ادھورا سچ ، ادھورا جھوٹ کیا فرق ہے؟
کیا کسی کو قتل کرنے کا جواز نصف سچائی پر مبنی ہو سکتا ہے؟....یہ سوال کسی بھی قاتل کے لئے آخری امید اور غالباً اُس کے لئے بہترین جواز ہو سکتا ہے.... پُراسرار کہانیوں کی وسیع دنیا کا جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ قتل ایک دو ٹوک معاملہ نہیں ہوتا، بلکہ اس کے محرکات پر بحث ہو سکتی ہے۔ اس بحث کا مقتول کو کوئی فائدہ نہیںہوتا ، لیکن زندہ افراد کے لئے اس کی یقینا بہت اہمیت ہے، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ قتل، چاہے جذبات کے عالم میں کیا گیا ہو یا سفاکی سے منصوبہ بناکر،اس کا مہذب معاشرے میںکوئی جواز نہیںہے۔ سزائے موت دینے کی مجاز صرف عدالت ہوتی ہے....سری لنکا کے ایک بارہ سالہ لڑکے ، بالا چندران،کی ہلاکت کی تصاویر دل ہلا دینے والی ہیں۔ وہ بہت ہی معصوم، گول مٹول چہرے والا لڑکا تھا ۔ ان تصاویر میں اُس کے چہرے پر موت کے قبل ہونے والے تشدد کی جھلک نمایاںتھی۔ اُس لڑکے کا واحد قصور یہ تھا کہ وہ غلط والدین کے گھر پیداہو گیا تھا کم ازکم اُس کے قاتلوں کا یہی خیال تھا۔ اُس کامقتول باپ پرابھاکران تامل ٹائیگرز ، جو کئی سال تک سری لنکا سے علیحدگی کے لئے مسلح جدوجہد کرتے رہے، کا لیڈر تھا۔ کوئی بھی جنگ خوشگوار نہیںہوتی ، لیکن سری لنکا میں لڑی جانے والی یہ جنگ بہت ہی سفاک تھی۔ تامل ٹائیگرز کی شکست کے بعد 2008-09 ءمیں بالا چندران کو یرغمال بنا لیا گیا۔ برطانوی ٹی وی سٹیشن ، چینل فور، جس نے سری لنکن فوج کی طرف سے روا رکھی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نشر کیا، اُس لڑکے کے قتل کی تصاویر نشر کیں اور دعویٰ کیا کہ اس قتل کا حکم ”اوپر “ سے آیا تھا۔ سرکاری فوجی ترجمان نے بیان دیا کہ یہ کہانی”جھوٹ، ادھورے سچ اور گمان پر مبنی ہے“....تاہم اگر یہ ” ادھورا سچ “ ہے تو باقی نصف کیا ہے ؟جہاں تک اس معاملے میں ”گمان “ کا تعلق ہے تو یہ صرف یہی ہے کہ یہ حکم اُوپر سے آیا تھا ۔ اس گمان کی وجہ یہ ہے کہ یہ کوئی معمولی بچہ نہیں تھا، اس کا باپ تامل ٹائیگرز کا لیڈر تھا اور اس کو کوئی عام سپاہی اپنی مرضی سے ہلاک نہیںکر سکتا تھا، تاوقتیکہ حکام ِ بالا اس کی منظوری نہ دے دیں۔ اس خبر کے نشر ہونے کے چوبیس گھنٹے بعد سری لنکا کے کسی ”دانشور“ کی طرف سے بیان آیا کہ یہ تصاویر تبدیل شدہ ہیں۔ اس پر چینل فور نے ذمہ داری اٹھاتے ہوئے کہا کہ اُس کے پاس ا ن کے اصلی ہونے کے ثبوت موجود ہیں۔ اس کا ایک اور جواب ہے....اگر یہ تصاویر جعلی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ لڑکا زندہ ہے اور سری لنکن حکومت کی تحویل میں ہے۔ اب سری لنکن حکومت کو چینل فور کو جھٹلانے کے لئے کسی بحث کی ضرورت نہیں، صرف اُس لڑکے کو پریس کے سامنے پیش کردیں اور ایک لفظ بولے بغیر چینل کو جھٹلا دیں۔ یہ بہت سادہ سا معاملہ ہے، تاہم شواہد بتاتے ہیں کہ ایسا نہیںہوگا، بلکہ سری لنکن حکومت صرف خاموشی سے ہی کام چلائے گی، کیونکہ اسے پتہ ہے کہ میڈیا اتنا فارغ نہیں ہوتا کہ ایک ہی کہانی کو دہراتارہے۔ اس خاموشی کی تین بڑی عالمی طاقتیں (چین، بھارت اورا مریکہ )بھی حمایت کریں گی، کیونکہ ان سب کا سری لنکا سے مفاد وابستہ ہے۔ کوئی بھی کولمبو پر الزام نہیںلگائے گا کہ اس نے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے ، نہ ہی سری لنکا کی موجودہ حکومت کو کمزور کرنے کے لئے کوئی دباﺅ ڈالا جائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ سب اس قتل کی حمایت کررہے ہیں۔ اگر دیکھاجائے تو کولمبو نے اس بچے کو صرف اس لئے ہلاک کیا ہے کہ کہیں وہ دس پندرہ سال بعد اپنے مقتول باپ کے نقش ِ قدم پر چلنا نہ شروع کردے۔ اس سلسلے میں انصاف کے تقاضے صرف ”ماورائے عدالت “ قتل سے ہی پورے کئے جاسکتے تھے، کیونکہ قانون کی نظر میں تو اُس بچے نے کوئی جرم نہیں کیا تھا۔ اس قتل پر دہلی، واشنگٹن یا بیجنگ کے ماتھے پر شکن تک نہیں پڑے گی، کیونکہ یہ سب دہشت گردی کو برداشت کرنے کے روادار نہیں۔ کوئی بھی واقعہ ہو جائے تو عالمی قوتیں حرکت میں آجاتی ہیں لیکن سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا یہ لڑکا دہشت گرد تھا؟اگر کسی عام قتل کی کہانی پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ قاتل کوئی نہ کوئی سراغ ضرور چھوڑ جاتے ہیں، جن سے تحقیقاتی ادارے اُن تک پہنچ جاتے ہیں۔ کولمبو کے دانشوروں سے بھی ایسی ہی غلطی سرزد ہو چکی ہے، کیونکہ اُنہوںنے دور ِ حاضر کی سب سے حیرت انگیز حقیقت، موبائل فون، کو نظرانداز کر دیا۔ ان فون سیٹوں میں انسٹال چھوٹا سا کیمرہ ہوتا ہے۔ اس نے ہر شخص کو چلتا پھرتا ”مووی میکر “ بنا دیا ہے۔ ابھی چونکہ ہم ”راہ گزر “ میں ہیں، اس لئے ہمیں اس ایجاد کے اصل مضمرات کا اندازہ ہونا باقی ہے۔ایک اہم بات یہ ہوئی ہے کہ اب عدالتوں نے چشم دید گواہی کے علاوہ کیمرہ گواہی کو بھی تسلیم کرنا شروع کر دیا ہے۔ ابھی ہم کلوز سرکٹ ٹی وی کیمرے کے بارے میں حتمی فیصلہ نہیںکر سکے کہ کیا اُنہیںہونا چاہیے یا نہیں۔ معمول کے حالات میں ہم حکومت پر تنقید کرتے ہیںکہ وہ ہماری نجی زندگی میں جھانک رہی ہے، لیکن جب دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو ہم مطالبہ کرتے ہیںکہ یہ کیمرے ہر جگہ ہونے چاہئیں۔ہمیں یہ حقیقت بھی تسلیم کر لینی چاہئے کہ اس دنیا میں نجی زندگی کے پیمانے سمٹ رہے ہیں فون کالز ٹیپ ہوتی ہیں، ای میل پڑھی جاتی ہیں، ہر جگہ کیمرے جھانک رہے ہوتے ہیں۔ ان حالات میں حکومتیں بھی یریشانی کا شکار ہیںکوئی بھی سرکاری افسر اہم فائلوں کی آسانی سے کاپی بنا سکتاہے۔ جو کام کسی زمانے میں جیمز بونڈ کے لئے بھی چیلنج کی حیثیت رکھتا تھا، آ ج نہایت اطمینان سے جیب سے کیمرے والا فون،جو انتہائی سستا بھی ہے، نکالیں اور فائل کاپی کرلیں۔ اس سے حکومت کی بدعنوانی کے ثبوت میڈیا اور عوام کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ ان فائلوں کے ذریعے حکومت کو بلیک میل بھی کیا جا سکتا ہے۔ ہم کسی ظالم حکومت کی طرف سے اپنی نجی زندگی میں جھانکنے پر مشتعل ہوسکتے ہیں، لیکن کیا کوئی گمنام فرد معاشرے کے لئے زیادہ خطرے کا باعث نہیںبن سکتا؟بالا چندران کی ویڈیو میڈیا تک دو طریقوںسے پہنچی ہوگی۔ہو سکتا ہے کہ کسی حکومتی عہدیدار نے ایسا کیا ہو....یا ہو سکتا ہے کہ کسی سپاہی نے، جو اُس بچے کو ہلاک کرنے والوں میں شامل ہو، یہ سوچا ہو کہ وہ اس سفاک لمحے کو ریکارڈ کر لے۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح یہ بات اب میڈیا تک پہنچ گئی ہے۔ اگر یہ آدھا جھوٹ بھی ہے تو بھی اس کے پیچھے آدھا سچ ہے۔ ٭
نوٹ ! اس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں ری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے۔