پی سی بی کو سیاست سے پاک کریں
21فروری کو جس بات کا ڈر تھا، وہی ہوا۔ پاکستان ورلڈکپ کا اپنا دوسرا میچ بھی ہار گیا۔ کالی آندھی نے شاہینوں کو اُڑنا ہی بُھلا دیا اور پٹخ کر زمین پر دے مارا۔ پاکستان اپنا پہلا میچ روایتی حریف بھارت سے ہار گیا تھاجس کا عوام کو انتہائی دُکھ ہوا، پھر ویسٹ انڈیز سے عبرتناک شکست نے قوم کے صبر کے پیمانے کو توڑ دیا۔
پہلے کینیڈا کے پاس ایک عالمی ریکارڈ تھا جس نے زمبابوے کے خلاف 4رنز پر4 وکٹیں گنوائی تھیں، اب یہ عالمی ریکارڈ گرین شرٹس کے پاس آگیا کہ ویسٹ انڈیز کے خلاف ایک رن پر 4کھلاڑی پویلین لوٹ گئے جس پر میڈیامیں بھرپور تنقید ہوئی۔ شکست کے غم سے نڈھال قوم نے کہیں کرکٹ کے علامتی جنازے نکالے تو کہیں پتلے نذرِ آتش کئے ۔
ورلڈ کپ جیسے میگا ایونٹ میں پے در پے ناکامیوں کی ذمہ داری براہِ راست پی سی بی اور کرکٹ مینجمنٹ پر عائد ہوتی ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ ادارہ بھی سیاست کی نذر ہوگیا۔ ورلڈ کپ کی ٹیم کے چناؤ کے لیے بھی میرٹ کو یکسر نظر انداز کردیا گیا۔ پروفیشنل اپروچ بورڈ میں نظر آتی ہے ، نہ کھلاڑیوں میں۔ پہلے تو پی سی بی کی چیئرمین شپ ذکا اشرف اور نجم سیٹھی کے درمیان میوزیکل چیئربنی رہی۔ کبھی ذکا اشرف بحال تو نجم سیٹھی فارغ اور کبھی اس کے برعکس۔ نجم سیٹھی کو ہر قیمت پر نوازنا تھا چنانچہ شہر یار خاں چیئرمین بنے تو سیٹھی صاحب کو بورڈ آف گورنرزکا چیئرمین بنا دیا گیا۔
ورلڈ کپ سے پہلے کوئی بھی ٹیم اور کرکٹ بورڈ ڈیڑھ دوسال پہلے تیاری شروع کردیتے ہیں لیکن یہاں سابق چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ ہماری پوری تیاری نہیں تھی، ہمارے پاس فل ٹائم سپنر اور اوپنرز نہیں تھے اس وجہ سے ہم 2میچ ہارے اور پھر شکست کا ذمہ دار میڈیا اور قوم کی توقعات کو ٹھہرادیا، تو جناب! اگر ٹیم میں تجربہ کار سپنر اور اوپنرنہیں اوراُن کی تیاری نہیں تھی تو کیا یہ کام آپ کا یا بورڈ کا نہیں تھا؟ کیا پی سی بی کی کوئی پلاننگ تھی کہ میگا ایونٹ آرہا ہے؟ کیا کھلاڑیوں کو تیار کروانا پی سی بی کے علاوہ کسی اور اِدارے کا کام تھا؟جہاں تک میڈیا اور عوام کی اپنی ٹیم بارے توقعات کا تعلق ہے، تو کیا دوسرے ملکوں کے عوام اپنی ٹیموں سے توقعات نہیں رکھتے؟
میگا ایونٹ کے لیے جانے والی قومی ٹیم کی سلیکشن پر بھی بہت سے سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں۔ ہمارے پاس ریگولر اوپنرنہیں ۔ ٹیم میں کوئی آل راؤنڈر موجود نہیں۔ بولنگ پاکستان کی طاقت مانی جاتی رہی تھی لیکن آج ٹیم میں کوئی قابلِ ذکرفاسٹ باؤلر نہیں۔ محمد عرفان اور یاسر شاہ کو ’’ہڈن ویپن‘‘ کہا جا رہا تھا لیکن دونوں کی خوب پٹائی ہوئی، وجہ یہ کہ دونوں کبھی ایسی وکٹوں پر نہیں کھیلے بلکہ کپتان مصباح الحق سمیت 8کھلاڑی پہلی بار آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی ان وکٹوں پر کھیل رہے ہیں۔
شعیب ملک ، عبدالرزاق، کامران اکمل، سہیل تنویر اور عمران نذیر جیسے پروفیشنل کھلاڑیوں پر سلیکشن کمیٹی کی نظر کیوں نہیں پڑی؟ یہ وہ کھلاڑی ہیں جو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کھیلنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ موجودہ بیٹنگ کوچ اور فیلڈنگ کوچ دونوں غیر ملکی ہیں لیکن پھر بھی بیٹنگ انتہائی ناکام اور فیلڈنگ کا عالم یہ کہ ویسٹ انڈیز کے خلاف6کیچ ڈراپ کئے گئے۔
میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ ٹیم کو ہوکیا گیا ہے؟ کوئی کھلاڑی 30 رنز عبور کرے تو اچانک ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں اور آؤٹ۔ بدقسمتی سے پاکستانی ٹیم 250 رنز کے کیڈر کی ٹیم بن چکی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کھلاڑیوں میں ٹیلنٹ بہت ہے لیکن نہ کھلاڑیوں کو اُسے استعمال کرنا آتا ہے اور نہ مینجمنٹ کو اس بات کا اِدراک ہے کہ اس ٹیلنٹ کو کیسے پالش کیا جائے۔
مینجمنٹ کے حوالے سے بات ہوئی تو 15رُکنی ورلڈ کپ سکواڈ کے ساتھ یہ 12رُکنی مینجمنٹ سکواڈ وہاں کیا کر رہا ہے؟ کیا سیر کرنے کا دِل تھا؟ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کئی سال سے ٹیم پر اربوں خرچ ہوا، پھر بھی پرفارمنس زیرو۔ حیرت تو اس پر بھی ہے کہ وقار یونس جیسا تجربہ کار کھلاڑی ہیڈ کوچ کی ذمہ داریاں ادا کررہا ہواور پھر بھی ٹیم کی یہ حالت ؟
بات اتنی سی ہے کہ اب پی سی بی مکمل طور پر سیاست سے پاک ہونا چاہیے۔ سیاسی بھرتیاں اور مینجمنٹ کے سازشی عناصر بے نقاب ہونے چاہئیں۔ پی سی بی کے پیٹرن ان چیف جناب وزیراعظم کوچاہیے کہ وہ پی سی بی کے معاملات کی خرابی کا سختی سے نوٹس لیں۔ وزیراعظم تو خود سپورٹس لَوّر ہیں اور فرسٹ کلاس کرکٹ بھی کھیلتے رہے ہیں ، ان سے درخواست ہے کہ ذاتی دلچسپی لے کر پی سی بی کے معاملات کوٹھیک کریں۔ پروفیشنل کرکٹرز جو لیجنڈ سٹار ہیں ، اُن کو پی سی بی کے بڑے عہدوں پر تعینات کریں جو کرکٹ کو سمجھتے ہیں جنہوں نے کرکٹ کھیلی ہے۔ ورنہ وہ دِن دور نہیں جب کرکٹ کا حال بھی ویسا ہوجائے گا جیسا ہمارے قومی کھیل ہاکی کا ہوچکا ہے۔