لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن ) قائداعظم محمد علی جناح نے شروع ہی سے مسلمانوں کو تجارت کی طرف راغب کیا، آپ نے 27 دسمبر 1943ء میں مسلم ایوان تجارت کراچی میں فرمایا: ”پاکستان میں آنے والے علاقوں میں زبردست اقتصادی امکانات موجود ہیں، انہیں زیادہ سے زیادہ ترقی دی جائے“۔
پروفیسر ڈاکٹر ایم اے صوفی کے ایک مضمون کے مطابق یوم پاکستان کی تقریب منعقدہ 23 مارچ 1944ءلاہور میں آپ نے فرمایا: ”ہمارے لئے پاکستان کا مطلب ہے ہمارا دفاع ، ہماری تجارت اور ہمارا مستقبل، یہ واحد راستہ ہے جو ہمیں اپنی آزادی، اپنے وقار اور اسلام کی عظمت کو برقرار رکھنے کی ضمانت دے گا“۔
اسی طرح قائداعظم محمد علی جناح نے 24 مارچ 1940ءکو گرلز کالج کوپر روڈ میں اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ”دنیا میں دو طاقتیں ہیں، ایک قلم اور ایک تلوار دونوں میں بڑا مقابلہ ہے مگر ایک تیسری طاقت بھی ہے، جو ان دونوں سے طاقتور ہے، وہ عورت کے روپ میں ہے“۔
اسی طرح مسلم ایوان تجارت لاہور میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا، اقتصادی ترقی اور اقتصادی قوت زندگی کے جملہ شعبوں میں سب سے زیادہ اہم ہے، اسی طرح بمبئی میں 28 اکتوبر 1944ء کو مسلم ایوان تجارت میں فرمایا کہ مجھے خوشی ہو رہی ہے کہ مسلمانوں میں صنعتی اور تجارتی شعور پیدا ہو رہا ہے اور کئی جگہوں میں ایوان تجارت قائم ہوگئے ہیں اور کل ہند کے ساتھ مسلم تجارت کا الحاق ہوگیا ہے۔
اسی طرح قائداعظم محمد علی جناح گورنر جنرل پاکستان نے 27 اپریل 1948ءکو ایوان تجارت کراچی میں طویل تقریر میں فرمایا: ”تاہم میں آپ کی خصوصی توجہ حکومت پاکستان کی اس گہری خواہش کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ صنعت کاری کے ہر مرحلے میں انفرادی کوششوں اور نجی شعبے کو شامل کیا جائے، حکومت نے جن صنعتوں کو اپنے زیر انتظام رکھنے کا فیصلہ کیا ہے وہ جنگ میں کام آنے والے اسلحہ اور گولہ
بارود، پن بجلی کی پیداوار، ریل کے ڈبے،ٹیلی فون اور تار اور برقی آلات وغیرہ کی صنعتوں پر مشتمل ہیں۔
دیگر صنعتی سرگرمی کے معاملے میں نجی شعبے کو کھلی آزادی ہوگی اور حکومت صنعت کے قیام اور ترقی کیلئے جو بھی سہولت دے سکتی ہے وہ مہیا کر دی جائے گی، پاکستان کے وسیع معدنی ذخائر کا جائزہ لے کر ملک کے آبی و برقی وسائل کو ترقی دینے کی سکیمیں تیار کر کے، ذرائع نقل و حرکت کی بہتری اور بندرگاہوں اور انڈسٹریل فنانس کارپوریشن کے قیام کے منصوبے مرتب کر کے حکومت ایسے حالات پیدا کردے گی جس میں صنعت اور تجارت ترقی اور فروغ پاسکیں۔
جس طرح پاکستان براعظم ایشیا میں زرعی اعتبار سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے، جس کا آپ نے بھی ذکر کیا، مجھے بھروسہ ہے کہ اگر یہ اپنی صنعتوں کی تعمیر اپنے وسیع تر زرعی سرمائے کا بھرپور اور بہترین استعمال کرے، ہنر مندی اور کاریگری کی روایات جن میں اس کے باشندوں کو اس قدر شہرت حاصل ہے اور ان کی نئی تکنیک کو اپنانے کی صلاحیت کا استعمال کرے تو یہ بہت جلد صنعت کے میدان میں بھی بہتر نقوش چھوڑ دے گا“۔
گویا قائداعظم تجارت کو فوقیت دیتے تھے، اسی طرح بنگال آئل ملز کی افتتاحی تقریب میں 2 فروری 1948ءکو خطاب میں فرمایا: ”ہر نئی مل یا فیکٹری کے قیام کا مطلب یہ ہے کہ اپنے ملک کے اقتصادی استحکام اور عوام کی خوشحالی کی شاہراہ پر ہمارا ایک اور قدم آگے بڑھا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ یہ لو گ خود دار، خود کفیل اور معاشرہ کے مفید ارکان کی حیثیت سے جئیں، نہ تو تمام مہاجر زراعت پیشہ لوگ ہیں اور نہ ہی قابل کاشت رقبے کے چھوٹے چھوٹے غیر اقتصادی ٹکڑے کر کے انہیں زراعت پیشہ مہاجرین میں بانٹا جا سکتا ہے۔
ان لوگوں کو ان کے پیروں پر کھڑا کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ملک میں تیزی سے صنعتکاری کی جائے
جس سے ان کیلئے روزگار کے نئے مواقع میسّر آجائیں، قدرت نے ہمیں خام مال کی دولت سے باافراط نوازا ہے، اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اپنے وسائل کو اپنی مملکت اور اس کے عوام کے بہترین مفاد کیلئے استعمال میں لائیں“۔
قائداعظم نے 27 ستمبر 1947ء کو ولیکا ٹیکسٹائل ملز کے سنگِ بنیاد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”آج یہاں آ کر مجھے بڑی مسرت ہوئی ہے، اس وقت پاکستان زیادہ تر زراعتی ملک ہے اور تیار شدہ اشیاءکیلئے اس کا انحصار بیرونی دنیا پر ہے، اگر پاکستان دنیا میں اپنا صحیح کردار ادا کرنا چاہتا ہے جس کا حق اسے اپنے رقبہ،افرادی قوت اور وسائل سے حاصل ہوتا ہے تو اسے اپنی زراعت کے پہلوبہ پہلو صنعتی امکانات کو بھی ترقی دینی ہوگی اور اپنی اقتصادیات کو صنعتی میدان میں بھی بڑھانا ہو گا۔
اپنے ملک میں صنعتکاری کے ذریعہ ہم اشیائے صرف کی فراہمی کیلئے بیرونی دنیا پر انحصار کم کر سکیں گے، لوگوں کو روزگار کے زیادہ مواقع فراہم کر سکیں گے اور مملکت کے وسائل میں بھی اضافہ کر سکیں گے، قدرت نے ہمیں صنعت و حرفت میں کام آنے والے بہت سے خام مال سے نوازا ہے“۔