاہ سے استفادہ کیا۔محترمہ سٹوڈنٹس یونین کی صدر منتخب ہوئیں تو خان صاحب کو کرکٹ کی بنیاد یہاں سے حاصل ہوئی اور اب بلاول اور عمران دو مختلف سیاسی حصوں میں بٹے ہوئے ہیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو بلاشبہ ایک بہادر اور دلیر خاتون تھیں، اُنہیں موت کا قطعی خوف نہیں تھا۔ وہ جب ”خود ساختہ جلاوطنی“ سے واپس کراچی آئیں تو جہاز سے اُترتے ہوئے اُن کے تاثرات بہت زبردست تھے اور دِلوں کو گرما گئے تھے جبکہ لیاقت باغ کے جلسے سے رخصت ہوتے وقت بھی اُن کا چہرہ گلنار اور اُس پر بڑی بشاشت تھی۔ بی بی کے ہونٹوں پر اُن کی روایتی مسکراہٹ نے ان کا حُسن اور بھی دوبالا کر دیا تھا۔ جلسے کے اختتام پر جب وہ واپس جاتے ہوئے ہاتھ ہلا ہلا کر نعروں کا جواب دے رہی تھیں تو کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ اُن کا آخری سلام ہے کہ اِس کے فوراً بعد ہی اُن پر حملہ ہوا اور وہ اللہ کو پیاری ہو گئیں۔اِس سلسلے میں یہ امر بہت واضح طور پر سامنے آ چکا کہ کراچی والے خود کش حملے کے بعد اُن کو مکمل طور پر محتاط رہنے کے لئے کہا گیا تھا لیکن وہ چھپ کر نہیں بیٹھی تھیں۔رحمان ملک(مرحوم) سے لے کر کئی رہنماؤں نے تو محترمہ کو لیاقت باغ کا جلسہ منسوخ کرنے کی رائے بھی دے تھی جو اُنہوں نے نہ مانی اور نشانہ بن گئیں۔میں اِس سے زیادہ کیاعرض کروں،اُن کے ساتھ اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران بہت وقت گذرا، اِس وجہ سے میں ذاتی طور پر بھی کہہ سکتا ہوں کہ وہ نہ صرف حوصلہ مند تھیں بلکہ بہت محنت بھی کرتی تھیں۔
اِن دِنوں عدم اعتماد کا بہت چرچاہے، مجھے وہ عدم اعتماد والادور یاد آ رہا ہے جب1989ء میں بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہو کر ناکام ہوئی۔ اُس دور میں بھی بہت کچھ کہا گیا، ہم ہر وقت خبر کی تلاش میں رہتے تھے۔ ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ محترمہ کو کئی ایسے مشورے دیئے گئے کہ اِجلاس نہ ہونے دیا جائے یا اُسے طویل کیا جائے لیکن اُنہوں نے تحریک کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر دور طرف سے اپنے اپنے اراکین کو سنبھالنے کے لئے چھانگا مانگا، مری اور سوات کے مقامات مہمان نوازی کے لئے کام آئے اور آج تک یہ طعنہ موجود ہے۔ محترمہ کے خلاف عدم اعتماد کا ایک منظر وہ بھی تھا جب سپیکر ملک معراج خالد (مرحوم) نے تحریک پیش کرنے کی اجازت دی۔اِس حوالے سے ایوان میں تقاریر ہوئیں،پھر اُنہوں نے محرکین کو اپنی قرارداد کے حق میں رائے دینے کے لئے کہا، تب اُس وقت کی حزبِ اختلاف(مسلم لیگ ن) مطلوبہ ووٹ پورے نہ کر سکی اور تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گئی۔ ملک معراج خالد کی اُس دور کی رولنگ مستقل قاعدہ یا طریقہ اور مستند روایت بن چکی کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والوں کو اراکین کی مطلوبہ اکثریت ثابت کرنا ہوتی ہے چنانچہ حالات حاضرہ میں اگر عدم اعتماد اور اعتماد کے ووٹ کا مسئلہ ہے تو اُس کی وجہ بھی یہی ہے۔ چودھری پرویز الٰہی اب اعتماد کا ووٹ لیں گے تو186 کی مطلوبہ تعداد یا اُس سے زیادہ اراکین کی حمایت حاصل کرنا ہو گی، اپوزیشن کو نہیں۔
بات محترمہ بے نظیر بھٹو کے حوالے سے ہو رہی تھی، میں نے اپنے صحافتی فرائض کے دوران اُن کو بہت جانا اور سمجھا، وہ ایک ہمدرد خاتون اور اچھی ماں تھیں۔ ڈاکٹر جہانگیر بدر(مرحوم) میرے بھائیوں جیسے تھے، اُن کی محترمہ سے عقیدت ڈھکی چھپی نہیں، بچوں کے حوالے سے جہانگیر بدر سے حاصل معلومات کے علاوہ خود محترمہ نے کئی بار کہا کہ بچوں کا خیال وہ خود رکھتی ہیں اور اُن کو ٹیوشن کی بجائے خود پڑھانا اور ہوم ورک کرانا بہتر جانتی ہیں،اِس سلسلے میں یہ حوالہ بھی سامنے ہے،شائع شدہ تصاویر اور ویڈیوز (ٹیلیویژن کے خبرنامے والی) سامنے ہیں کہ وہ آصفہ کو گود میں لئے اور بلاول، بختاور کو انگلی سے لگائے سنٹرل جیل کوٹ لکھپت میں آصف علی زرداری سے ملانے لایا کرتی تھیں کہ گاڑی جیل کے دروازے سے کہیں دور روک لی جاتی تھی۔
مَیں ذاتی معلومات کی بناء پر عرض کرتا ہوں کہ محترمہ بلاول کے تعلیمی نتیجے پر بھی بہت گہری نظر رکھتی تھیں اور اچھے میرٹ پر نہ صرف خوش ہوتیں بلکہ فخر سے بتاتی بھی تھیں۔ جہانگیر بدر پر اُن کو بہت اعتماد تھا اور وہ اُن کو کئی بار اتالیق کے طور پر بلاول کے ساتھ مختلف کانفرنسوں یا عالمی تقریبات میں بھیجتی رہی تھیں۔ محترمہ جماعتی حیثیت سے ایک ایسی رہنما تھیں جو اپنی جماعت کے اہم رہنماؤں کے ساتھ رابطہ رکھتیں،خط و کتابت کرتیں، ای میل پڑھتی اور جواب بھی خود ہی دیتی تھیں۔اُن کی کامیابی اور ناکامی کے حوالے سے بہت کچھ کہا جاتا ہے لیکن وقت نے یہ ثابت کیا کہ وہ جماعتی حیثیت سے چاروں صوبوں کی زنجیر تھیں۔محترمہ دردِ دِل رکھنے والی خاتون تھیں اگر اُن کے علم میں کسی کا دُکھ آتا تو اُسے دور کرنے کی پوری کوشش کرتی تھیں۔ 1997ء کی انتخابی مہم میں دوسرے دو تین ساتھیوں کے ساتھ مَیں نے ہیلی کاپٹر میں اُس کی کوریج کی۔وہ نہ صرف خوشگوار انداز میں بات چیت کرتیں بلکہ ساتھ جانے والوں کا ذاتی طور پر دھیان رکھتی تھیں،اُن کے ہاتھ میں تسبیح تو ہوتی تاہم ماہِ رمضان میں روزے بھی پورے رکھتی تھیں،یہ ذاتی مشاہدہ ہے۔