نہ چاہتے ہوئے بھی فوجی عدالتوں کی حمایت کرینگے، مدرسوں کے نوجوانوں کو بندوق دینے کی ذمہ دار ریاست ہے: فضل الرحمان
ڈیرہ اسماعیل خان، اسلام آباد( آن لائن، آئی این پی)جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ مدرسے کے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بندوق دینے کی ذمہ دار ریاست ہے،دہشتگرد ریاستی اداروں کے پروں کے نیچے پل رہے ہیں، ہم نہ چاہتے ہوئے بھی فوجی عدالتوں میں توسیع کی حمایت کریں گے۔ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ مذہبی طبقے اور مدرسے کے لوگوں کو کیوں افغانستان میں جہاد کیلئے استعمال کیا گیا ہے،قانون اجازت نہیں دیتا تو آگے بڑھ کر کیوں فیصلہ کیا گیا ،آئین اور قانون کے مطابق چلنا ہے تو سب ختم کرنا ہوگا۔دہشتگردی کے خلاف مذہبی جماعتیں،تمام مدارس ایک پیج پر ہیں،اکیسویں ترمیم اس لیے کی گئی کہ فوج کو میدان میں لایا جائے،ایک ایک فرد کے پیچھے تو مدرسوں پر چھاپے مارے جارہے ہیں لیکن ریاست کے پروں کے نیچے منظم تنظیموں کی حمایت کی جارہی ہے بلکہ انہیں پالا جا رہا ہے۔ہربات کو ملکی مفاد میں کہہ کر ملک کے خلاف کام کیا جارہا ہے،کوئی بھی سرحد غیر محفوظ نہیں ہونی چاہیے،بھارت ہمارا دشمن ہے اب افغانستان کو بھی بنایا جارہا ہے۔ دہشتگردی ختم کرنا جن کی ذمہ داری تھی وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ فاٹا کا خیبر پی کے میں انضمام کرنا،الگ صوبہ بنانا یا پرانے نظام میں ترمیم کرنا سب رائے ہیں،ہم اصلاحات کی حمایت کرتے ہیں اسلام آباد میں پانچ افرد اکٹھے ہو جاتے ہیں انہی کو نمائندہ سمجھ لیا جاتا ہے میڈیا فاٹا کے عوام کی تصویر بھی دکھائے،عجلت میں فیصلہ نہ کیا جائے۔ مسلم لیگ ن کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں ہوسکتا ہے مل کر الیکشن لڑیں گے،اے این پی بڑی جماعت ہے اس سے کوئی اختلاف نہیں ،پیپلز پارٹی بھی بڑی جماعت ہے ہو سکتا ہے سب مل جائیں۔خیبر پی کے چھوٹا صوبہ ہے اس پر حکومت کرنا آسان ہے،اس وقت حکومتی پارٹی کی کارکردگی مایوس کن ہے،جب یہ نائی کے آگے سے اٹھیں گے تو ننگے سر ہونگے، ان کے پاس الیکشن میں عوام سے ووٹ مانگنے کیلئے کچھ نہیں ہوگا ۔ کشمیر کے حوالے سے مربوط پالیسی موجود ہے۔جمہوری سسٹم میں ابھی تک کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی ،حکومتدرست سمت میں کام کررہی ہے۔ دریں اثنا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئیمولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ریاست کے خلاف جو بھی ہتھیار اٹھائے اسے دہشت گرد سمجھ کر کارروائی کی جائے۔ تحریک انصاف فوجی عدالتوں کے معاملے پر مذہبی طبقے کو ریاست کے مقابلے پر لانیکی کوشش نہ کرے‘ اسٹیبلشمنٹ کے کسی مذہب اور مسلک کے خلا ف ہونے کی رپورٹ نہیں ملی‘۔مذہب اور ریاست کو مقابلے میں لانا ملکی مفاد کے خلاف ہے‘ پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی بنائی ہوتی تو آج فوجی عدالتوں کی کارکردگی کے حوالے سے ہونے والے سوالات پیدا نہ ہوتے‘ دہشت گردی کو مذہب اور فرقے سے جوڑنا درست نہیں ‘ ریاست کے خلاف جو بھی ہتھیار اٹھائے اسے دہشت گرد سمجھ کر کارروائی کی جانی چاہئے پارلیمنٹ اور تمام سیاسی جماعتیں راضی ہیں تو فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کو کراہت اور ناپسندیدگی کے ساتھ قبول کرنے کو تیار ہیں‘ مذہب اور مسلک کو انسداد دہشت گردی قانون سے علیحدہ نہ کیا گیا تو حمایت نہیں کریں گے۔