قومی حمیت اور جذبے کی ضرورت ہے!

قومی حمیت اور جذبے کی ضرورت ہے!
 قومی حمیت اور جذبے کی ضرورت ہے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ماحولیاتی آلودگی کے باعث دنیا بھر کے موسموں میں تغیر و تبدل ہوا، یہ سب خود انسانوں ہی کا کیا دھرا ہے اور یہ حضرت انسان ہی حالات حاضرہ کے اضطراب کا باعث بنا ہوا ہے، ذرا غور کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہر آنے والا روز جانے والے دن کی نسبت برا ہے اور پھر یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ مزید خرابی پیدا ہوگی ہم کسی کی بات کیا کریں خود اپنے ملک اور اپنے لوگوں کی طرف دیکھیں تو دکھ ہوتا ہے، شاید ایک سے زیادہ بار ایسے واقعات جستہ جستہ لکھ چکے جو ہماری قومی انایا حمیت کا مظہر تھے، اس سلسلے میں جنگ ستمبر 1965 ء بہت بڑا واقع اور مثال ہے، 5-6 ستمبر 65کی شب کو بھارتی افواج نے چوری سے واہگہ کی انٹرنیشنل سرحد عبور کرکے بھرپور حملہ کیا تھا ان دنوں ملک کے سیاسی حالات بہت کشیدہ تھے اگر یہ کہا جائے کہ آج کے حالات سے زیادہ بگڑے ہوئے تھے توکچھ غلط نہ ہوگا، دراصل 1965ء کے اوائل ہی میں جنرل ایوب خان نے صدارتی انتخاب کرایا، اس میں وہ خود امیدوار تھے اور یہ ان کی طرف سے نافذ 1962ء کے دستور کے اور بنیادی جمہوریت کے بالواسطہ نظام کے تحت ہوا تھا، اس میں عام ووٹر کو حق رائے دہی کا حق حاصل نہیں تھا اور بنیادی جمہوریت والے جو ’’ موری ممبر‘‘ منتخب ہوئے تھے صرف وہی حق دار تھے۔ دوسری طرف ہمارے ملک کی قریباً تمام سیاسی جماعتیں اس نظام کے ساتھ ہی جنرل ایوب کی حکومت کے بھی خلاف تھیں چنانچہ نوابزادہ نصراللہ( مرحوم) میاں محمود علی قصوری اور ایسے دوسرے راہنماؤں کی کوشش سے حزب اختلاف کا اتحاد وجود میں آچکا تھا، جمہوری مجلس عمل کے نام سے اس اتحاد نے جب صدارتی انتخاب میں صدر جنرل محمد ایوب خان کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی تو ان کے مقابلے میں امیدوار کی تلاش ہوئی، غوروفکر کے بعد بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ محترمہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو مقابلے میں اتارنے کا فیصلہ ہوا اور پھر ان بزرگوں نے کسی نہ کسی طرح مادر ملت کو آمادہ کرلیا اور وہ امیدوار ہوگئیں پھر یہ مقابلہ بہت سخت ہوگیا اور ایوب خان نے پولیس کے تعاون سے دھاندلی کی اور یہ مقابلہ جیت لیا تھا، سراسر بددیانتی کا مظاہر ہوا تھا اور پوری حزب اختلاف سخت مخالف تھی۔


ان حالات ہی میں جنگ ستمبر مسلط کردی گئی، یہ قومی سوال تھا، چنانچہ پوری اپوزیشن نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر ملک و قوم کی خاطر اور دشمن کی مسلط کردہ جنگ کے خلاف حکومت وقت کی حمائت کی اور پوری اپوزیشن نے ایوب خان سے ملاقات کرکے ان کو اپنی حمائت کا یقین دلایا دوسری طرف ہماری بہادر مسلح افواج نے دشمن کا حملہ روک لیا اور اسے سخت نقصان پہنچایا اس 17روزہ جنگ میں قوم کا جذبہ بھی اپنے عروج پر رہا، جب دشمن کے ہوائی حملوں اور جاسوسوں کا مسئلہ ہوا تو سب نوجوانوں نے رضا کارانہ طور پر یہ فرض اپنے ذمہ لے لیا اور راتوں کو جاگ کر خود پہرہ دینے لگے، اسی طرح حکومت کو چندے کی ضرورت محسوس ہوئی تو ٹیڈی پیسہ ٹینک کی سکیم کا اعلان کیا گیا یہاں پھر قومی جذبہ فزوں تھا کہ قوم کے بچوں تک نے اپنے جیب خرچ صندرقچی میں ڈالے، خواتین نے زیور تک دے دیئے اورپھر اسی قوم نے اپنی فوج کے بہادروں کو زبردست خراج تحسین پیش کیا، ان کے لئے فروٹ اور مٹھائیاں بھیجتے اور دیتے رہے، یوں یہ جنگ اللہ کے کرم اور قوم کے تعاون سے جیت لی گئی اور ہم سب دفاع میں کامیاب ہوگئے جب بھی حالات پر نظر ڈالیں تو جنگ ستمبر میں ہوش رکھنے والا ہر شہری اس دور کو یاد کرتا ہے۔


یہ اتفاق ہی ہے کہ آج دہشت گردی کی جنگ ہم پر مسلط ہے، دشمن پس پردہ ریشہ دوانیوں میں مصروف ہے، خود کش حملے اور بم دھماکے کرکے شہریوں کو قتل کیا جارہا ہے، ایسے میں حکمران اور اپوزیشن دست و گریبان ہیں اور چھوٹے چھوٹے مسائل پر بھی آپس میں سمجھوتہ نہیں کر پارہے، تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) میں تو ٹھنی ہوئی ہے، پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی تعلقات خراب ہوتے چلے جارہے ہیں جب بھی دہشت گردی کی کوئی واردات ہوتی ہے تو مذمتی بیانوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور بالکل واضح ہوتا ہے کہ پوری قوم ایک صفحہ پر ہے، لیکن جب اپنی اپنی بات کا سلسلہ آتا ہے تو شدت کی محاذ آرائی کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے، پاناما گیٹ کا سلسلہ چل رہا تھا تو ہر روز سیاسی جنگ ہوتی تھی، اب فیصلہ محفوظ ہے اور فاضل جج حضرات کچھ وقت لے کر سنائیں گے تو بھی چین نہیں ہوا، اس دوران دھماکوں اور انسانی جانوں کا ضیاع جاری ہے لیکن جذبہ حریت ابھی تک نہیں پھڑکا قوم بھی اجتماعی،بے حسی کا مظاہرہ کررہی ہے جس کی بنیادی وجہ قیادت اور سیاست کی تقسیم ہے، حتیٰ کہ قومی اسمبلی کے پلیٹ فارم پر احتساب کے نظام، انتخابی اصلاحات اور اب فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع جیسے امور پر اتفاق رائے نہیں ہو پا رہا، حالانکہ اس حوالے سے اپنے سیاسی راہنماؤں کے بیانات اور خیالات کا جائیزہ لیں تو کوئی فرق نظر نہیں آتا، یوں یہ معاملات تو ایک ہی نشست میں طے ہو جانا چاہئیں لیکن انا اور سیاست آڑے ہیں اس میں ملک کا مفاد پیچھے چلا گیا حالانکہ ہر ایک کا دعویٰ یہی ہے کہ وہ سب سے بڑا داعی اور وفادار ہے، لیکن عملی صورت مختلف ہے۔


یہ درست کہ 1965ء ستمبر میں باقاعدہ حملہ ہوا اور جنگ چھڑ گئی جبکہ آج ’’ پراکسی وار‘‘ہو رہی ہے اس کی بنیادی وجہ دونوں ممالک کا ایٹمی قوت ہونا ہے، لیکن حالات نہ سنورے تو بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث شاید خطے میں تباہی کی نوبت آجائے اس سے بچنے اور تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ قوم میں پھر سے ستمبر 65ء کا جذبہ بیدار ہو یہ اسی طرح ممکن ہے کہ قومی قیادت اس پر پورا اترے، تو قوم بھی پیروی کرے گی، ہم کسی کو اچھا کسی کو الزام نہیں دیتے یہ سب کا فرض ہے اور وہ خود سمجھیں۔

مزید :

کالم -